Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مالک بن نویرہ کی حقیقت

  جعفر صادق

 مالک بن نویرہ کی حقیقت

مالک بن نویرہ بنو تمیم کی شاخ بنو یربوع  کا سردار تھا۔ کنیت ابوحنظلہ تھی۔ عرب کے مشہور شعراء اور شہسواروں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ یہ مسلمان کب ہوا اس کی صحیح تاریخ دستیاب نہیں۔ غالباً 8 یا 9 ھجری میں ہوا ہوگا۔

تاریخ کی اس متنازعہ شخصیت کے متعلق اہل تشیع پر یقین ہیں کہ

⬅️ مالک بن نویرہ مرتد نہیں ہوا تھا۔

⬅️ مالک بن نویرہ نے زکواۃ ادا کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔

⬅️ مالک بن نویرہ نے دعویٰ نبوت کرنے والی عورت سجاح بنت حارث کی حمایت بھی نہیں کی تھی۔

تاریخ اسلام کی کتب میں مالک بن نویرہ کی شخصیت کو بعد از پیغمبرﷺ اچھے الفاظ میں  بیان نہیں کیا گیا۔

♦️ #مالک_بن_نویرہ کے متعلق اہم حقائق

1⃣ نبی کریمﷺ کے ظاہری وفات کی خبر سن کر مالک بن نویرہ نے اپنے قبیلے میں خوشیاں منائی تھیں۔

2⃣ نبی کریم نے اسے اپنے قبیلے بنو تمیم کی زکوٰۃ وصولی کے لئے مقرر کیا تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ رحلت فرما گئے ہیں ، اس نے اپنے قبیلے سے زکوٰۃ وصول کرنا بند کر دیا، اس کے علاوہ پہلے سے جمع شدہ رقم کو بھی واپس ان کے مالکان کو لوٹا دیا۔

3⃣ تاریخ کی کئی کتب میں نبوت کی دعویدار سجاح بنت حارث اور مالک بن نویرہ کی ملاقات اور اس کی تائید و حمایت کے قصے بیان کئے گئے ہیں۔

♦ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جنگ و جہاد کا اعلان کیا اور پھر حضرت خالد بن ولیدؓ کی گرفت میں مالک بن نویرہ بھی آگیا، زکوٰۃ کا منکر اور مرتد ثابت ہونے پر اسے قتل کردیا گیا تاکہ عرب قبائل میں منکرین زکوۃ تک سخت پیغام پہنچ سکے۔

♦ مختلف روایات میں مالک بن نویرہ کو قتل کرنے کی مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ایک روایات میں تو مالک بن نویرہ کی بیوی کو بھی وجہ قتل کہا گیا ہے کیونکہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بعد میں اس سے شادی کرلی تھی۔

♦ تاریخ ابن کثیر اور دوسری کتب میں بھی مذکور ہے کہ مالک بن نویرہ کی گرفتاری کے بعد کچھ صحابہ کرامؓ میں اختلاف پیدا ہوا کہ وہ اور اس کا قبیلہ مرتد ہوا ہے یا نہیں۔

♦ اس موقعہ پر حضرت ابوقتادہؓ نے بھی گواہی دی تھی کہ بنو تمیم  نے نماز پڑھی ہے، دوسرے صحابہ کرامؓ نے نماز اور اذان سننے کی بھی گواہی دی تھی۔

♦ یہی وجہ ہے کہ مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کو فورآ قتل نہیں کیا گیا بلکہ مزید تفتیش کے لئے گرفتار کیا گیا۔

♦بعد کی روایات میں مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلے کے قتل کی تفصیلات مختلف بیان کی گئی ہیں۔

تاریخ طبری (اردو) میں بھی کم و بیش یہی تفصیل موجود ہے۔

مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد کی صورتحال

حضرت خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نویرہ کی بیوی سے شادی کرلی، مختلف روایات میں مختلف تفصیل بیان کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ شیعہ حضرات اس واقعہ کے متعلق کئی طرح کے اعتراضات بھی پیش کرتے ہیں۔

ان تمام اعتراضات کے تحقیقی اور مدلل جوابات بمعہ مکمل تاریخی کتب کے حوالاجات کے متعلق  ایک مختصر تحقیقی رپورٹ بھی پیش خدمت ہے۔

اعتراض: مالک کی بیوہ سے زنا یا قبل از عدت نکاح والی بات کی کیا توجیہ ہے؟

رسولﷺ کے صحابہؓ کو اجتہاد کی ضرورت کیسی، کیا ان کے پاس قرآن و سنت کے حکم صریح موجود نہ تھے ؟اور ان کے باہمی اختلاف کی کیا توجیہ ہے ؟ بعد کے مجتہدین کا ، ہر قسم کی روایات کی وجہ سے ،اختلاف سمجھ میں آتا ہے مگر صحابہؓ کے درمیان اجتہادی اختلاف کا وجود اور وجہ ؟

  صحابہ کے اجتہاد میں اختلاف کی صورت میں کس صحابی (رض)کی پیروی کی جائے ؟ کیا ان کے اختلاف کی صورت میں کسی کی بھی پیروی کافی ہوگی ؟۔

الجواب:

مالک کی بیوہ سے قبل از عدت نکاح کے متعلق کوئی روایت ثابت نہیں لہذا اس پر بحث کرنا ہی فضول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگرشیعہ کو قرآن میں مالک بن نویرہ کے متعلق کوئی آیت دکھائی دے، یا حدیث میں مالک بن نویرہ کے متعلق کوئی حدیث دکھائی دے تو پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر مالک بن نویرہ کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہی نہیں، اور مالک بن نویرہ کا معاملہ کم از کم مشتبہ ہے، تو اس صورت میں باہمی اختلاف کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ۔

اور اگر شیعہ کو لگتا ہے کہ صحابہؓ کے درمیان اجتہادی امور کا پیش آنا ہی ناممکن بات ہے، تو شیعہ اپنے دماغ کو ضرورت سے کم استعمال کر رہے ہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ صحابہؓ کے اجتہاد میں اختلاف کی صورت میں کس صحابی کی پیروی کی جائے گی، تو گزارش ہے کہ شیعہ اپنے مجتہدین کے درمیان اختلافات کو دیکھ لیں، ان میں اختلاف سے تو شیعہ کے اپنے دین پر کوئی اثر نہیں پڑا، تو پھر صحابہؓ کے اجتہاد میں اختلاف سے ہمارے دین میں نقص  کیسے آجائے گا؟

اس اعتراض میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں کچھ باتیں ہیں ، حالاں کہ مالک بن نویرہ نبی کریمﷺ کی وفات کی خبر سن کر مرتد ہو چکا تھا ، اور اس کی وہ بیوی مدت سے مطلقہ تھی ، شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے بھی تحفہ اثنا عشریہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

*مالک بن نویرہ کا مرتد ہونا!!!

شیعہ عالم شیخ مفید کا اقرار*

چوٹی کا شیعہ عالم شیخ مفید مالک بن نویرہ کو مرتد سمجھتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے :

ولو كانت الصحبة أيضا مانعة من الخطأ في الدين والآثام لكانت مانعة لمالك بن نويرة وهوصاحب رسول الله صلى الله عليه وآله على الصدقات ومن تبعه من وجوه الدسلمين من الردةعن الاسلام۔

اگر صحبت دین  خطا اور گناہ سے روک سکتی، تو یہ مالک بن نویرہ کو اسلام سے پھر  جانے سے روک لیتی جو کہ رسول اللہﷺ کی طرف سے صدقات اکٹھا کرنے پر مامور تھے، اور اس کی پیروی کرنے والے لوگوں کو بھی جو مسلمانوں میں سے تھے۔

(الافصاح للمفید ص 41)۔

شیخ مفید نے ایک سوال کا جواب  لکھا ہے:

سوال: کس طرح ہم یہ گمان کر لیں کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ کا حق چھینا جب کہ وہ رسول اللہﷺ کے اصحاب، روساء مہاجرین اور اسلام کی طرف سبقت کرنے والے تھے۔؟

اس کے جواب میں شیخ مفید کہتا ہے کہ روساء مہاجرین اور اسلام کی طرف سبقت کرنے والے تو حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ ،حضرت جعفر بن طیارؓ،  اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ ہیں۔

کیا اہلسنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روساء مہاجرین اور السابقین سے مراد صرف  حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ ،حضرت جعفر بن طیارؓ،  اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ ہیں؟ یہ تو اہلسنت کا عقیدہ نہیں۔ پس شیعہ کو ماننا پڑے گا کہ  شیخ مفید اپنا ہی عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ اس کے لئے اہلسنت کے نظریات کا سہارا نہیں لے رہے، بلکہ اپنا موقف دلائل کی روشنی میں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ اہل تشیع کا عجیب وطیرہ ہے کہ جہاں اپنے امام یا عالم کا قول اپنے خلاف دیکھ لیتے ہیں تو اس کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ تقیہ کے طور پر تھا، کبھی کہتے ہیں کہ یہ الزامی جواب تھا۔ اور اس کے لئے دلیل ان کے پاس کوئی ہوتی نہیں، بس خیالی پلاؤ کا سہارا لیتے ہیں۔

اسی وجہ سے مشہور شیعہ عالم علی الکورانی نے شیخ مفید کی یہ عبارت نقل کرتے ہوئے مالک بن نویرہ کے ارتداد کے متعلق قول کو حذف کر کے تین نکتے (۔۔۔) لگا دیئے، لیکن یہ پردہ پوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی اور اہل سنت نے موصوف کی ناکام کوشش کا پردہ چاک کر دیا۔

شیعہ کتابوں سے مسئلہ اس لئے حل نہیں ہوسکتا کہ شیعہ کتب میں مالک بن نویرہ مجہول الحال شخص ہے۔ اور اس کے متعلق کسی ایک صحیح شیعہ روایت کا ملنا محال ہے۔

*شیعہ کتب میں مالک بن نویرہ کی جھوٹی توثیق*

اہل تشیع کہتے ہیں کہ مالک بن نویرہ مجہول الحال نہیں ہے ، شیعہ کتاب منتہی المقال فی احوال الرجال ج 5 ص 277 میں رقم 2384 پر مالک بن نویرہ کے حالات میں لکھا ہے کہ : ۔

"مالک بن نویرہ ، علی ع سے اختصاص رکھتا تھا، اور اس نے خلیفہ اول کی بیعت نہیں کی اور خالد نے اس کے قتل کا حکم دیا اور اسی رات اس کی بیوی سے جماع کیا۔  اسی کتاب میں مجالس المومنین کے حوالے سے لکھا ہے کہ : جب مالک بن نویرہ رسول اللہ ص سے  ایمان کامل کی تعلیم لے چکا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو اہل جنت کو دیکھنا چاہے وہ اس کو دیکھے ۔''

کیا چودہ سو سال تک شیعہ معتبر علماء جنہوں نے بہت ساری اسماءالرجال کتب تصنیف کی ہیں ، ان کو مالک بن نویرہ کا معلوم ہی نہیں تھا؟

*ملاحظہ فرمائیں*

⬅️تنقیح المقال دور جدید کی کتاب ہے۔

⬅️مجالس المؤمنین کے حوالے سے جو روایت نقل کی گئی ہے، اس کی کوئی سند ہی نہیں ہے۔

⬅️جب اس روایت کی سند ہی نہیں تو وہ صحیح کیسے ہو گئی؟

*شیعہ کی طرف سے مالک بن نویرہ کی ایک اور جھوٹی توثیق*

⬅️مستدرکات علم رجال الحدیث بھی دور جدید کی کتاب ہے۔

⬅️ کیا دور جدید کے شیعہ علماء کو الہام ہوگیا تھا کہ مالک بن نویرہ صحابی رسول ہیں!!! اس سے پہلے کے شیعہ علماء نے اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا۔۔؟

♦️دوسری بات یہ ہے کہ شیعہ کے متقدمین نے رجال پر کئی کتابیں لکھیں۔ کسی میں بھی مالک بن نویرہ کی توثیق موجود نہیں۔ شیعہ رجال کی ایسی کتب سے مالک بن نویرہ کی توثیق دکھاتے ہیں جن کو لکھے ہوئے دو سو سال بھی نہیں گزرے۔  لگتا ہے کہ شیعہ علماء کو کافی عرصہ بعد کسی نامعلوم ذریعہ سے مالک بن نویرہ کا پتہ چلا ہے۔