Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عصاء رسولﷺ کس نے توڑا؟ حضرت جہجاہ غفاری رضی اللہ عنہ پر الزام کا جواب

  محمد عدنان چشتی عطاری مدنی

عصائے رسولﷺ‎ کس نے توڑا؟

بعض کتابوں میں امیر المؤمنین سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے نبی پاکﷺ‎ کا مبارک عصا ہاتھ میں لیے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے نہ صرف حضرت عثمانِ غنیؓ سے ناروا سلوک کیا بلکہ نبیﷺ‎ کا عصا مبارک چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا (العیاذ باللہ) عصا مبارک کی بے ادبی کی وجہ سے اس کے گھٹنے پر ایک پھوڑا نکل گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ یاد رہے یہ وہی عصا مبارک تھا جسے سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ بھی خطبے کے دوران ہاتھ میں لیا کرتے تھے۔
(الکامل فی التاريخ: جلد، 3 صفحہ، 58 ملخصاً)
تاریخ کی بعض کتابوں میں حضرت جہجاہ بن سعید غفاریؓ کے تذکرے کے تحت مذکورہ بالا واقعہ بھی ذکر ہو گیا ہے، جس سے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ عصائے رسول توڑنے کا معاملہ بھی آپؓ سے ہوا تھا، حالانکہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا یاد رہے محض گمان خیال اور اندازے کی بنیاد پر کوئی بھی خلافِ شرع بات کسی بھی مؤمن مسلمان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں چہ جائیکہ کوئی خلافِ شرع کام کسی صحابی رسولﷺ‎ کے ذمے لگادیا جائے۔
اللہ پاک کے فضل و کرم اور نبی کریمﷺ‎ کی نظر عنایت کے صدقے بیعتِ رضوان میں شریک صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی سیرت پر کام کے دوران درجنوں کتب سیرت و تاریخ کے مطالعے سے یہ بات روشن و عیاں ہوئی کہ عصا مبارک توڑنے کی نسبت صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی طرف کرنا درست نہیں کیونکہ یہ ناموسِ صحابیت کے ساتھ ساتھ تحقیق کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ذیل میں اس کی تفصیلی وضاحت موجود ہے:
پہلے وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمایئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ عصاۓ رسول توڑنے والے سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ نہیں ہیں چنانچہ
1: علامہ مطہر بن طاہر مقدسیؒ (وفات:355ھ) لکھتے ہیں:
ثم قام الجهجاه بن سنام الغفاری فأخذ القضيب من يده وكسرها الخ۔
یعنی پھر جہجاہ بن سنام غفاری اٹھا اس نے عصا چھین کر توڑ دیا۔
(البدء والتاریخ: جلد 5 صفحہ 205)
مقدور بھر کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام غفاری کا صحابی ہونا معلوم نہ ہو سکا۔
2: علامہ اسماعیل بن محمد اصبہانیؒ (وفات:535ھ) لکھتے ہیں:
روي عن ابنِ عمرؓ أن رجلًا يقال له جهجاه أو ابنِ جهجاهؓ أخذ عصى كانت في يد عثمانؓ فكسرها على ركبته فأصيب فی ذلك الموضع الأكلة۔
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی جسے جہجاہ یا ابنِ جہجاہ کہا جاتا تھا نے سیدنا عثمانِ غنیؓ کے ہاتھ سے عصا لے کر توڑ دیا۔ الخ 
(سیر السلف الصالحین: صفحہ، 184 دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض)
امام اصبہانیؒ کی عبارت بتاتی ہے کہ اس شخص کو جہجاہ یا ابنِ جہجاہ کہا جاتا تھا غور کیا جاۓ تو واضح ہے کہ صرف جہجاہ کہنے سے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی ذات ہی مراد لینا بغیر کسی دلیل کے ہے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ جہجاہ نامی یہ شخص کوئی اور ہے نیز ابنِ جہجاہ کے الفاظ بھی صحابی رسول مراد لینے سے منع کر رہے ہیں نیز مشہور قاعدہ ہے کہ: اذا جاء الاحتمال فبطل الاستدلال۔
کہ جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
لہٰذا قاعدے کے مطابق صحابی رسول کی جانب نسبت میں شک آ گیا اس لیے یقین سے ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ عصا توڑنے والا کام صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ نے کیا ہے۔
3: علامہ عبد الملک بن حسین شافعی مکیؒ (وفات: 1111ھ) اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
ولما أخذت من يد عثمانؓ العصا وهو قائم يخطب وكان الأخذلها جهجاه بن عمرو الغفاری وكسرها بركبته وقعت الآكلة فی ركبته والعياذ بالله تعالیٰ۔
ترجمہ: یعنی جہجاہ بن عمر و غفاری نے عصا لے کر توڑ دیا الخ۔
(سمط النجوم العوالی: جلد، 2 صفحہ، 525)
کوشش کے باوجود جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمرو کے بارے میں کسی بھی محدث کا یہ قول نہیں ملا کہ کسی صحابی رسول کا نام جہجاہ بن عمر و یا جہجاہ بن سنام ہو۔ اس لیے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی طرف یقین کے ساتھ اس معاملے کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔
4: امام محمد بن احمد مغربی افریقیؒ (وفات: 333ھ ) اس واقعے کو یوں ذکر فرماتے ہیں:
قال وحدثنی عمر بن يوسف قال حدثنی إبراهيم بن مرزوق قال حدثنی عارم عن حماد بن زيد عن يزيد بن حازم عن سليمان بن يسار أن رجلا يقال له جهجاه من غفارؓ دخل على عثمانؓ ومعه عصا رسول اللهﷺ‎ فأخذها الغفاریؓ فكسرها علی ركبتيه فوقعت الأكلة فی ركبتيه۔
ترجمہ: یعنی سیدنا سلیمان بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ قبیلہ غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ کہا جاتا تھا سیدنا عثمانِ غنیؓ کے پاس اس وقت آیا جب آپؓ کے پاس رسول اللہﷺ‎ کا عصا مبارک تھا تو اس غفاری نے سیدنا عثمانِ غنیؓ سے عصا چھین کر اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا جس سے اس کے گھٹنے پر پھوڑا ہو گیا۔
( کتاب المحن: صفحہ، 86)
قارئین کرام غور فرمائیے! أن رجلا يقال له جهجاه من غفار۔
ذکر کردہ عبارت کا اسلوب اور رجلا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ جہجاہ کوئی غیر معروف شخص تھا نیز اس عبارت سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ مراد ہیں۔ یہی حال امام ابوبکر ابنِ ابی شیبہؒ کی نقل کردہ روایت کا ہے جیسا کہ ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا ابنِ إدريس، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع أن رجلا يقال له جهجاه تناول عصى كانت فی يد عثمانؓ فكسرها بركبته، فرمى من ذلك الموضع باكلة۔
(مصنف ابنِ ابی شیبہ: جلد، 17 صفحہ، 79 حدیث: 32698)
یہی سند اور أن رجلاً يقال له جھجاہ کے الفاظ امام آجریؒ نے بھی نقل فرماۓ ہیں۔
(الشریعۃ: جلد، 4 صفحہ، 1998 حدیث: 1469)
5: امام ابنِ ابی الدنیاؒ یہ واقعہ یوں ذکر فرماتے ہیں:
حدثنا عبدالله قال: حدثنا أحمد بن المقدام قال: أخبرنا حماد بن زيد، عن زيد بن حازم، عن سليمان بن يسار، أن رجلا، من غفار يقال له: جهجاه، أوجهجا الغفاری، دخل على عثمانؓ، فانتزع عصاكانت فی يده فكسرها على ركبته فوقعت الأكلة فی ركبته۔
ترجمہ: یعنی غفار کا ایک آدمی جسے جہجاہ یا جہجا غفاری کہا جاتا تھا الخ۔
(العقوبات، صفحہ 212، رقم: 335)
5: امام مجد الدین فیروز آبادیؒ اپنی کتاب میں جہجاہ غفاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
وجهجاه الغفاری: ممن خرج على عثمانؓ، كسر عصا النبیﷺ‎، بركبته، فوقعت الأكلة فيها۔
یعنی جہجاہ غفاری وه ہے کہ جس نے سیدنا عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی ، نبی پاکﷺ‎ کا عصا اپنے گھٹنے پر مار کر توڑ دیا۔ الخ۔
القاموس المحيط: جلد، 2 صفحہ، 1635)
6: امام ابنِ اثیر جزریؒ (وفات:630ھ) نے ان الفاظ سے اس بات کو بیان فرمایا ہے:
قيل:وخطب يوما وبيده عصاكان النَّبِیﷺ وأبو بکرؓ و عمرؓ يخطبون عليها فأخذها جهجاه الغفاری من يده و كسرها على ركبته، فرمی فی ذلك المكان بأكلة۔
(الكامل فی التاريخ: جلد، 3 صفحہ، 58)
اس عبارت سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ نے یہ کام کیا ہو کیونکہ عبارت پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ
1: قیل کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا قائل معلوم نہیں جو کہ بے سند ہونے کی دلیل ہے۔
2: صرف جہجاہ غفاری کہنے سے صحابی رسول ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ جہجاہ بن سنام اور جہجاہ بن عمرو نیز ابنِ جہجاہ کا نام بھی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ صحابی رسول کا عظیم وصف بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بے سند بات کے ذریعے ایسے کام کی نسبت ان کی جانب نہ کی جائے جو ان کے شایانِ شان نہیں۔
3: صرف نام میں یکسانیت یا قدرے مماثلت کی بناء پر ایک کے کام کی نسبت دوسرے کی جانب ہو جانے کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے بدری صحابی سیدنا ثعلبہؓ سے نام میں یکسانیت کی وجہ سے زکوٰۃ کے انکار کے واقعے کی نسبت بہت سی کتابوں میں انہی جنتی صحابی کی طرف ہو گئی ہے جو کہ ہرگز درست نہیں۔
7: امام عمر بن شبہ بصریؒ (وفات:262ھ) لکھتے ہیں:
حدثنا موسىٰ بن إسماعيل، قال: حدثنا يوسف بن الماجشون، قال: أخبرنی عتبة بن مسلم المدنی أن آخر خرجة خرجها عثمانؓ يوم جمعة وعليه حلة جبرة مصفرا رأسه ولحيته بورس، قال: فما خلص إلى المنبر حتىٰ ظن أن لن يخلص، فلما استوى على المنبر حصبه النّاس، وقام رجل من بنی غفار يقال له: الجهجاه فقال: والله لنغر بنك إلى جبل الدخان، فلمانزل جيل بينه وبين الصلاة، فصلى للنّاس أبو أمامة بن سهل بن حنيف۔
(تاريخ المدينة لابنِ شبة: جلد، 3 صفحہ، 1110)
اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی تعیین کسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں بلکہ
رجل من بنج غفار يقال له: الجهجاة۔
کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کام کرنے والا کوئی غیر معروف شخص تھا۔
8: حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ لکھتے ہیں:
وقال سليمان بن يسار: أخذ جهجاه الغفاری عصا عثمانؓ التی كان يتحضر بها، فكسرها على ركبته، فوقعت فی ركبته الأكلة۔
(تاريخ الاسلام: جلد، 3 صفحہ، 474)
امام ذہبیؒ نے یہاں حضرت سلیمان بن یسارؒ کا قول نقل فرمایا ہے اس میں بھی جہجاہ غفاری کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ مراد لینا درست نہیں پھر بھی اگر کوئی اس سے صحابی رسول ہی مراد لے تو عرض ہے کہ اس بات کو بیان کرنے والے حضرت سلیمان بن یسارؒ کے بارے میں امام ذہبیؒ خود فرماتے ہیں:
ولد فی خلافة عثمانؓ.
یعنی آپ سیدنا عثمانِ غنیؓ کی خلافت میں پیدا ہوئے۔
(سیر اعلام النلا: صفحہ، 4)
امام ابنِ حبانؒ (وفات:354ھ) حضرت سلیمان بن یسارؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
كان مولده سنة أربع و ثلاثین۔
یعنی آپ کی ولادت 34ھ میں ہوئی۔
(مشاحر علاء الأمصار: صفحہ، 84 رقم: 432)
جب کہ سیدنا عثمانِ غنیؒ کی شہادت مبارک 18 ذوالحجۃ الحرام 35 سن ہجری میں ہوئی۔
(المنتظم: جلد، 5 صفحہ، 58)
اس طرح سیدنا عثمانِ غنیؒ کی شہادت کے وقت حضرت سلیمان بن یسارؒ کی عمر ایک سال تھی اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ آپ نے خود نہیں دیکھا بلکہ کسی نے آپ کو بتایا تھا وہ بتانے والا کون تھا؟ ثقہ یا غیر ثقہ کچھ معلوم نہیں۔
نوٹ: یاد رہے حضرت سلیمان بن یسارؒ سے ذکر کردہ تمام روایات میں یہ احتمال بہر حال موجود رہے گا۔
9: البدایہ و النہایہ میں یہ واقعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے:
قال الواقدی : حدثنی أسامة ابنِ زيد عن يحيىٰ بن عبد الرحمٰن بن خاطب عن أبيه قال: بينا أنا أنظر إلى عثمان يخطب على عصا النَّبِیﷺ التی كان يخطب عليها وأبو بکرؓ و عمرؓ، فقال له جهجاه: قم يانغثل فانزل عن هذا المنبر و أخذ العصا فكسرها على ركبته اليمنى فدخلت شظية منها فيها فبقی الجرح حتىٰ أصابته الأكلة فرأيتها ندود، فنزل عثمانؓ وحملوه وأمر بالعصا فشدوها۔
(البداية والباية: جلد، 5 صفحہ، 260)
اس عبارت میں بھی صرف جہجاہ کے الفاظ ہیں جس سے صحابی رسول سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی تعیین درست نہیں کیونکہ جہجاہ سے صحابی رسول مراد لینے پر عبارت میں کوئی دلیل نہیں۔
10: امام عمر بن شبہ بصریؒ (وفات:262ھ) نے اس واقعے کو اپنی کتاب تاریخ المدینہ میں چار سندوں سے ذکر کیا ہے:
ایک روایت سات نمبر کے تحت گزری جس میں یہ الفاظ ہیں:
وقام رجل من بنی غفار يقال له :الجهجاه،
دوسری روایت میں یہ: أن جهجاة الغفاری،
تیسری میں یہ: آن جهجاها
جب کہ چوتھی روایت میں یہ الفاظ ہیں: وقام جهجاه بن سعد الغفاری وكان متن بايع تحت الشجرة۔
پہلی تین روایات کی تو پہلے حوالوں جیسی کیفیت ہے کہ جہجاہ اور ایک شخص جسے جہجاہ کہا جاتا تھا سے صحابی رسول مراد لینے پر کوئی دلیل نہیں البتہ چوتھی روایت کے ذریعے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کام صحابی رسول نے ہی کیا ہے اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
1: اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن مصعب ہے اس کے بارے میں امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
وسئل ابنِ معين عن عبد الله بن مصعب فقال: ضعيف الحديث لم يكن له كتاب۔
(تاریخ الاسلام: جلد، 12 صفحہ، 250)
اسی طرح امام ابنِ حجر عسقلانیؒ نقل فرماتے ہیں: ضعفه ابنِ معين۔
(لسان المیزان: جلد 4 صفحہ، 165 رقم: 4854)
امام ذہبیؒ میزان الاعتدال: میں بھی لکھتے ہیں: ضعفه ابنِ معین۔
(میزان الاعتدال: جلد، 2 صفحہ، 389 رقم: 4992)
امام ابنِ ابی حاتم رازیؒ (وفات: 327ھ) فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد امام ابوحاتمؒ سے ان (عبد اللہ بن مصعب) کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا:
هو شيخ بابة عبد الرحمٰن بن أبی الزناد۔
(الجرح والتعدیل: جلد، 5 صفحہ، 178)
امام ابوحاتمؒ کے نزدیک عبد الرحمٰن بن ابی الزناد کی حیثیت ملاحظہ فرمایئے چنانچہ امام ابنِ ابی حاتمؒ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے ان کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: يكتب حديثه ولا يحتج به۔
(الجرح و التعديل: جلد، 5 صفحہ، 252)
جب ثابت ہو گیا کہ یہ روایت ضعیف ہے تو ایسی روایت کے ذریعے صحابی رسول کی جانب اس کام کی نسبت میں شک آ گیا جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس بات کی صحابی رسول کی جانب یقینی نسبت درست نہیں۔
2: ذکر کردہ چوتھی روایت میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ مدرج ہو کیونکہ: وقام جهجاه بن سعد الغفاري وكان ممن بايع تحت الشجرۃ۔ کے الفاظ کسی دوسری روایت میں موجود نہیں اس لیے انہیں راوی کا اضافہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
امام ابنِ اثیر جزریؒ کی (اسد الغابہ: جلد، 1 صفحہ، 452، الکامل فی التاریخ: جلد، 3 صفحہ، 58 ابنِ قتیبہؒ کی المعارف: صفحہ، 141، امام سخاویؒ کی  التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة: جلد، 1 صفحہ، 431، حافظ ابنِ کثیرؒ کی جامع المسانید و السنن: جلد، 3 صفحہ، 165، اور البدایۃ و النہایۃ: جلد، 5 صفحہ، 260، امام ابنِ عبد البرؒ کی الاستیعاب: جلد، 1 صفحہ، 334، امام صفدیؒ کی الوافی بالوفیات: جلد، 11 صفحہ، 160 وغیرہ کتب میں یہ واقعہ یا تو مجہول صیغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے یا بغیر کسی سند کے ذکر کیا گیا ہے، جس کی شرعی حیثیت پہلے ہی ذکر کر دی گئی ہے نیز امام بخاریؒ کی التاریخ الاوسط: جلد، 2 صفحہ، 176 رقم:271)  میں مذکور اس سند: حدثنا قتيبة ثنا محمد بن فليح بن سليمان عن أبيه عن عمته عن أبيها وعيها أنهما خضرا عثمانؓ۔ میں مجہول اور مجروح راوی موجود ہیں یہی سند امام ابنِ عساکرؒ (وفات: 571ھ) نے بھی ذکر کی ہے۔ 
(تاریخ مدینہ دمشق: جلد، 39 صفحہ، 329) 
امام ابنِ ناصر الدین دمشقیؒ (وفات:842ھ) فرماتے ہیں:
ورواہ فی تاريخه الصغير عن قتيبةؒ بنحوه، إلا أنه قال: یعنی امام بخاریؒ نے انہی قتیبہؒ وغیرہ سے تاریخ صغیر میں یہ الفاظ: فقام إليه فلان ابنِ سعد لم يسمہ۔ یعنی پھر فلاں بن سعد کھڑا ہوا نام ذکر نہیں کیا۔
(جامع الآثار: جلد، 6 صفحہ، 3157)
سوال: اس بات کا احتمال تو ہے کہ یہ کام انہی صحابی رسول نے کیا ہو؟
جواب: کسی خلاف شرع کام کی نسبت صرف احتمال، گمان، تخمینے اور اندازے کی بنیاد پر کسی صحابی رسول کی طرف کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان ہر گز نہیں کر سکتا، اس بات کو اس عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے:
ایک معاملے کی نسبت کسی نے امام ابو یوسفؒ کی طرف کر دی اس کے بارے میں بحث کرتے ہوئے امام اہلِ سنت، حضرت امام احمد رضا خانؒ لکھتے ہیں: تحقیق کے بغیر کسی مسلمان کی نسبت کبیرہ گناہ کی طرف کرنا جائز نہیں البتہ یہ کہنا جائز ہے کہ خارجی ابنِ ملجم نے امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اور ابو لولو مجوسی نے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کو شہید کیا کیونکہ یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے، لہٰذا بغیر تحقیق کے کسی مسلمان پر فسق و گفر کی تہمت لگانا جائز نہیں۔
(احیاء العلوم: جلد، 3 صفحہ، 154)
امام اہلِ سنت مزید فرماتے ہیں: کیونکر حلال ہو گیا کہ ایسے سخت کبیرہ شدید نہ کبیرہ بلکہ اکبر الکبائر کو ایک مسلمان نہ صرف مسلمان بلکہ امام المسلمین کی طرف بلا تواتر نہ فقط ہے تواتر بلکہ محض بلاسند صرف حکی کی بنا پر نسبت کر دیا جائے۔ امام ابو یوسفؒ کی طرف ایسی شدید عظیم بات نسبت کرنا حلال ٹھہرے حالانکہ تواتر چھوڑ کر اصلا کوئی ٹوٹی پھوٹی سند بھی نہیں۔
( فتاویٰ رضویہ: جلد، 10 صفحہ، 194 ملخصا)
اس عبارت کے تناظر میں جلیل القدر قطعی جنتی صحابی سیدنا جہجاہ بن سعید غفاریؓ کی جانب نظر کر میں تو ان کا جنتی ہونا، نبی کریمﷺ کی بارگاہ اور آپ سے نسبت رکھنے والی اشیاء کا ادب و احترام کرنا لازمی یقینی اور قطعی ہے کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ جب کہ عصائے رسول کی معاذاللہ بے ادبی والا واقعہ صحت کے اعتبار سے اس درجے کا نہیں کہ جو یقین کو ختم کر سکے تو لازم ہے کہ اليقين لا يزول بالشک۔
قاعدے کے تحت صحابی رسول کی جانب اس فعل کو منسوب نہ کیا جائے۔
آخر میں امام شہاب الدین خفاجیؒ کی عبارت ملاحظہ کیجئے جو کہ اس معاملے میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ امام خفاجی فرماتے ہیں:
وئی جرأته على قضيب رسول اللهﷺ‎ مع أنه من الصحابة الذين شهدوا المشاهد معهﷺ‎ إشكال لا يخفى فان الظاهر أنه يعرف القضيب وحرمته، وغضبه على عثمانؓ كان مجتهدأ متأولا فيما انكرون عليه، وما هذه الازلة عظيمة لاتليق بمن كان مؤمنا صحابیا۔
ترجمہ: یعنی نبی پاکﷺ‎ کے ساتھ غزوات میں شریک ہونے والے صحابی کا عصا مبارک کے ساتھ ایسی بے باکی کرنا اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس میں کئی ایسے اشکالات ہیں جو ڈھکے چھپے نہیں یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ وہ عصا مبارک اور اس کی حرمت کو اچھی طرح جانتے تھے کچھ کلام کے بعد مزید فرماتے ہیں: بہر حال یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ جسے ایک مؤمن صحابی رسول سے جوڑنا ہرگز مناسب نہیں۔
(نسیم الریاض: جلد، 4 صفحہ، 27 طفلا)
الغرض صحابی رسول سیدنا ہجاہ بن سعید غفاریؓ کی جانب اس معاملے کو یقینی اور قطعی طور پر منسوب نہیں کیا جا سکتا۔