پاکستان میں ایرانی انقلاب لانے کے لیے شیعہ کے ماتمی سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستانیو! ہوشیار ہو جاؤ۔۔۔۔!
مولانا محب اللہ قریشیپاکستان میں ایرانی انقلاب لانے کے لیے شیعہ کے ماتمی سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستانیو! ہوشیار ہو جاؤ۔۔۔۔!
امام اہلِ سنت، وکیلِ صحابہؓ حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدریؒ شہید صاحب اپنی ایک تقریب میں فرماتے ہیں کہ:
کئی مرتبہ یوں محسوس ہونے لگا کہ آج ایران پر امریکہ کی طرف سے حملہ ہونے والا ہے۔ یہ تیری غلط فہمی تھی، امریکہ کی طرف سے ایران پر حملہ نہ ہونا تھا نہ ہونا ہے۔یاد رکھیں! پاکستان کے دشمن تین ہیں. افغانستان (افغانی حکومت) ہندوستان اور ایران.
امریکہ کن کے ذریعے پاکستان پر حملہ کروائے گا؟
افغانستان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے اور اسے کوئی بہانہ بھی نہیں، اور انڈیا سے وہ حملہ کروائے گا نہیں۔ کیونکہ اگر انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے- تو پاکستان کا بچہ بچہ کٹ مرنے کے لیے تیار ہےـ پاکستان کا بچہ بچہ مزاحمت کرے گا، اس لیے امریکہ کبھی یہ غلطی نہیں کرتا کہ ہندوستان سے پاکستان پر حملہ کروائے، کیونکہ یہاں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکہ نے اگر کبھی پاکستان پر حملہ کروایا تو ایران سے کروائے گا۔جس کو بغیر تنخواہ کے مفت میں لاکھوں تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں مل جائیں گے۔
میرے محترم دوستو!
تو نے کبھی آنکھیں کھول کر دیکھا ہے؟ کوئی روڈ، کوئی بس اسٹینڈ کا راستہ، کسی ہسپتال کو جانے کا راستہ، کسی تھانے کا راستہ، کسی شہر میں داخل ہونے کا راستہ، کہیں سے نکلنے کا راستہ، کسی ریلوے اسٹیشن کا راستہ، کوئی ریلوے پھاٹک، کوئی پل، جہاں سے ضرور گزرنا ہو۔ تیرے پاکستان میں اب کم ہی بچا ہوگا۔ جس پہ اسلام و پاکستان کا دشمن، شیعہ اب مورچہ نہ بنا چکا ہو۔
سنیو۔۔۔! کبھی سوچا بھی ہے تم نے؟
کوئی بھی حیثیت نہیں ہے شیعہ مذہب میں جلوس کی لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے جلوس یہاں سے گزرے گا۔کیوں؟ شیعہ کیوں کوشش کر رہا ہے؟ کیا فائدہ ہے؟ سنیو!.. کبھی سوچا بھی ہے تم نے؟
آج امن کمیٹی کا امیر سنی ممبر ایک چائے کی پیالی پی کر کہتا ہے کہ ایک دن کی بات ہے انہیں گزرنے دو پتہ ہے تجھے یہ کیوں گزرنا چاہتا ہے؟
آپ ایک چھوٹی سی سوٹی (ڈنڈا) اٹھا کر اگر 10 یا 12 آدمی بھی نکلیں گے۔ تو آپ پر نظر رکھی جائے گی۔ کہ یہ ڈنڈے اٹھا کر کدھر جا رہے ہیں۔ آپ کو جانے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن شیعہ اس سے مضبوط ڈنڈے پر آدھا گز کپڑا لگا لیتے ہیں- اب یہ ڈنڈا نہیں جھنڈا ہے اور ایک کے پاس نہیں سینکڑوں کے پاس یہ ڈنڈے ہیں۔ لیکن نام ڈنڈے کا نہیں جھنڈے کا چلتا ہے *نیو۔۔۔! کبھی سوچا بھی ہے تم نے؟
میرے محترم بھائیو!
ان جلوسوں میں شامل سب کے پاس بارہ بارہ خنجر ہوتے ہیں۔ تیرے پاس پانچ انچ کا چاکو بھی پکڑا جائے تو سیدھا جیل جائے گا۔لیکن شیعہ کے جلوس میں بارہ بارہ خنجر ایک زنجیر میں باندھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ جھنڈا۔۔ ڈنڈا نہیں ہے؟ کیا یہ زنجیر والا خنجر۔۔۔ کوئی ہتھیار نہیں ہے؟
سنیو۔۔۔! کبھی سوچا بھی ہے تم نے؟
تعزیئے میں کیا بھرا ہوا ہے؟ کوئی تلاشی نہیں لیتا جلوس میں شریک شیعہ دہشت گرد اور کیا کیا اسلحہ اٹھائے ہوتے ہیں- تلاشی کوئی نہیں لیتا اور وہ کہتا ہے ضرور جاؤں گا۔ تو اپنے گھر میں بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ تیرے گھر پہ بھی وہ خود یا پولیس آئے گی۔
سنیو۔۔۔! کبھی سوچا بھی ہے تم نے؟ آپ آٹھ بھائی ہیں۔ ایک گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں، پولیس پہنچ جائے گی، دستک دے گی، نکلو بھائی۔
وہ آپ سے کہیں گے جی کیا بات ہے؟ کون ہیں آپ؟ آپ کہو گے، جی کوئی نہیں دیکھو ہم آٹھوں سگے بھائی بیٹھے ہیں۔ اپنے گھر میں پولیس کہے گی نہیں، نہیں، آپ یہاں سے نکلیں یہاں سے جلوس گزرنا ہے۔ آپ یہاں جمع ہوئے ہیں۔ حملہ کرنے کے لیے سات بھائی نکل جائیں، ایک بندہ گھر میں بیٹھے بھائی ہیں تو بعد میں آ جائیں ابھی اس ایک کو اکیلا بیٹھنے دو۔ اور تو اکیلا بیٹھ، تیرے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں ہونا چاہیے اور کھڑکی نہیں کھولنی، اپنے گھر کی چھت پر بھی نہیں چڑھنا، وہاں ہمارے آدمی کھڑے ہوں گے۔
آپ پوچھیں گے کہ کیوں کیا ہو رہا ہے؟
وہ کہے گا کہ جلوس گزرے گا۔شیعوں کو ڈنڈے، خنجر اور اسلح لے کر تیرے دروازے پر ہم لے آئیں گے۔ پھر وہ لوگ جب کوئی شرارت کرنے لگے تو کتنی دیر لگتی ہے؟ بس اتنا کہنے کی دیر لگے گی کہ جی اس گھر سے پتھر پھینکا ہے۔ اس کے بعد گھر کا دروازہ کھولنا، اسے توڑنا کون سا مشکل کام ہے۔ اور اندر تو اکیلا ہے۔
یاد رکھیں!
ماتمی جلوس گزارنے پر یہ کوشش صرف اس دن کے لیے تیاری ہے کہ ہمیں جب دروازہ توڑ کر اندر جانے کے لیے گھسنا پڑے تو دروازے تک جانا ہمارا قانونی ہو پھر صرف دروازہ توڑ کر اندر جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے پھر گھر چاہے مدرسہ ہو یا مسجد ہو یا سنیوں کی دکانیں ہوں ان کے لیے مشکل نہیں۔
اور یہ بھی یاد رکھیں! کہ جہاں مسجد ہو یہ ضرور آئیں گے۔ جہاں مدرسہ اور یا کوئی دینی مرکز ہو وہاں سے ضرور گزریں گے۔ تاکہ کل ضرورت پڑے تو، دروازہ توڑ کر صرف اندر ہونا پڑے، وہ پورا سفر محفوظ طریقے سے پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔
پاکستان کے باشندو۔۔۔!
تیرے سامنے میں کون کون سی بات کھولوں، اس طرح کئی ذبح ہو چکے ہیں، اب تیرے لیے تیاری ہو رہی ہے۔
2008ء میں چہلم کے موقع پر خیرپور سندھ میں اسی طرح ہوا، نماز جمعہ کے وقت وہاں سے جلوس گزرا، مسجد میں موجود لوگ حیران کہ شیڈول کے مطابق تو جلوس یہاں سے نہیں گزر سکتا یہ کیسے؟بس اتنا کہنا تھا کہ مسجد پہ حملہ ہو گیا۔ گولیاں چل رہی ہیں، لوگوں نے قرآن اٹھایا تاکہ ہمیں پناہ ملے، قرآن سے گولی آر پار، قرآن کریم خون میں سرخ ہو گیا۔ اس قرآن کی کوئی حیا نہیں، یہ تو ابھی معمولی کیس ہے۔
سنیو غور کرو۔۔!
جب یہ واقعہ ہو گیا، اب تو أٹھ کر تھانے نہیں جا سکے گا، راستے میں ان کے مورچے سے گزرنا پڑے گا۔ تو اپنے زخمی بھائی کو ہسپتال نہیں پہنچا سکے گا، راستے میں ان کے مورچے سے گزرنا پڑے گا۔ تیری مدد کو کوئی بھی نہیں آ سکے گا۔کیونکہ شہر میں آنے والے ہر راستے پر ان کا مورچہ ہے۔ تجھے اپنے شہر سے باہر جانا پڑ جائے تو نہیں جا سکے گا۔ کیونکہ شہر سے نکلنے والے راستے پر پہلے سے ان کا مورچہ بنا ہوا ہوگا۔
حکمرانو! ہوشیار ہو جاؤ!
اللہ تعالی نہ کرے، اللہ تعالی نہ کرے پاکستان کے ساتھ ایران کی جو دشمنی ہو رہی ہے۔ کل اگر امریکہ، ایران کو کہہ دیں کہ پاکستان پر حملہ کر لیں، وہاں سے اتنے آرڈر کی دیر ہے اور اگر محرم کا مہینہ ہو تو ہر روڈ پہ، ہر شہر میں، ہر گلی میں، پہلے سے ان کی فوج (خنجر اور اسلحہ بردار جلوس کی شکل میں) موجود ہے۔ انہیں ایران سے فوج بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ پھر یہ میرے افسران، یہ میری پولیس، یہ میرے رینجرز کے جوان، یہ میرے فوجی جوان، جو ہمیں کہتے ہیں کوئی بات نہیں گزر جانے دو، ان افسران میں سے وہ جس کو چاہیں یرغمال بنا لیں گے۔ جب کمانڈر اور آفیسر یرغمال بن گیا، تو پھر کیا سپاہی بغیر آرڈر کے گولی چلائیں گے؟ اس وقت کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔
سنیو۔۔۔! خدارا دوست اور دشمن میں پہچان کر اپنی غیرت کو سنبھال، سپاہ صحابہؓ تمہیں بتا چکی ہیں۔ کہ تیرے دروازے تک قبضہ ہو چکا ہے۔ اب آگے تیری مرضی تو بھیگی بلی بن جاتا ہے۔آنکھیں بند کر لیتا ہے، دشمن آ کر تیرا گلا دبوچ لے یا تو پھر غیرت کا اظہار کرتا ہے، غیرت کا مظاہرہ کرتا ہے، اور آئندہ دشمن سے کہتا ہے کہ میرے گھر، میری مسجد، میرے بازار، میرے شہر، میری دکانوں اور میرے مدرسے کے سامنے آنے کی ضرورت نہیں اور نہ میں آپ کو اس راستے پر آنے کی اجازت دوں گا۔ماتم کرنا اگر تیری عبادت ہے تو اسے اپنے "ایمان بگاڑے" میں ادا کر۔ (امام اہلِ سنت کا پیغام سنی قوم کے نام، صفحہ17)
ماتم سے اشتعال انگیزی پھیلتی ہے، ماتم اگر عبادت ہے تو بازاروں میں کیوں؟
شیعہ اکابرین کہتے ہیں کہ عزاداری ان کے دین اور عبادتوں کی روح ہے اور شیعوں کی شہہ رگ حیات ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ عبادت جو عبادت گاہوں کے اندر ہونی چاہیے تھی وہ گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہو رہی ہے اور اس کے ذریعے ملک کے مسلم اکثریت کو اشتعال دلاکر مذہبی فرقہ واریت میں بے پناہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ گویا یہ عبادت نہیں شرارت ہے۔ (ایران اور عالم اسلام، صفحہ 45)
ماتم اور نشریاتی اداروں کا جرم:
ہمارے ملکی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ (جن میں شیعوں کا کچھ زیادہ ہی عمل دخل ہے) بھی ان غیر اسلامی کاروائیوں کی مذمت کرنے کی بجائے اُلٹا ان کی حوصلہ افزائی اور تشہیر میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ تمام اخبارات بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ یہ لکھ کر غلط طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ"پاکستانی قوم" نے یومِ عاشوراء پوری عقیدت اور احترام کے ساتھ منایا جبکہ۔۔۔ عزاداری کی یہ رسومات پاکستان کی صرف دو فیصد شیعہ اقلیت مناتی ہے اور سنی اکثریت اس سے دور رہتی ہے۔ساتھ ہی سینہ کوبی اور زنجیر زنی کے مکروہ اور خبیث مناظر کی تصاویر کو تقدس دے کر بڑھ چڑھ کر چھاپتے ہیں۔
دراصل ہماری حکومت اور اس کے تقریبًا تمام اداروں کے بیشتر سربراہ اسلام مخالف شیعہ قوم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی تمام کاروائیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ یا تو ان کے گھر والیاں، یا بہو، بیٹیاں، شیعہ عقیدہ رکھتی ہیں، اور اپنے زن مرید مسلمان مردوں پر آسانی سے اثر ڈال کر ان کو اپنی حمایت پر آمادہ کر لیتی ہیں۔
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ 45)
ماتم میں حکمرانوں کا جرم:
دیکھا گیا ہے کہ محرم کے دوران ہمارے حکمران اپنے تمام تر وسائل اور ذرائع (فوج، پولیس، خفیہ ادارے وغیرہ) کو استعمال میں لا کر اس بات کا پورا اہتمام اور انتظام کرتے ہیں کہ ان مضحکہ خیز شعبدہ بازوں کی پوری طرح حوصلہ افزائی اور تشہیر ہو اور ان کو ہر ممکن تحفظ دیا جا سکے۔ کیا ہمارے حکمران قیامت کے دن اللہ تعالی جلّ شانہ کہ حضور اپنی ان کاروائیوں کے لیے جواب دہ نہیں ہوں گے؟
(ایران اور عالم اسلام، صفحہ45)