Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مکہ و مدینہ میں

  علی محمد الصلابی

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مکہ و مدینہ میں

نام و نسب، کنیت اور القاب

نام و نسب: سیدنا عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب۔

(الطبقات، ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 53 الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، رقم 5463)

اس طرح عبدمناف پر آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہﷺ کے سلسلہ نسب میں جا ملتا ہے۔ آپ کی والدہ ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی ہیں۔

(التمہید والبیان فی مقتل الشہید عثمان، محمد یحییٰ الاندلسی: صفحہ، 19)

اور آپ کی نانی ام حکیم بیضاء بنتِ عبدالمطلب ہیں جو رسول اللہﷺ کے والد عبداللہ کی سگی بہن تھیں، اور زبیر بن بکار کی روایت کے مطابق دونوں جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پھوپھی زاد بہن کے لڑکے تھے، اور رسول اللہﷺ آپ کی والدہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ آپ کی والدہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ کی خلافت میں وفات پائی اور آپ ہی انہیں قبرستان لے گئے۔

(الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الأمویۃ، یحییٰ الیحیی: صفحہ، 388)

آپ کے والد دورِ جاہلیت ہی میں وفات پا چکے تھے۔

 کنیت: دورِ جاہلیت میں آپ کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب آپ کی زوجیت میں سیدہ رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ آئیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا اس وقت سے آپ نے ابو عبداللہ کی کنیت اختیار کی اور مسلمانوں نے اسی کنیت سے آپ کو یاد کرنا شروع کر دیا۔

(التمہید والبیان فی مقتل الشہید عثمان: صفحہ، 19)

3: لقب: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، علامہ بدر الدین عینی 

(آپ کا نام محمود بن احمد بن موسیٰ عینی ہے ابو محمد آپ کی کنیت ہے۔ تاریخ، حدیث اور فقہ کے علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ 855ھ میں وفات پائی۔ دیکھیے: شذرات الذہب: جلد، 7 صفحہ، 286 الضوء اللامع: جلد، 10 صفحہ، 131) 

بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں: 

’’اس لیے کہ آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی زوجیت میں نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔‘‘

(مہلب بن ابی صفرہ الازدی العقلی، بہادر امراء میں سے ہیں۔ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ہندوستان پر حملہ کیا، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہدِ خلافت میں جزیرہ کے والی مقرر ہوئے، اور عبدالملک بن مروان کے عہدِ خلافت میں خوارج سے جنگ کی اور پھر 79ھ میں عبدالملک کی طرف سے خراسان کے والی مقرر ہوئے آپ کی شہرت خوارج کے ساتھ جنگ سے وابستہ ہے۔ 83ھ میں وفات پائی۔ دیکھیے: وفیات الاعیان: جلد، 5 صفحہ، 350 سیراعلام النبلاء: جلد، 4 صفحہ، 383)

’’مہلب بن ابی صفرہ (عمدۃ القاری: جلد، 16 صفحہ، 201) سے پوچھا گیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کیوں کہا گیا؟ تو انہوں نے فرمایا: عبداللہ بن عمر بن ابان جعفی کہتے ہیں، مجھ سے میرے ماموں حسین الجعفی نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کیوں کہا گیا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اس وقت سے لے کر قیامت تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی زوجیت میں نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں۔ اسی لیے آپ کو ذوالنورین سے ملقب کیا گیا۔

(سنن البیہقی: جلد، 7 صفحہ، ڈاکٹر عاطف الماضیہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔)

بعض لوگوں نے یہ وجہ تسمیہ بیان کی ہے کہ آپ ہر رات نماز میں کثرت سے تلاوت قرآن کرتے تھے چونکہ قرآن اور قیام لیل دونوں ہی نور ہیں اس لیے آپ کو ذوالنورین کہا گیا۔

(عثمان بن عفان ذوالنورین، عباس العقاد: صفحہ، 79)

ولادت: آپ صحیح قول کے مطابق مکہ میں عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ (الإصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 377 5464)

بعض لوگوں نے مقامِ ولادت طائف قرار دیا ہے۔ آپ رسول اللہﷺ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔ (عثمان بن عفان، صادق عرجون صفحہ، 45)

پیدائشی اوصاف: آپ کا قد درمیانہ تھا نہ پست قد تھے اور نہ بہت لمبے، چمڑا باریک تھا، گھنی اور لمبی داڑھی تھی، جوڑوں کی ہڈیاں بڑی تھیں۔ دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ بڑا تھا۔ سر میں گھنے بال تھے۔ داڑھی میں زرد خضاب لگاتے تھے۔

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ درمیانہ قد حسین بالوں والے اور خوبصورت تھے، سر کے سامنے کے بال گر گئے تھے، دونوں قدموں کے درمیان اچھا فاصلہ تھا، (تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 440)

ناک اونچی تھی، پنڈلیاں ضخیم تھیں، بازو لمبے تھے، بال گھنگھریالے تھے، دانت انتہائی خوبصورت تھے۔ آپ کی زلفیں کانوں سے نیچے لٹکتی تھیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا رنگ گندمی تھا، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آپ گورے چٹے تھے۔ 

(صفوۃ الصفوۃ: جلد، 1 صفحہ، 295 صحیح التوثیق فی سیرۃ و حیاۃ ذی النورین: صفحہ، 15)