اجتماعی پہلو
علی محمد الصلابیاجتماعی پہلو
رعیت کا اہتمام اور ان کے امور کی خبر گیری، ان کی ضروریات کی تکمیل اور مال فے اور عطیات میں سے ان کے حقوق کی ادائیگی۔
چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ولا تحرمھم عطایاھم عند ملحھا۔
ترجمہ: ’’ان کو ان عطیات سے محروم نہ کرنا۔‘‘
ترجیح نفس، انصاف سے انحراف اور خواہشات کی اتباع سے اجتناب، کیوں کہ اس میں ہلاکت و تباہی ہے جو حاکم کو انحراف کی طرف لے جاتی ہے، اور اس سے معاشرہ فساد اور انسانی تعلقات اضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔
چنانچہ وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
وایاک والاثرۃ والمحاباۃ فیما ولاک الله۔
ترجمہ: ’’خبردار! اللہ جس چیز کا تمہیں والی بنائے اس میں ترجیح نفس سے بچنا اور انصاف سے انحراف نہ کرنا۔‘‘
ولا توثر غنیھم علی فقیرھم۔
ترجمہ: ’’فقراء پر مال داروں کو ترجیح نہ دینا۔‘‘
رعایا کا احترام و توقیر اور ان کے لیے تواضع اختیار کرنا خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کیوں کہ اس سے اجتماعی تعلقات بلند ہوتے ہیں اور رعایا کے تعلقات اپنے قائد سے مضبوط ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک قائد سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
وانا شدک الله إلا ترحمت علی جماعۃ المسلمین، واجللت کبیرھم ورحمت صغیرھم ووقرت عالمھم۔
ترجمہ: ’’میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر رحم کرنا، بڑوں کا اجلال و اکرام اور چھوٹوں پر رحم کرنا، عالموں کی توقیر و تعظیم کرنا۔‘‘
رعایا پر دروازہ بند نہ کرنا تاکہ ان کی شکایات سن سکے اور ایک کو دوسرے سے انصاف دلا سکے۔ اور دروازہ بند کر دینے کی صورت میں آپس کے تعلقات اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں اور معاشرہ میں پیچیدگی اور انارکی عام ہو جاتی ہے۔
چنانچہ فرمایا:
ولا تغلق بابک دونھم ، فیاکل قویھم ضعیفھم۔
ترجمہ: ’’اپنا دروازہ رعایا کے سامنے بند نہ کرنا کہ قوی ضعیف کو کھا جائے۔‘‘
حق کی اتباع اور تمام حالات و ظروف میں معاشرہ میں اس کو قائم رکھنے کی حرص کیوں کہ یہ اجتماع ضرورت ہے لوگوں کے درمیان اس کو قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
چنانچہ فرمایا:
ثم ارکب الحق، وخض الیہ الغمرات۔
ترجمہ: ’’پھر تم حق کو اختیار کرو اور اس کے لیے سختیوں کو برداشت کرو۔‘‘
واجعل الناس عندک سواء ، لا تبال علی من وجب الحق۔
ترجمہ: ’’لوگوں کو اپنی نگاہ میں برابر رکھنا، جس پر حق عائد ہو اس سے حق وصول کرنے میں کسی کی پروا نہ کرنا۔‘‘
ہر طرح کے ظلم سے اجتناب خاص کر ذمیوں کے ساتھ، کیوں کہ رعایا کے درمیان خواہ مسلم ہوں یا ذمی اقامت عدل مطلوب ہے، تاکہ تمام لوگ اسلام کے عدل سے مستفید ہوں۔
چنانچہ فرمایا:
واوصیک الا ترخص لنفسک ولا لغیرک فی ظلم اہل الذمۃ۔
ترجمہ: ’’اور میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں پر ظلم کے سلسلہ میں نہ تو اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو رخصت دینا۔‘‘
دیہاتیوں کا اہتمام اور ان کی نگہداشت۔
چنانچہ فرمایا:
واوصیک باھل البادیۃ خیرا فانھم اصل العرب ومادۃ الاسلام۔
(الخلیفۃ الفاروق، العالی: صفحہ، 173، 175)
ترجمہ: ’’اور میں تم کو دیہات والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں وہ عرب کی اصل اور اسلام کا خام مال ہیں۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس وصیت کے ضمن میں یہ بات بھی تھی کہ کسی عامل کو سال بھر سے زیادہ باقی نہ رکھنا البتہ اشعریوں کو چار سال باقی رکھنا۔
(عصر الخلافۃ الراشدۃ: صفحہ، 102 لیکن حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 145 میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں اس اجتماع کے منعقد ہونے کو ترجیح دی ہے۔ مترجم)