Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امام زہری کا ادراج اور حقائق (قسط 29)

  جعفر صادق

امام زہری کا ادراج اور حقائق (قسط 29)

شیعہ مناظر:  میں نے مسلک ادراجی گمانی  کا رد ،امام زہری کی روایت پر اشکال کے جواب کے عنوان سے پیش کیا  اور جواب کے  چار حصوں میں 20 کے قریب دلائل پیش کیے  اور یہ ثابت کردیا کہ ادراج نام کی کوئی چیز نہیں ،اگر ادراج ہو بھی  تو پھر بھی  سب حقیقت پر مبنی ہے  اور راوی نے غلط بات نقل نہیں کی ہے۔

اس پر اسی روایت کے اندر اور اس سے باہر بہت سے شواہد موجود ہیں۔

جیساکہ مناظر کے جواب سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے میرے مطالب کا یا مطالعہ نہیں کیا ہے یا مطالعہ کیا ہے لیکن جواب نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی سوالات دہرانے میں اور ایک دو شبہات اٹھاتے رہنے میں مصلحت دیکھی تاکہ اصل موضوع کا  ناظرین کو پتہ ہی نہ چلے اور اپنے کمزور دلائل پر پردہ ڈالےلیکن مناظر کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے ہی بعد میں ایسے مطالب اپنے مدعا کی دلیل کے طور پر شیئر کیے کہ جو اس کے اپنے موقف کا رد اور موصوف کے اپنے مدعا کے سست ہونے کی دلیل ہے کیونکہ موصوف نے خاص چالاکی سے بحث کا غلط نتیجہ نکالا لہذا دوستوں کی خاطر اور موصوف کی خام خیالی اور  غلط فہمی کو دور کرنے کی خاطر کتب ادراجی کے رد پر اپنے دلائل کو  فہرست   اور مختصر انداز میں  بیان کرتا ہوں۔

 سب سے پہلے مسلک ادراج کی نفی کے دلائل اور پھر بعد میں بحث کے اس مرحلے سے متعلق شبہات کے جوابات:ادراج کی نفی پر دلائل کا خلاصہ  :

الف:عدم ادراج پر زہری کی حدیث کے اندر کے شواہد

الف:بخاری کی جس روایت کو میں نے سند کے طور پر پیش کیا اس میں کہیں پر ادراج پر شاہد نہیں ہے لہٰذا امام بخاری کی دقت نظر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے۔

ب:  جن لوگوں نے حدیث کے بعض نقولوں میں ایک( قال ) دیکھ کر ادراج کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے بھی ناراضگی ہی ثابت ہوتی  ہے ۔

جیساکہ امام بیہقی نے {و عاشت} کے بعد ادراج کا  ادعا کیا ہے  جبکہ اسی مذکورہ روایت اور دوسری روایات میں( فغضبت یا وجدت ) و عاشت سے پہلے ہے۔ اسی بخاری کی حدیث میں ملاحظہ کریں  

فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ   و عاشت .

لہذا غضبت ادراج کو قبول کرنے کی صورت میں بھی ثابت ہے۔ اس سلسلے کا ایک اہم شاہد مسند ابوبکر کی روایت ہے۔

  جس میں قال کی جگہ

قَالَتْ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ , فَلَمْ تُكَلِّمْهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى مَاتَتْ , فَدَفَنَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلًا , وَلَمْ يُؤْذَنَ بِهَا أَبُو بَكْرٍ

کا لفظ ہے لہذا صاف ظاہر ہے کہ یہ راوی کا قول نہیں ہے بلکہ جناب عائشہ کہہ رہی ہے کہ جناب فاطمہ ناراض ہوئیں اور مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں اور جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

{ مسند أبي بكر الصديق (ص: 88):،المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي الأموي المروزي (المتوفى: 292هـ)

 اس سلسلے میں ایک قابل توجہ بات یہ ہے جن لوگوں نے فضغبت اور بعد کے جملوں کو راوی کا ادراج کہا ہےلیکن اہل سنت کے  دوسرے محدثین نے بعد کے جملوں کو قالت کہہ کر نقل کیا  ہے یعنی خود جناب عائشہ کا قول ۔جیساکہ امام طبرانی اور خود امام بہیقی نے

(قالت عائشة أن فاطمة عاشت)  

نقل کیا ہے۔ المعجم الكبير 22/ 398 :.. سنن البيهقى 2/ 93

 اسی طرح روایت کے آخری حصے کو (و لم یاذن ابابکر ) کو المصنف میں عبد الرزاق نے (عن عائشہ ) کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی جناب عائشہ نے کہا کہ ابوبکر کو جنازے میں شرکت کرنے نہیں دیا دیکھیں

 {المصنف۔حدیث۔ ۶۶۶۰}

 اس سلسلے کی ایک اہم بات بخاری کی اسی حدیث میں جناب عائشہ کا (قالت کانت فاطمہ تسال ابابکر) کا جملہ ہے یعنی جناب عائشہ کہہ رہی ہے کہ جناب فاطمہ ع کی طرف سے مطالبہ اور خلیفہ کی طرف سے حدیث (نحن معاشر الانبیاء) سے استدلال کے باوجود معاملہ جاری رہا اور جناب فاطمہ ع نے مطالبہ جاری رکھا۔ اگر مسلک ادراجی کے قول کے مطابق معاملہ اسی حدیث کے سنانے سے ہی ختم ہوا تھا تو جناب عائشہ کو کہنا چاہیے تھا کہ فاطمہ ع خاموش ہوگئی اور راضی ہوکرچلی گئیں۔جب کہ اس معاملے کے عینی شاہد کا یہ کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔ اب ارباب انصاف کو خود ہی سوچنا چاہے کہ بخاری کی حدیث میں موجود اس قالت کانت فاطمہ اور مسند ابوبکر کی روایت کے مطابق سب ایک{ قالت} ہی کا تسلسل ہے۔اب ان سب کے باوجود ایک مخصوص گروہ ایک (قال ) کو لے کر اس کو ایک راوی کا گمان کہنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟

کیونکہ جناب عائشہ کی بات کو جو قالت سے شروع ہوتی ہے اس کو ایک راوی کا گمان کہہ کر رد کرتے ہیں۔

یہ کیوں نہیںِ کہتے کہ یہ قال ممکن ہے کسی اور راوی کی غلطی ہو یا کسی نسخہ لکھنے والے یا نقل کرنے والے کی غلطی سے ذکر ہوا ہو اور اصلی وہی جو امام بخاری کی مذکورہ روایت اور مسند ابوبکر کی روایت ہو؟ کیوں اس کو گمان نہیں کہتے ؟؟کیا امام زہرہ کے لیے کیا قال اور قالت دونوں فعل کا  استعمال کرنا صحیح ہے ؟؟لہذاصاف ظاہر ہے یہ ادراج نہیں ہے بلکہ روایت کا ہی حصہ ہے اور اس کے اصل راوی یعنی جناب عائشہ کے ہی الفاظ ہیں۔

 موصوف کا علمی مقام دیکھیں۔ ایک قابل توجہ بات : 

یہاں اس کو جناب زہری کا گمان کہنا اسی لئے بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ تو اس وقت تھا ہی نہیں لہذا اس کے بارے {گمان ہوا } کہنا اور اس لفظ کا استعمال ہی صحیح نہیں۔مثلا جناب عائشہ کے بارے میں یہ کہنا ایک حد تک صحیح ہے کہ ان کو ایسا گمان ہوا جناب فاطمہ ناراض ہوئی۔{ جیساکہ اہل سنت کے بعض نے ایسا کہا بھی ہے } یا خلیفہ دوم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں حضرت علی ع کے طریقہ کار سے یہ گمان ہوا کہ آپ انہیں جھٹلاتے ہیں لہذا کہا {رایتمانی کاذبا ،غادرا} ۔جیساکہ نقل ہوا کہ جب منی میں رسول اللہ ﷺ فرمارہے تھے { میرے بعد بارہ جانشین ہوں گے } اتنے میں شور مچا تو راوی کو گمان ہوا کہ آپ نے اس کے بعد {کلہم من قریش }فرمایا ہے ۔

اب یہاں گمان کا استعمال  درست تو  ہے،{لیکن اہل سنت والے ایسا کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس سے تو شیعوں کی عید ہوگی } لیکن امام زہری کے بارے میں یہ استعمال ہی غلط ہے ۔کیونکہ ادراج کہنے کی صورت میں دو فرض ہی متصور اور معقول ہے۔:

الف :  انہوں نے کسی قابل اعتماد سے یہ خبر سنی ہے ۔

 ب : یہ انہوں نے اپنی طرف سے بنا کر پیش کی ہے ۔

اب دوسری شق کو تو اہل سنت والے قبول ہی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے تو ان کی وثاقت خطرے سے دوچار ہوگی ۔ جیساکہ جس انداز میں یہ انہوں نے نقل کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ خبر قابل اعتماد واسطے سے سنی تھی لہٰذا پہلی شق ہی صحیح ہے اس بنا پر زیادہ سے زیادہ اس کو ان کی مرسل روایت کہہ سکتا ہے ۔پس معلوم ہوا یہاں گمان کا استعمال ہی صحیح نہیں ہے ۔گمان کہنا کوئی معنی ندار ۔


اہل علم جانتے ہیں کہ ہر لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں۔ شیعہ مناظر لغوی معنی بتا کر سنی مناظر پر طنز کر رہا ہے جبکہ اصطلاحی معنی میں ادراج حدیث میں اس اضافے کو ہی کہتے ہیں جو راوی کا گمان، ظن اور ذاتی خیال یا تجزیہ ہوتا ہے۔


   ممتاز صاحب نے تو کمال کردیا ۔ ادراج کا معنی گمان کہا جبکہ ادراج کا معنی گمان نہیں ہے ادراج سے گمان پیدا ہوتا  اور راوی کا گمان گمان کی رٹ لگاتا ہے لیکن پتہ چلا کہ موصوف کو نہ ادراج کے معنی کا علم ہے نہ گمان کے استعمال کا ۔۔۔لہذا اس سلسلے میں راوی کا گمان حجت ہے یا نہیں والا سوال بھی غلط در غلط ۔

واہ جی واہ ۔پھر بھی اہل سنت کی نمائندگی کرنے کا سٹار لگاکر شیعہ مناظر محمد دلشاد کو للکارتا ہے   اور کہتے ہیں شیعہ ۔ ہم ۔ تم ۔سلسلہ جاری ہے ۔ہمت نہ ہارنا  

 امید ہے ممتاز صاحب جب تک میری تحریر کا دوسرا حصہ سامنے نہ آئے  اس وقت تک تبصرہ سے اجتناب کریں گے۔ آپ نے مناظرے کا اپنا نتیجہ نکالا میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اب فیصلہ دوستوں نے کرنا ہے ، نہ محمد دلشاد نے نہ ممتاز قریشی نے۔

سنی مناظر:  گھبرائیں نہیں۔میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ مجھ سمیت تمام ممبرز یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید میرے سوالات اور وضاحتوں کے جوابات آپ کو کہیں سے مل گئے ہوں  اور اب میرے مختصر تبصروں کے مطابق ہی دلیل اور اس کا علمی رد نمبر ڈال ڈال کر ترتیب سے لکھنا شروع کریں گے۔ خیر۔سلسلہ جاری رکھیں۔ حق ظاہر کرچکا ہوں مزید آپ کی تحریروں سے ثابت ہوتا جا رہا ہے۔

شیعہ مناظر: خوش رہیں سلامت رہیں۔ تبصرہ نہ کرنے کی بات  لیکن تناقض گوئی   یہ آدھا حصہ ہے۔گھبرانا نہیں۔

سنی مناظر: کیا مجھے گھبرانے کی ضرورت ہے ۔اگر میں اس پہلے حصے کی وضاحت پوچھنا شروع کردوں تو پھر آپ کی دوڑیں لگ جائیں گی۔ مثال کے طور پر اگر میں کہوں کہ نمبر ڈال کر مکمل حوالوں کے ساتھ وہ بیس دلائل لکھیں جس کا آپ نے اوپر ذکر کیا ہے کہ وہ امام زہری کے ادراج کے رد میں آپ نے پیش کئے تھے تو کیا آپ کرسکتے ہیں؟  سوائے کاپی پیسٹ کے آپ کے پاس کچھ نہیں۔

حد تو یہ ہے گفتگو ختم کرنے کے بعد آپ  نے کچھ مزید دلائل رکھنا شروع کر دئے جو  ایک غیر علمی روش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے  کہ جو  دلائل گفتگو ختم ہونے کے بعد رکھے انہیں آپ اپنے خلاصے میں شامل کر رہے ہیں حالانکہ ان پر ہماری گفتگو  ہی  نہیں ہوئی تھی۔آپ کو دیر سے کسی نے مسند ابوبکر,المصنف وغیرہ سے دلائل بھیجے تو آپ نے کاپی پیسٹ کردئے جبکہ گفتگو اگلے حصے  ب  پر جمعہ کے دن طئے ہوگئی تھی۔ اب اگر ان دلائل پر گفتگو شروع ہوتی تو یہ موضوع کبھی بھی ختم نہ ہوتا۔

 آپ مدعی ہیں جو دلائل پہلے بھیجے اور جن کا رد کیا ان کا حاصل کیا نکلا؟   ہر روز کہیں سے بھی نئے دلائل ملیں تو آپ رکھنا شروع کردیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا محترم۔  مدعی کی طرف سے  دو یا تین دلائل دئے جاتے ہیں تاکہ گفتگو منطقی انجام تک پہنچ جائے۔

ویسے ایک کام ضرور کریں۔ نمبر ڈال کر الگ الگ مجھ سے صرف وہ سوال پوچھیں جن کے جوابات بقول آپ کے میں نہیں دے سکا۔ کم از کم مجھے پتہ تو چلے کہ ایسا کونسا نکتہ رہ گیا جو میں نے رد نہیں کیا۔ ان تمام نکات کو بھی  دیکھیں۔ میں نے باقائدہ وہ نکات الگ الگ مختصر لکھ دئے ہیں۔

آپ بھی لمبے لمبے پیراگراف رکھنے کے بجائے صرف ان نکات کی نشاندھی کردیں جن پر میں لاجواب ہوگیا۔ اگر اس کے باوجود سمجھ نہ آئے تو میری  سوالات والی تحریر کو ہی  کاپی پیسٹ کریں اور ہر نکتے کے نیچے اپنا جواب مختصر لکھتے جائیں۔  پورا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ کیا خیال ہے؟


شیعہ مناظر کی خیانت

۔اگلے پیج پر ثبوت


شیعہ مناظر: آپ نے پھر اپنا ایک راز کھولا۔ المصنف اور مسند ابوبکر کی سندگفتگو ختم ہونے سے پہلے کی ہے۔ اگر آپ نے یک طرفہ گفتگو ختم کرنے کا اعلان کیا بھی ہو تو اس کا حکم میرے جواب پر تو لاگو نہیں ہوگا۔ یہاں سے پتہ چلا کہ آپ میرے مطالب کا مطالعہ ہی نہیں کرتے اور پہلے سے بنائی ہوئی ذہنیت کے مطابق سوالات کر رہےتھے جبکہ میں نے ان سب کے اسکین میری طرف سے گفتگو ختم ہونے سے پہلے شیئر کیے ہیں۔ نہ دیکھنا آپ کا قصور ہے درمیان میں مداخلت کر کے میری گفتگو کو خراب کرنے کی کوشش آپ کا قصور ہے۔آپ اہل سنت کے نمائندہ بن کر آئے ہیں   میں شیعوں کا ۔شیعہ موقف اور اہل سنت  کےموقف کا نزاع  ہے۔اب کسی دوست نے میری مدد کی ہے تو اس سے کیا شیعہ موقف کمزور ہوگا؟ آپ نے اس کو کبڈی کا مقابلہ سمجھا ہوا ہے کیا۔  میں اس بحث میں میری مدد کرنے والے سارے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں .سب نے مل کر مسلک ادراجی گمانی کا جنازہ نکالا۔آپ سب  کا  شکریہ۔


غور فرمائیں! شرائط کے مطابق کاپی پیسٹ ممنوع تھا، کسی سے مدد لینا ممنوع نہیں تھا لیکن کسی اور کی تحریر اپنیظاہر کرکے لفظ بہ لفظ کاپی پیسٹ کرنا اخلاقی طور پر بھی درست نہیں ہے۔شیعہ مناظر تو اب یہ بھی اقرار کر رہا ہے کہ اس کی مدد کرنے والے کئی لوگ تھے! مطلب گفتگو میں پیش کی گئیں لمبی لمبی   تحاریر انہیں موصول ہوتی رہی تھیں!

اللہ کی پناہ


شیعہ مناظر: ابھی دوسرا حصہ آنے والا ہے صبر کرو پھر آپ کی چیخیں نہ نکلیں تو کہنا۔

 سنی مناظر: حق واضح کریں محترم۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہمارہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔

شیعہ مناظر:  اب تک کی سب سے بڑی علمی اور وزنی بات آپ نے کی ہے۔ آدھا گھنٹے تک باقی حصہ بھی دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں۔


سنی مناظر نے اسکرین شاٹ رکھ کر ثابت کیا کہ گفتگو31 مئی رات 2 دو بجے ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا۔دوسرے دن سنی مناظر نے ساڑھے  12 بجے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے ب پر جمعہ کے دن سے باقائدہ گفتگو شروع کی جائے گی۔



نیچے شیعہ مناظر دلشاد
 کا میسج پڑھیں، ایک گھنٹے  بعد سنی مناظر کے آخری جواب کا علمی رد کر کے گفتگو کو ختم کرنا تھا۔

یاد رہے کہ آخری جواب میں نئے دلائل پیش نہیں جاتے۔ مناظروں کے اصولوں کے سخت خلاف ہے۔

اب شیعہ مناظر کی طرف سے اپنے آخری جواب میں نئے دلائل المصنف اور مسند ابوبکر کے اسکینز ملاحظہ فرمائیں۔

31 مئی 2021 دن ایک بجے موصوف نے پرسنل میں کسی اور کے بھیجے گئے دلائل رکھنا شروع کردئے۔سنی مناظر نے جب انہیں احساس دلانے کی کوشش کی تو موصوف مکر گئے!!

شیعہ مناظر:  جناب! سب آپ کے انباکس میں نہیں ہیں۔ سب دوستوں کے سامنے ہیں۔ تمام دوست حقیقت کیا ہے خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔اب گفتگو ختم ہونے کے بعد طے یہ ہوا تھا فیصلہ دوستوں پر چھوڑنا ہے۔

میں نے آپ کے نتیجہ گیری پر الگ سے تبصرہ نہیں کیا ہے ورنہ میں ایک ہی جملے میں کہہ دیتا ہوں۔آپ نے جو نتیجہ گیری کی ہے وہ ہمارے مناظراتی گفتگو کا نتیجہ نہیں ہے۔آپ کی ذہنی تخلیق ہے  اور آپ کے  ہرایک بات کے خلاف ہونے کو میں  دکھا سکتا ہوں۔ لہٰذا الگ سے تبصرہ کا سلسلہ چھوڑ دیں  خود دوستوں کو آپ کے نتیجہ گیری اور میرے نتیجہ گیری کے درمیان فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔

دوسرا حصہ:پارٹ 1

ب :  ادراج اور گمان نہ ہونے پر دوسرے شواہد:صحیحین میں موجود وہ احادیث کہ جو خلیفہ دوم کے دور تک امیرالمومنین (ع) کی طرف سے جناب فاطمہ (س) کے مطالبے کو دھرانے اور جناب فاطمہ (س)کے موقف کی حمایت اور خلفاء کے استدلال کو رد کرنے کو بیان کرتی ہیں۔ اس کے اسناد پہلے بیش کرچکا ہوں۔

ملاحظہ کریں:

  وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا۔ {صحيح البخارى  کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔

اب یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ معاملہ اسی وقت ختم نہیں ہوا تھا اور جناب فاطمہ ع اور امیر المومنین ع نے خلیفہ کے موقف کو قبول نہیں کیا تھا اور دونوں سمجھتے تھے کہ خلیفہ نے ان کا حق نہیں دیا ہے اور ان کے بارے میں غلط فیصلہ کیا ہے ۔ اب موصوف کی طرف سے اپنے غیر متعلقہ سوالات کے جواب کا بار بار  مطالبہ اور میری طرف سے اسی {مطالبہ جاری رہنے کے بارے }بنیادی سوال کے جواب دینے سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس چیز کا اقرار کرنا کہ جناب فاطمہ ع اور جناب امیر اس اس حدیث سے استدلال کے باوجود اس استدلال کو قبول نہیں کرتے تھے اور  حق سے محروم ہونے کے نظریے پر قائم تھے۔یہی وجہ ہے موصوف کی طرف سے بحث کے  اس مرحلے سے متعلق میرے سوال کا جواب نہ دینا اور بحث کے اس مرحلے سے تعلق نہ رکھنے والے سوالات کا بار بار تکرار حقیقت میں اسی حقیقت کو چھپانے کا چکر ہے لیکن کامیاب نہیں ہوا کیونکہ میں جس موضوع کو شروع کرتا ہوں اس پر آخر تک ڈٹ کر رہتا ہوں موضوع سے اگلے کو بھی واپس آنے پر مجبور کرتا ہوں   لہٰذا معاملہ اور مطالبے کا جاری رہنا خود ہی موصوف کی رائے کا گمان ہونے اور اس گمان کے بطلان کی دلیل ہے ۔  بہت سے علماء کے اس سلسلے میں حوالے پیش کرچکے ہیں کہ جو بخاری کی اسی حدیث کے مطابق عدم رضایت کو قبول کرتے ہیں اور بہت سے شارحین نے مسلک ادراج کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس مورد نزاع جملات کو حدیث کا ہی حصہ سمجھ کر حدیث کی تشریح اور تفسیر کی ہے۔اس سلسلے کے اسناد بھی پیش کرچکا ہوں

{ عمدة القاري شرح صحيح البخاري (17/ 258}  

ابن حجر نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ غضبت والا جملہ راوی کا اندراج ہے بلکہ وہ اس کو باقاعدہ صحیح حدیث کو حصہ قرار دے کر امام ترمذی کی حدیث کا بھی یہی بائیکاٹ والا معنی کرتے ہیں ۔

وتعقبه الشاشي بأن قرينة قوله: "غضبت" تدل على أنها امتنعت من الكلام جملة وهذا صريح الهجر وأما ما أخرجه أحمد ۔۔۔ فلا يعارض ما في الصحيح من صريح الهجران ولا يدل على الرضا بذلك۔۔۔

{فتح الباري - ابن حجر (6/ ۔202}

ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں یہاں تک لکھا ہے:

أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل... ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.

 فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے { فَرَّ بِهَا }چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان کوئی اختلاف تھا۔ إبن بطال البكري القرطبي (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325 ۔ اور بھی بہت سے ایسے نمونے موجود ہیں کہ سب میں شارحین نے اس حصے کو اصل حدیث کا حصہ قرار دیا ہے ،اندارج کے نظریے کی بنیاد پر اس حدیث کی شرح نہیں کی ہے ۔جیساکہ شارحین اور محدثین کے علاوہ اہل سنت کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن عربی. ابن کثیر ، ابن عثیمین جیسے بہت سے علماء بھی اسی صف میں کھڑے ہیں کہ جنہوں نے مکتب ادراجی کے خلاف سب کو حدیث کا ہی حصہ قرار دیا ہے یہاں تک کہ ابن  تیمیہ نے  جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس احتجاج کو دنیا پرستی اور منافقانہ کام سے تشبیہ دی ہے اور ابن عثیمین نے تو آپ پر اس وقت عقل سے کام نہ لینے کی تہمت لگائی ہے اور ان کے لئے اللہ سے استغفار کیا ہے ۔اگر ہم اس سلسلے میں آپ کے علماء  کی فہرست پیش کریں  تو مکتب ادراجی والے ان کی نسبت سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لہٰذا ان سب بزرگوں کے خلاف موقف اپنا کر خود کو ہی اہل سنت  ترجمان کے طور پر پیش کرنا ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ اب جب یہ بات روشن ہوئی کہ  پہلی بات تو یہ ہے یہاں ادراج ہی نہیں ہے اگر ادراج کو قبول کیا جائے تو بھی اس بات پر بہت سے شواہد موجود ہیں کہ جناب زہری کی بات ٹھیک ہے۔ لہذا ان تمامتر شواہد کے باوجود اس کو راوی کا گمان کہہ کر رد کرنا تعصب اور شیعہ منطق اور دلائل کے آگے بے بسی  کے علاوہ کچھ نہیں اور جیساکہ بیان ہوا کہ اگر یہ اس کی ہی رائے ہو تو بھی یہ اتنا غیر ذمہ دار تو نہیں کہ اپنی طرف سے ان باتوں کو حدیث کا حصہ قرار دے  جبکہ اس کے خطرناک نتائج میں سے ایک خلفاء کی شان میں طعن ہے ۔اب کیسے اس شخص کے بارے ایسا ہو سکتا ہے کہ جس سے  بخاری میں 1000کے قریب احادیث نقل ہوئی ہیں اور صحاح ستہ میں اس سے ہزاروں کی تعداد میں روایات موجود ہیں۔ اب یہ اتنا غیر زمہ دار ہو اور کسی قابل اعتماد سے سنے بغیر ایسی بات نقل کرے جو خلفاء کی شان میں طعن شمار ہوتی ہو؟ لہٰذا اندراج کی صورت میں بھی اگر اس کی خبر کو مرسل نہ مانا جائے تو اہل سنت کے اس مایہ ناز راوی اور امام کی وثاقت خطرے  میں پڑ سکتی ہے۔{ کہ جو اہل سنت کے لئے انتہائی درد ناک ہے }

 جی وہ معصوم نہیں، خطا بھی  کرسکتا ہے لیکن  اتنی خطرناک خبر کو بغیر کسی سند اور مدرک کے اس طرح نقل کرنا کہ گویا اس نے یہ سب صحیح سند کے ساتھ سنی ہے تو اس میں خطا  اور گمان چہ معنی دارد۔مغالطہ پر مغالطہ؟؟

سنی مناظر کا سوال: کیوں امام زھری کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا؟کسی اور طریق سے بھی ناراضگی کو ثابت کر کے دکھاؤ۔

 پہلی بات :     ناراضگی کو اب کسی اور طریق سے مجھے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ نے خود ہی ادراج کے دوسرے شواہد اور جناب فاطمہ {س} کی رضایت حاصل کرنے کی بحث میں ایسی اسناد پیش کی ہیں اور یہ اقرار کیا ہے کہ آپ ناراض ہوگئی تھیں ۔ آپ نے خلفاء کی طرف سے ان کی زندگی ہے آخری لمحات میں

 { یعنی اس واقعے کے تقریبا چھے ماہ بعد } ان کو راضی کرنے کی کوشش اور ان کی رضایت کے حصول کا دعوا یٰ کیا ہے ۔اب آپ کا یہ مدعا اور اس کے دلائل { کہ جو سب کے سب مرسل ہیں} صحیح ہو اور آپ کے نزدیک حجت ہو تو خود بخود یہ بھی ثابت ہوا کہ {غضبت } راوی کا ادراج بھی مان لیا جائے پھر بھی حقیقت پر مبنی ہے لہٰذا کسی اور سند کا مطالبہ کرنے کا کیا معنی ہے جبکہ آپ خود ہی مان چکا ہے کہ تقریبا چھے ماہ تک آپ ناراض رہی اور پھر رضایت حاصل کر لی گئی۔ مرحبا لناصرنا۔

دوسری بات:  کسی نے ذکر نہیں کیا ہو تو نہ کرنے والا مجرم ہے یا حقیقت کو بیان کرنے والا؟جناب ایک نے ایک حصے کو ذکر کیا ہو اور ایک  نے وہ ذکر نہ کیا ہو  تو کیا ہوا؟  آپ کی صحیحین میں کتنے اتنے نمونے ہیں کہ ایک راوی نے روایت میں ایک حصہ بیان کیا ہے اور دوسرے راوی نے بیان نہیں کیا ہے ۔ لیکن علماء  ذکر ہونے والے حصہ کو دوسرے ذکر نہ ہونے والی روایت کا حصہ سمجھ کر  اس مذکور کو دوسرے کی تفسیر اور تشریح کے لیے استفادہ کرتے ہیں؟  نمونے طور پر ذکر کیا ہے ۔ امام بخاری نے خلیفہ دوم کے اعتراف کو { و کذا کذا } کہہ کر ذکر نہیں کیا ہے جبکہ آپ کے صحاح کے بعض محدثین نے اس حصہ کو ذکر کیا ہے۔ تو کیا ذکر نہ کرنے والا اور کذا کذا کذا کہنے والا مجرم ہے یا ذکر کرنے والا اور حقیقت کو بیان کرنے والا ؟؟

تیسری بات:دوسروں نے ذکر بھی کیا ہے ، جیساکہ سننن ترمذی میں بھی مطالبہ رد ہونے کی وجہ سے احتجاجا  بات نہ کرنے کے الفاظ موجود ہیں، آپ کے بعض علماء اس کی غلط توجیہ کریں  تو  مقصر کون ہے؟ جبکہ حیساکہ بیان ہوا ابن حجر کے نقل کے مطابق امام ترمذی کی طرف سے  معاملہ ختم ہونا اور رضایت لینا ، امام ترمذی کا اپنا غلط گمان ہے ۔

چوتھی بات : کسی اور نے ذکر نہ کیا تو کیا ہوا ؟ جبکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جناب فاطمہ {ع} اور مولی علی {ع} نے  مذکورہ حدیث سے استدلال کے باوجود  مطالبےجاری رکھے اور خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھتے ہیں اور دونوں اسی نظریے کے ساتھ  دنیا سے چلے گئے، یہاں تک کہ جناب فاطمہ {ع} کے جنازے میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی   تو کیا جو کسی کو اپنے والد کے ترکہ سے محروم کرنے والا سمجھ کر مطالبہ کرتے کرتے دنیا سے چلا جائے تو اس پر راضی ہوتا ہے ؟یا ناراض ہی رہتا ہے ؟  جناب عقل بھی تو کوئی شئےہے ۔ جناب بقول آپ کے دوسرے شواہد کو بھی دیکھا جاتا ہےکیوں یہاں آپ اپنا بیان کردہ اصول بھول گئے  ؟  تعصب کی مرض کا کوئی علاج نہیں ۔

سنی مناظر  کا اشکال: امام بیہقی نے شعبی سے ایک مرسل روایت نقل کی ہے جس کے مطابق زندگی کآ اخری ایام میں خلفاء ان کی عیادت کے لیے گیے اور سیدہ فاطمہ  راضی ہو گئیں۔یہ مرسل اور  حسن روایت ہے اور شعبی کی مرسل روایت، صحیح روایت کی طرح حجت ہے ،جیساکہ امام عجلی نے ایسا کہا ہے اور بھی سند شیعہ کتابوں سے بھی ہم پیش کرتے ہیں۔شعبی کی مرسل روایت کے جس راوی کے بارے  میں مدلس ہونے کا اعتراض ہے وہ صحیح بخاری کا راوی ہے۔پس بات ختم ۔لہذا ثابت ہوا کہ جناب سیدہ راضی ہوگئی تھیں۔

شیعہ مناظرواہ جی واہ کھودا پہاڑ نکلا۔ اب تک موصوف زور لگا رہا تھا غضبناک ہونا راوی کا گمان ہے اور سیدہ حدیث( نحن معاشر الانبیا  ) سن کر خاموش ہوگئی تھی،ں کوئی ناراضگی نہیں تھی  استغفر اللہ  کیا سیدہ بابا کے فیصلے کو ٹھکراسکتی ہے ،حدیث کا انکار کرسکتی ہے؟ناراضگی یا الفاظ سے یا چہرے سے  ثابت ہوتی ہے روای تو اس کے عینی شاہد نہیں اور کوئی لفظ بھی سیدہ سے ایسا ذکر نہیں ہوا ہے کہ جو ناراضگی کو بیان کرے۔سب اشکالات کا جواب دیا ۔ناراض نہیں ہوئی تھی تو رضایت لینے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی موصوف کے بقول زندگی کے آخری لمحات میں یعنی تقریبا چھے ماہ بعد جبکہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے ۔ جناب اب بھی استغفار، ناراضگی کو چہرے یا  الفاظ سے ناراضگی کے بارے میں  سوالات کا آپ کو جواب چاہیے؟ کیا یہ ان تمام تر حقائق اور اعترافات کے باوجود ایسا سوال دہرانا  لکیر کے فقیر ہونے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہونے اور عقل کے بجائے تعصب اور ہٹ دھرمی کے خچر پر سوار ہونے کی دلیل نہیں ؟

جناب آپ کے نزدیک اگر چھ ماہ بعد رضایت دینا اور رضایت حاصل کرنے کی داستان صحیح ہو تو یہ تو ثابت ہوا کہ چھے ماہ تک ناراض رہیں واہ جی واہ ۔ پس اس وقت غضبناک ہونا راوی کا گمان اور وہ بھی باطل گمان نہیں تھا جناب قرآن مجید میں ۳۰۰ سے زیادہ مرتبہ عقل سے کام لینے اور عقل کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔

 لہذا قصور آپ کا اور مکتب ادراجی کے بانیوں کا ہے ۔ کیا آپ راضی ہوگئی تھی اور شعبی کی مرسل روایت کا مضمون صحیح ہے ؟ کیا امام عجلی کی طرف سے اس کے مرسل روایت کو حجت قرار دینے کی کوئی اہمیت ہے ؟

ہمارا جواب سنیں :پہلی بات :   اس کو قبول کرنا ، غضبناک ہونے کو ادراج اور راوی کا باطل گمان ثابت کرنے کی سارے کوششوں پر پانی پھیرنا ہے۔{کیا اس نتیجے کو قبول کرتے ہو }

دوسری بات :     جیساکہ سابقہ گفتگو سے واضح ہوا ۔اس کا مضمون صحیح اور مسند روایات کے خلاف ہے لہذا اس کی مرسل روایت کی کوئی اہمیت نہیں ۔

تیسری بات :    اگر سند کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب مرسل ہے ،ممکن ہے شعبی نے کسی غیر موثق آدمی سے سنا ہو اور کیونکہ خلفاء پر طعن کو دور کرنے کے لئے ایک بہانہ ہے لہذا راوی کا نام ذکر کیے بغیر اس کو آگے نقل کیا ہو اور اصلی راوی کا ذکر نہ کر کے حقیقت کو چھپایا ہو کیا شعبی معصوم تو نہیں ہے ۔جب انبیاء آپ کے نزدیک خطاء سے منزہ نہیں تو شعبی کہاں سے بے خطاء ہوگا ؟

چوتھی بات :      ہم نے گزشتہ کے مطالب میں یہ بھی ثابت کیا کہ اس کی سند میں ایک مدلس راوی بھی ہے ۔ اب اس مدلس راوی سے بخاری میں روایت نقل ہوئی ہو تو اس کا غیر مدلس ہونا تو ثابت نہیں ہوگا ۔ کیا بخاری کے سارے راویوں کا غیر مدلس ہونے کا ادعا کرتے ہو ؟ کیا بخاری کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں تو ناصبی اور مولی علی ع کی شان میں توہین کرنے والے راویوں سے بھی روایت نقل ہوئی ہے ۔ کیا آپ کی نظر میں ایسا راوی قابل اعتماد ہے ؟

پانچویں بات  :     ہم نے یہ بھی گزشتہ مطالب میں دکھا دیا کہ آپ کے ہی بڑے علماء میں سے امام ذہبی ،ابن حجر اور البانی عجلی کی طرف سے شعبی کے مرسلات کو صحیح کا درجہ دینے کے خلاف ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ عجلی ، ابن حبان کی طرح تساہل سے کام لیتے تھے لہذا ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے ۔

چھٹی بات :   یہی شعبی حدیث {نحن معاشر الانبیاء } کے مضمون کو قبول نہیں کرتا اور قرآن میں انبیاء کے مالی ارث ہونے کا قائل ہے۔جیساکہ اس کی سند بھی میں آپ کو پیش کرچکا ہوں ۔ کیا خیال ہے بقول آپ کے حضور ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث کے مضمون کو قبول نہ کرنے والے کی بات قابل اعتماد ہے ۔؟؟   

جناب ممتاز قریشی صاحب ۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ۔ان حقائق کی روشنی میں اب آپ کی مرضی ہے ۔ امام زہری کے قول کو ان کا گمان ، جناب عائشہ کی خبر کو ان کا گمان اور جناب خلیفہ دوم کے واضح اعترف کو ان کا گمان کہیں اور اپنے مسلک ادراجی گمانی پر قائم رہیں  یا حقیقت کو قبول کریں  اور یہ تسلیم کریں کہ جو میرا مدعا ہے وہ ٹھوس دلائل سے ثابت ہے اور اپنے مسلک کو خدا حافظ کہہ کر اپنے اسلاف کی روش پر چلیں  اور خلفا ء کے فیصلے کو صحیح اور جناب فاطمہ اور مولا علی کے موقف کو خطا کہنے کی جرات کریں  اور مجھ سے تیسرے مرحلے میں گفتگو کے لئے تیار ہو جائیں لیکن آپ نے اپنے اپنی کٹ ہجتی پر ہی برقرار رہنا ہے تو  میں آپ کے باقی شبہات کا بھی جواب دیتا ہوں اور پھر گفتگو کو ختم کرتے ہیں۔ میرا کام آپ کی پوزیشن اور آپ جیسے لوگوں کے اس موضوع پر بحث کے غلط روش کو بتانا  اور شیعوں کے خلاف غلط تبلیغ کے ذریعے حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے طریقہ کار کا مقابلہ کرنا تھا   اور یہ بتانا تھا کہ اہل سنت  عوام کو   دھوکے میں رکھتے ہیں اور حقائق کو چھپانے کے لئے سب چیزوں کو شیعوں کی باتیں اور شیعوں کی طرف سے خلفاء کی شان میں گستاخی کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ شیعہ اس سلسلے میں جو بھی کہتے ہیں وہ آپ کی ہی صحیحین سے ثابت ہے۔

رسول اللہ  کی پیاری بیٹی اور آپ کے سب سے ممتاز شاگرد ،جنت کی عورتوں کی سرداد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ان کا حق نہ ملنے  کا نظریہ آپ کی کتابوں سے ثابت ہے۔یہ شیعوں کی باتیں نہیں ہے بلکہ آپ کی کتابوں میں موجود جناب فاطمہ اور مولی علی علیہما السلام کا موقف ہے ،۔میرا مقصد یہی ثابت کرنا تھا ۔ الحمد للہ ثابت کر دیا ۔  آپ کی مرضی اپنے سلف اور بزرگوں پر حقائق پوشیدہ رہنے کا الزام لگاتے رہیں اور بزرگان سے بغاوت کا سلسلہ جاری رکھیں یا اپنے سلف کی روش پر چلتے ہوئے  خلفاء سے دفاع کا  جھنڈا لے کر میدان میں آئیں  اور  رسول اللہ ﷺ  کے  سب سے ممتاز شاگرد جناب فاطمہ ع اور مولا علی کے موقف سے علی الاعلان مخالفت کا اظہار کریں۔

محمد دلشاد ، آل رسول   کی وکالت کے لیے حاضر ہے۔ختم جلسہ۔

اللہم صل علی محمد و آل محمد۔  نعرہ حیدری  یا علی حق حیدر۔ و ما علینا الا البلاغ ۔ و سلام علی من اتبع الھدی ۔ و ما توفیقی الا باللہ و ھو نعم المولی و نعم النصیر ۔

 دو تبصرے۔ایک تو بحث کے پہلے اور دوسرے مرحلے سے متعلق آپکے شبہات کے جواب میں مندرجہ بالا مطالب میں دے دیا ہے۔ اگر اپ اس مرحلے سے متعلق شبہات جانتے ہو اور پھر ان کا جواب مندرجہ بالا کی گفتگو میں نظر نہ آئے  تو مجھے بتانا۔ اب جو شبہات اور سوالات ان دو مرحلوں سے متعلق نہ ہوں ان کا جواب میں میرے اپنے بیان کردہ شبہات کے ساتھ دوستوں کی خدمت میں پیش کروں گا۔انشاء اللہ۔

بحث تیسرے مرحلے میں تب داخل ہوگی جب آپ یا میرے دلائل کے مطابق مسلک ادراجی سے ہاتھ اٹھا لیں  یا میرے دلائل کا ٹھوس جواب دیں۔ یقینا آپ کی دل آذاری ہوئی ہے  .آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔

میں نے شروع میں کہا تھا ہم کسی سے بغض کی وجہ سے اندھی تقلید میں اپنے موقف کے پابند نہیں ہیں بلکہ ہمیں اپنے مکتب اور موقف کی حقانیت پر پورا یقین ہے۔ ہم اس کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھتے  ہیں۔ ہم آل رسول کی مظلومیت پر آنسو بہاتے ہیں ۔ انہی آنسوؤں کو ہم اپنے گناہوں کی بخشش کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے آپ لوگ اس کو بدعت اور گناہ کہیں لیکن ہم اس کو ان سے اظہار محبت اور اظہار عقیدت سمجھتے ہیں۔ سب دوستوں سے بھی معذرت خواہ ہوں۔

 سنی مناظر: گروپ ایڈمنز سے گذارش ہے کہ دلشاد صاحب کو پابند کریں جو نکات میں پوچھتا رہا ہوں ان کے جوابات دیں۔  میں تو نشاندہی کر کر تھک گیا ہوں۔ یہ بندہ میری سمجھ سے باہر ہے۔

دلشاد صاحب۔ آپ کو اللہ کا واسطہ۔جس دلیل کا جواب چاہتے ہیں اس کو نمبر ڈال کر ترتیب سے لکھیں۔  میں بھی تو نمبر ڈال کر آپ سے سوال پوچھتا رہا ہوں۔ ان کے جوابات کسی سے بھی پوچھ کر آئیں لیکن ہر ایک سوال کو نمبر ڈال کر اس کے نیچے جواب لکھیں۔ بات کلیئر ہوجائے گی۔میں خود مزید کسی حصے پر آپ سے گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ آپ دماغ کی دہی بنادیتے ہیں۔ اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو اپنی ایک ایک دلیل پر الگ الگ مجھ سے جواب اور اعتراض لیتے جائیں۔ شرط یہ ہے کہ میرے اعتراض کا علمی جواب بھی ساتھ ساتھ  دینا ہوگا۔ آپ مدعی ہو میرے اشکالات کا جواب دئے بغیر روز نئے دلائل کیسے رکھ دیتے ہو۔ کیا آپ کو اپنا ضمیر ملامت نہیں کرتا۔ اگر شوق ہے تو مسند ابوبکر اور المصنف پر بھی گفتگو کرنے کو تیار ہوں۔ شرط یہ ہے کہ میں جو جواب دوں اس کو تسلیم کریں یا اس کا علمی رد کریں۔ جواب دیتے نہیں ہو۔ تسلیم کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔ پھر دوسرے دن خود ہی اگلی دلیل پیش کردیتے ہو۔اب کوئی اس بندے سے پوچھے کہ جو پہلے دلیل کا رد کیا گیا ،اس کو تسلیم کریں یا رد تو کریں!! لیکن دلشاد صاحب پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ ٹس سے مس بھی نہیں ہونا! عجیب ڈھیٹ قسم کا آدمی ہے۔ معذرت کے ساتھ۔آپ نے کبھی کسی سے مناظرہ کیا بھی ہے یا مجھ پر ہی تجربہ کر رہے ہیں۔  اب آج کا حال بھی سب دیکھ لیں۔ کھینچ کھانچ کے علمائے اہل سنت سے گیارہ ھجری کے واقعے کو ثابت کر رہا ہے۔ وہ بھی صرف ایک طرق سے۔ میں صرف صحیح بخاری کی فدک پر احادیث کے پانچ طرق دکھادیتا ہوں۔

 یہ واقعہ چھتیس کے قریب مختلف روایات سے بیان ہوا ہے۔ سوائے ابن شہاب والے طرق  کی  چند  روایات کے کسی  اور طرق  یاکسی اور راوی سے ناراضگی مروی نہیں ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ابن شہاب کے طرق سے  بھی خود سیدہ سے ثابت نہیں ہے۔

اہلسنت سیدہ فاطمہ کی شدید ناراضگی کے قائل نہیں ہیں مزید اگر فدک نہ دینے پر سیدہ کو تھوڑی بہت  رنجش ہوئی بھی تو یہ عارضی تھی۔  قرآن کے مطابق انبیائے کرام میں بھی ان بن ہوئی لیکن پھر بھی کوئی گنہگار نہ ہوا اور نہ کسی کی عصمت پر فرق پڑا۔ اس کے علاوہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سنی و شیعہ  معتبر کتب سے سیدہ  فاطمہ کی شیخین سے ملاقات اور راضی ہونا بھی مذکور ہے۔ شاید اس میں بھی  منشاء الہٰی ہے۔ اللہ جانتا   تھا  کہ  کئی صدیوں  بعد  ایک  جماعت ایسی بھی آئے گی جو سیدہ  فاطمہ کی ناراضگی پر اچھل کود مچائے گی۔ ان کو علاج کے لئے  اس دوا کی ضرورت ہوگی۔   دلشاد صاحب سوائے ذاتی تاویلات کے  سنی و شیعہ کتب سے کوئی مضبوط جواب نہیں دے سکے۔

اللہ کے بندو!  بالفرض میراث نبوی تسلیم بھی کر لی جائے تو اس کے باوجود پورا فدک صرف بیٹی کا حق کس طرح بنتا ہے۔ یہ تو قرآن کے بھی خلاف ہے۔ اس کا جواب دلشاد صاحب روز آخرت میں اللہ کو ہی دیں گے۔دنیا میں تو کسی شیعہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔

 میں پھر موقعہ دے رہا ہوں۔ جن نکات کا جواب شیعہ مناظر کو لازمی دینا ہے وہ الگ الگ دو ٹوک لکھ کر اوپر پیش کردئے ہیں۔  دلشاد صاحب کو چاہئے کہ میری تحریر کو کاپی پیسٹ کریں اور ہر نکتے کے نیچے اپنا جواب مختصر لکھتے جائیں۔  پورا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ ہمت کریں۔ صرف لمبی لمبی چھوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آپ مدعی ہو۔ جواب دینا آپ کا کام ہے۔

 جس طرح اہم نکات کی نشاندہی میں نے کردی ہے اسی طرح  آپ بھی اہم نکات لکھیں۔ جس بات کا جواب میں نے نہیں دیا، وہاں کراس   کا نشان لگائیں میں آپ کی تحریر کو استعمال کرتے ہوئے  علمی رد کرنے کو تیار ہوں اور آپ کے ایک ایک نکتے کا جواب دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ بڑی تحریروں سے کچھ نہیں ہوگا۔ کتب بھری پڑی ہیں۔ مناظروں میں دوٹوک نکتہ بہ نکتہ گفتگو کی جاتی ہے۔  آجائیں میدان میں۔  

شیعہ مناظر: آپ نے پورے مناظرے کا ایک نتیجہ نکالا ہے اور میں نے بھی۔ اگر  کوئی بھی دوست پہلے آپ کےنتیجہ اور خلاصہ پر مشتمل تحریر کا مطالعہ کرے اور پھر میری تحریر کا سب کو اندازہ ہوگا۔آپ نے کیا کہا ہے اور میں نے کیا کہا ہے۔جناب آپ نے میری باری سے پہلے بحث ختم کرنے کا اعلان کر کے پہلی غلطی کی اور سوچے سمجھے اور میرے مطالب کا مطالعہ بغیر خلاصہ اور نتیجہ نکال کر شیئر کر کے دوسری غلطی کی۔  اب آپ کو پوری تحریر کو ایک منظم مجموعہ سمجھ کر مطالعہ کرنا اور تبصرہ کرنا ہوگا۔اب ایک ایک نکات نکال کر تبصرہ کرنے کا وقت ختم ہوا ہے لہٰذا نئی چال نہ چلائیں دونوں کی تحریریں سب کے سامنے ہیں۔ہمارے سامعین بچے تو نہیں ہیں ،سمجھنےوالے ہیں جو باتیں ہوئیں سب کے سامنے ہوئی ہیں۔میں نے جو نتیجہ نکالا وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔آپ نے جو نتیجہ نکالا سب کے سامنے ہے۔ لگتا ہے ختم جلسہ کا اعلان کرکے پشیمان ہوگئے ہیں۔معذرت ممتاز صاحب غصہ دکھانے اور فضول میں Pdf بنانے اور سب کے سامنے رسوا کرنے کی دھمکی کا یہی اثر تو ہوتا ہے۔ ابھی یہ مختصر اور 8 صفحے کی تحریر ہے۔50 صفحے کی تفصیلی تحریر سامنے آئے تو لگتا ہے آپ پاکستان کی عدالت میں کیس لڑنے جاؤگے۔ ممتاز صاحب ایسا نہ کرنا  ایک عام سا مولوی ہوں۔اگرچہ میں ممتاز صاحب کے کسی بھی تبصرے پر پھر سے تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں کیونکہ دونوں نے بحث کا نتیجہ اپنے اپنے حساب سے نکال کر سب کے سامنے رکھا ہے لہذا اب سامعین اور ناظرین نے خود  ہی فیصلہ کرنا ہے۔   میری طرف سے مزید تبصرہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہےکہ میں اس کام کو ممتاز صاحب کی طرف سے بحث کے نتیجے سے  توجہ ہٹانے کی چال سمجھتا ہوں لہٰذا  بعد میں دوبارہ تبصرہ بھی نہیں کروں گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ممتاز صاحب کو حتٰی میرے اسی خلاصے کا دقت سے مطالعہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہے۔

 مندرجہ بالا مطالب میں دیکھیں ممتاز صاحب مسند ابی بکر کی حدیث  کے سلسلے میں کیا کہہ رہا ہے  جبکہ میں نے کئی دن پہلے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 لہذا ناظرین خود ہی دیکھیں موصوف حتیٰ میرے مطالب کا  بھی مطالعہ نہیں کرتا۔ موصوف کو نمبر کے بغیر جواب نظر نہیں  آتا جبکہ بحث کے مرحلے سے متعلق بہت سے سوالوں کا میں نے جواب دیا ہے۔ ممتاز کی طرف سے ختم جلسہ کا اعلان کرنے سے پہلے مسند ابی بکر کی روایت کی سند پیش کرچکا ہوں۔


شیعہ مناظر کی خیانت!

شیعہ مناظر نے سنی مناظر کی گفتگو ختم کرنے سے پہلے مسند ابی بکر کی دلیل اور سند پیش نہیں کی تھی، ورنہ اس کا اسکرین شاٹ لگاتا، انہوں نے اشارتآ ذکر دکھا کر واضح غلط بیانی کی ہےکیونکہ اوپر تاریخ اور وقت کے ساتھ اسکرین شاٹ دیکھ کر سچ اور جھوٹ معلوم ہوجاتا ہے۔


 

ایک بار پھر شیعہ مناظر کی طرف سے سنی مناظر کو اصل نکات کا جواب دینے کے بجائے اپنی تحریر کے ب کا راگ الاپنا شروع! جبکہ اس پر گفتگو جمعہ کے دن طئے کی گئی۔


یہ دیکھیں موصوف کی منطق میری طرف سے بار بار جناب عائشہ کے قول   کانت فاطمہ تسال ابابکر یعنی سیدہ فاطمہ نے حدیث سننے کے بعد بھی مطالبہ جاری رکھا اور مولی علی ع نے بھی خلیفہ دوم کے دور تک مطالبے کو جاری رکھا۔میرا سوال یہ تھا کہ بقول آپ کے معاملہ اسی حدیث کے سننے کے بعد ختم ہوا تھا تو یہاں تو جناب عائشہاور جناب عمر کہہ رہے ہیں معاملہ ختم نہیں ہوا؟

لیکن ممتاز صاحب میری طرف سے ہر بار اس سوال کو دھرانے کے بعد ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور اس کو بحث  کےاس مرحلے سے متعلق سوال ہونے کا انکار کرتا ہے   جبکہ یہ بحث کےاسی مرحلے سے متعلق سوال ہونا اظہر من الشمس ہے۔ میرا مقصد موصوف کی چالاکی کو بتانا ہے،جواب طلبی اور بحث کو طول دینا نہیں یہی دو نمونے کافی ہے۔