Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مجلس شوریٰ اعلیٰ سیاسی ادارہ

  علی محمد الصلابی

مجلسِ شوریٰ اعلیٰ سیاسی ادارہ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کا انتخاب صرف مجلسِ شوریٰ کے سپرد کر دیا تھا، اور قابلِ ذکر اہم بات یہ ہے کہ اصحابِ شوریٰ میں سے کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس قرار داد کی مخالفت نہ کی، اس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا۔ ہمارے سامنے جو نصوص ہیں، وہ اسی پر دلالت کرتے ہیں، ہمیں اس کا سراغ نہیں ملتا کہ کسی نے اس دور میں کوئی دوسری تجویز اس سلسلہ میں پیش کی ہو یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے خلاف کوئی مخالفت آپؓ کی زندگی کے آخری لمحات میں یا وفات کے بعد اٹھی ہو۔ تمام ہی لوگ آپؓ کی اس تدبیر سے راضی و خوش تھے اور اسی میں انہوں نے مسلم امت کی مصلحت سمجھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صدرِ مملکت یا خلیفہ کے انتخاب کے لیے اعلیٰ سیاسی ادارہ ایجاد کیا، یہ نئی دستوری تنظیم جسے عبقری شخصیت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایجاد کیا ان اساسی اصول و مبادی سے متعارض نہیں جسے اسلام نے قائم کیا ہے اور خاص کر جو شوریٰ سے متعلق ہیں اس لیے کہ اعتبار جامع مسجد میں جاری ہونے والے عام بیعت کے نتیجہ کا ہے، اس لیے یہاں یہ سوال ہو ہی نہیں سکتا جو بعض ذہنوں میں آ سکتا ہے کہ یہ حق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کس نے دیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس تدبیر کی دلیل اور اساس کیا تھی، ہمارے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ مسلمانوں کی جماعت نے اس تدبیر کو قبول کیا اور اس کو پسند کیا اور اس کے خلاف اعتراض کی کوئی آواز نہ اٹھی، اور ہمیں یہ بات یقینی طور سے معلوم ہوتی ہے کہ اس تدبیر کے صحت و نفاذ پر اجماع منعقد ہو چکا تھا جو مصادرِ تشریع میں سے ایک بنیاد مصدر ہے۔

(نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الاسلامی، ظافر القاسمی: جلد، 1 صفحہ، 227، 228) 

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ہیں، اور ہمیں یہ بھی یقین کرنا چاہیے کہ مجلسِ شوریٰ اعلیٰ ادارہ ہے، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں نظامِ حکومت نے اس کو تسلیم کیا ہے اور پھر جس بورڈ کی تعیین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کی تھی ان کے اندر جو خصائص پائے جا رہے تھے مسلمانوں میں اور لوگ اس کے حامل نہ تھے۔ اور یہ خصائص ان کو اللہ کی طرف سے حاصل ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ نے اس کی اطلاع دی تھی، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ تقویٰ و امانت میں مسلمانوں میں سے کوئی ان عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم کے مقام کو پہنچ سکے۔

(نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الاسلامی: جلد، 1 صفحہ، 229)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی اس طرح مکمل کی کہ مصائب و آلام اور سکرات الموت جیسے حالات مسائلِ امت کی تدبیر سے آپؓ کو نہ روک سکے اور ان حالات میں آپؓ نے شوریٰ کا انتہائی صالح نظام قائم کیا، آپؓ سے قبل اس کی مثال نہیں، بلاشبہ شوریٰ کی اصل دلیل کتاب کریم اور قولی و فعلی سنت سے ثابت ہے۔ رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل کیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی بدعت ایجاد نہ کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ یہ کہ خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ کار متعین فرما دیا، اور جن حضرات میں سے خلیفہ منتخب ہو ان کی تعداد محدود کر دی، اور یہ چیز نہ تو رسول اللہﷺ نے کی تھی اور نہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔ اس کو سب سے پہلے کرنے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے اسے کیا ہی خوب کیا! اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کے مطابق یہی افضل طریقہ تھا۔

 (اولیات الفاروق، د۔ غالب عبدالکافی القرشی: صفحہ، 127)