احادیث نبویہ جن میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے
علی محمد الصلابیاحادیثِ نبویہ جن میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پر دلالت کرنے والی احادیث بے شمار، مشہور اور متواتر ہیں، جو صراحتاً یا اشارتاً آپؓ کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ احادیث اپنی شہرت اور تواتر کی وجہ سے
معلوم من الدین بالضرورۃ یعنی
ترجمہ: دین کے معروف اہم ضروری احکام کا درجہ حاصل کر چکی ہیں، جن کے انکار کی اہلِ بدعت کے یہاں گنجائش نہیں۔
(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 539)
ان احادیث میں سے چند یہ ہیں:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، رسول اللہﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ پھر دوبارہ حاضر ہونا۔ اس خاتون نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپﷺ نہ ملیں یعنی فوت ہو چکے ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا:
ان لم تجدینی فاتی ابابکر
ترجمہ: اگر میں نہ ملوں تو حضرت ابوبکرؓ کے پاس حاضر ہونا۔
(البخاری: 3658، مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1856/1857)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے وعدوں کی تکمیل آپﷺ کے بعد آنے والے خلیفہ کی ذمہ داری تھی اور اس حدیث میں شیعہ کا رد ہے جو یہ زعم رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علی و سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے بعد خلیفہ بنائے جانے کی تنصیص فرمائی ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانیؒ: جلد، 3 صفحہ، 233/234)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپﷺ نے فرمایا
انی لا ادری ما قدر بقائی فیکم فاقتدوا بالذین من بعدی۔
ترجمہ: مجھے پتہ نہیں، میں کب تک تمہارے درمیان رہتا ہوں، لہٰذا تم میرے بعد ان دونوں کی اقتداء کرنا۔ اور یہ کہتے ہوئے آپﷺ نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ فرمایا۔
(الابانۃ فی اصول الدیانۃ: صفحہ، 67)
فاقتدوا بالذین من بعدی۔
ترجمہ: یعنی میرے بعد ان دونوں خلفاء کی اقتداء کرنا جو میرے قائم مقام ہوں گے اور وہ دونوں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ یہاں رسول اللہﷺ نے ان کے حسنِ سیرت اور صدق باطن کی بنا پر ان کی اقتداء کا حکم فرمایا اور اس حدیث میں امر خلافت کے سلسلہ میں واضح اشارہ ہے۔
(تحفۃ الاحوذی بشرح الترمذی: جلد، 10 صفحہ، 147)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا.
بینما انا نائم اریت انی انزع علی حوضی اسقی الناس فجائنی ابوبکر فاخذ الدلو من یدی لیروحنی فنزع الدلوین وفی نزعہ ضعف واللہ یغفرلہ فجاء ابن الخطاب فاخذ منہ فلم ار نزع رجل قطُّ اقوی منہ حتی تولی الناس والحوض ملآن یتفجر۔
(مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1841/1842)
ترجمہ: تم میرے پاس سیدنا ابوبکرؓ اور اپنے بھائی کو بلاؤ میں ان کے لیے ایک کتاب لکھ دوں کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کہنے والا کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چاہتے ہیں۔
یہ حدیث سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت پر واضح طور سے دلالت کرتی ہے، بایں طور کہ رسول اللہﷺ نے مستقبل میں اپنی وفات کے بعد واقع ہونے والے امر کی خبر دی اور یہ بتلایا کہ مسلمان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاؤہ کسی کو مسند خلافت نہیں دیں گے اور حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سلسلہ میں قدرے اختلاف رونما ہو گا اور یہ سب جیسا آپﷺ نے خبر دی واقع ہوا، پھر لوگ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پر متفق ہو گئے۔
(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 542)
سیدنا عبیداللہ بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا
کیا آپؓ مجھے رسول اللہﷺ کے مرض الموت کی کیفیت بتلائیں گی؟
فرمایا کیوں نہیں ضرور۔ جب رسول اللہﷺ کی بیماری نے شدت اختیار کی، آپﷺ نے دریافت فرمایا
کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟
ہم نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ! آپﷺ کا انتظار کر رہے ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا میرے لیے ٹب میں پانی رکھو۔
ہم نے پانی رکھ دیا، آپﷺ نے غسل فرمایا۔ پھر جب آپﷺ اٹھنے لگے تو آپﷺ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟
ہم نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ کا انتظار کر رہے ہیں۔
فرمایا میرے لیے ٹب میں پانی رکھو۔
ہم نے پانی رکھ دیا آپﷺ نے غسل فرمایا، پھر جب آپﷺ اٹھنے لگے آپﷺ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر جب افاقہ ہوا، فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟
ہم نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
ام المؤمنین فرماتی ہیں لوگ مسجد میں عشاء کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکرؓ چونکہ رقیق القلب تھے، اس لیے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا
اے عمرؓ! آپؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آپؓ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔
پھر سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان ایام میں نماز پڑھاتے رہے، پھر ایک روز رسول اللہﷺ نے مرض میں تخفیف محسوس کی تو دو آدمیوں کے سہارے جن میں ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے نکلے اور حضرت ابوبکرؓ نماز شروع کر چکے تھے، جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہﷺ نے اشارے سے انہیں نہ ہٹنے کا حکم دیا اور ان دونوں سہارا دینے والوں سے کہا مجھے سیدنا ابوبکرؓ کے پہلو میں بٹھا دو۔ انہوں نے آپﷺ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ سیدنا ابوبکرؓ کھڑے ہو کر نبی کریمﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے اور نبی کریمﷺ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔
سیدنا عبیداللہؓ کہتے ہیں پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور عرض کیا کیا میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے مرض الموت سے متعلق بیان کی ہے اس کو آپؓ پر پیش کروں؟
فرمایا بیان کرو۔
جب میں نے بیان کیا تو سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے تمام باتوں کی تصدیق کی، کسی بات پر نکیر نہ کی صرف اتنا کہا
کیا ام المؤمنین نے حضرت عباسؓ کے ساتھ دوسرے شخص جو تھے ان کا نام لیا ہے؟
میں نے کہا نہیں۔
تو فرمایا وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
(البخاری: 687، مسلم: صفحہ، 418 عقیدہ اہلِ السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 542)
حدیث بہت سے عظیم فوائد پر مشتمل ہے۔ من جملہ ان فوائد کے یہ ہے
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آپؓ کی ترجیح و تفضیل اور یہ کہ دوسروں کے مقابلہ میں آپؓ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔
امام کو جب کوئی عذر لاحق ہو جائے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہو سکے تو دوسرے کو نیابت سونپ دے اور جس کو نائب بنائے وہ ان میں سب سے افضل ہو۔
سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سيدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و بزرگی کیونکر حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو امامت کی پیشکش کی، کسی دوسرے کو نہیں کہا۔
(شرح النووی: جلد، 4 صفحہ، 137)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو انصار نے کہا
ہم میں سے ایک امیر ہو اور آپؓ (مہاجرین) میں سے ایک امیر ہو۔
سیدنا عمرؓ ان کے پاس پہنچے اور کہا اے انصار! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا ہے؟ تو تم میں سے کون گوارا کرے گا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھے؟
انصار نے جواباً عرض کیا اس بات سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوبکرؓ سے آگے بڑھیں۔
(المستدرک للحاکم: جلد، 3 صفحہ، 67)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب نبی کریمﷺ وفات پا گئے تو ہم نے اپنے معاملہ (خلافت) میں غور کیا، تو ہم نے پایا کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھایا، تو جس کو رسول اللہﷺ نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا اس کو ہم نے اپنی دنیا کے لیے پسند کر لیا اور منصبِ خلافت کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔
(الطبقات لابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 183)
رسول اللہﷺ کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کے لیے آگے بڑھانے پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابوالحسن اشعریؒ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کا حضرت ابوبکرؓ کو نماز کے لیے آگے بڑھانا دین اسلام کی ان چیزوں میں سے ہے جن کا جاننا از حد ضروری ہے اور آپؓ کا نماز کے لیے آگے بڑھایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے اعلم و اقرأ ہیں، کیونکہ متفق علیہ حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
یؤمُّ القوم أقرؤہم لکتاب اللہ فان کانوا فی القراء ۃ سواء فاعلمہم بالسنۃ فان کانوا فی السنۃ سواء فاکبرہم سنا فان کانوا فی السِّنِّ سوائٌ فأقدمہم سلاما۔
ترجمہ: لوگوں کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا بڑا حافظ ہو، اگر حفظ قرآن میں برابر ہوں تو وہ امامت کرائے جو سنت کا بڑا عالم ہو، اور اگر سنت کے علم میں برابر ہوں تو وہ امامت کرائے جو عمر میں بڑا ہو، اور اور اگر عمر میں برابر ہوں تو وہ امامت کرائے جو اسلام میں مقدم ہو۔
حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں امام اشعریؒ کا یہ کلام آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے اور پھر یہ تمام صفات سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں اکٹھی تھیں۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 5 صفحہ، 245)
حضرت ابوبکرؓ کی امامت و خلافت نص خفی سے ثابت ہے یا نص جلی سے؟ علمائے اہلِ سنت کے دو قول ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت نص خفی اور اشارۃ النص سے ثابت ہے۔ یہ قول امام حسن بصریؒ اور اہلِ الحدیث کی ایک جماعت کی طرف منسوب ہے۔
(منہاج السنۃ، لابن تیمیہ: جلد، 1 صفحہ، 134/135)
یہی ایک روایت امام احمد بن حنبلؒ سے ہے۔
(منہاج السنۃ، لابن تیمیۃ: جلد، 1 صفحہ، 134)
ان حضرات کا استدلال ہے کہ مرض الموت میں رسول اللہﷺ نے آپؓ کو امامت صلاۃ کے لیے آگے بڑھایا اور مسجد میں کھلنے والے تمام دروازوں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے علاؤہ بند کرنے کا حکم فرمایا۔ اس سے آپؓ کی امامت و خلافت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کی امامت و خلافت نص جلی سے ثابت ہے اور یہ اہلِ الحدیث کے ایک گروہ کا قول ہے۔
(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 547)
اور امام ابنِ حزم ظاہریؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
(الفصل فی الملل والاہواء والنِّحل: جلد، 4 صفحہ، 107)
ان لوگوں کا استدلال اس خاتون کی روایت سے ہے جس کو رسول اللہﷺ نے کہا تھا
ان لم تجدینی فاتی ابابکر
ترجمہ: اگر مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا۔
(مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1856/1857)
اس حدیث سے ہے جس میں رسول اللہﷺ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا۔
ادعی لی ابابکر واخاک حتی أکتب کتابا فانی اخاف ان یتمنی متمن ویقول قائل انا اولی، ویابی اللہ والمومنون الا ابابکر۔
(مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1857/2387)
تم میرے پاس سیدنا ابوبکرؓ اور اپنے بھائی کو بلاؤ، میں ان کے لیے ایک عہد نامہ لکھ دوں کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کہنے والا کہے کہ میں (خلافت) کا زیادہ حقدار ہوں حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چاہتے ہیں۔ اور اسی طرح اس حدیث سے ہے جس میں رسول اللہﷺ نے اپنا خواب بیان کیا ہے کہ آپﷺ حوض پر تھے اور لوگوں کو اس سے پانی نکال کر پلا رہے تھے، پھر سیدنا ابوبکرؓ آئے اور آپﷺ کے ہاتھ سے ڈول لے کر پانی نکالنے لگے تا کہ آپ کو آرام ملے۔[1]
(مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1861/1862)
بحث و تحقیق کے نتیجے میں جس رائے پر میں پہنچا ہوں اور جس کی طرف میرا رجحان ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اس کا حکم نہیں فرمایا کہ وہ سیدنا ابوبکرؓ کو آپﷺ کے بعد خلیفہ بنائیں لیکن آپﷺ نے ان کی اس طرف رہنمائی کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بتلا دیا تھا کہ اہلِ ایمان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کریں گے، اس لیے کہ آپؓ کو وہ تمام فضائل عالیہ حاصل ہیں جو قرآن وسنت میں وارد ہیں اور اس کی وجہ سے آپؓ تمام امت پر فوقیت رکھتے ہیں۔
(عقیدۃ اہلِ السنۃ والجماعۃ: جلد، 2 صفحہ، 548)
علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تحقیقی بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے کی خبر دی اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ سے آپﷺ نے اس کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی، اور آپؓ کی خلافت کی اچھے انداز میں خبر دی اور اس سلسلہ میں عہد نامہ لکھنے کا عزم کیا، پھر جب آپؓ کو معلوم ہو گیا کہ مسلمان آپؓ کی خلافت پر متفق ہو جائیں گے تو اس پر اکتفا کرتے ہوئے آپؓ نے عہد نامہ لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اگر خلیفہ کی تعیین امت پر مشتبہ ہوتی تو رسول اللہﷺ ضرور اس کو واضح طور پر بیان کر دیتے تا کہ عذر ختم ہو جاتا، لیکن جب متعدد طریقے سے ان کی رہنمائی فرما دی کہ سیدنا ابوبکرؓ ہی خلافت کے لیے متعین ہیں اور لوگوں نے اس کو سمجھ لیا، جس سے مقصود حاصل ہو گیا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں کہ جس کی طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح گردنیں اٹھیں۔
پھر علامہ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں نصوصِ صحیحہ سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کی صحت اور ثبوت اور اللہ و رسول کے اس سے راضی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آپؓ کی خلافت پر مسلمانوں کی بیعت منعقد ہوچکی ہے اور صحابہ نے آپؓ کو بحیثیت خلیفہ ان نصوص کی بنیاد پر منتخب کیا تھا جن میں اللہ و رسولﷺ کی طرف سے آپؓ کی تفضیل وارد ہے۔ لہٰذا آپ کی خلافت نص اور اجماع دونوں ہی سے ثابت ہے۔ نیز نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ و رسولﷺ اس سے راضی ہیں اور یہ حق ہے، اللہ نے اس کا حکم فرمایا اور یہ مقدر فرمایا کہ اہلِ ایمان آپ کو منتخب کریں گے اور یہ اسلوب بہ نسبت مجرد عہد و تعیین کے زیادہ مؤثر اور بلیغ ہے کیونکہ محض عہد و تعیین کی صورت میں اس کا ثبوت صرف عہد و تعیین کی بناء پر ہوتا لیکن جب بغیر عہد و تعیین کے مسلمانوں نے آپؓ کو منتخب فرمایا اور نصوص نے اس کو درست ٹھہرایا اور اللہ و رسولﷺ نے اس کو پسند فرمایا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس قدر فضائل کے حامل تھے کہ آپؓ کی شخصیت دوسروں سے ممتاز تھی، جس کی وجہ سے اہلِ ایمان نے آپؓ کو اس منصبِ خلافت کا دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حقدار سمجھا اور ایسی صورت میں عہد و تعیین کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
(منہاج السنۃ: جلد، 1 صفحہ، 139/141 مجموع الفتاویٰ: جلد، 35 صفحہ، 47/49)