مرزا جہلمی کی قادیانیت نوازیاں
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندمرزا جہلمی کی قادیانیت نوازیاں
مرزا جہلمی اولیاء اللہ، محدثین و مفسرین کیلئے تو نہایت غلیظ و بازاری زبان استعمال کرتا ہے لیکن جوں ہی غامدیت، قادیانیت جیسے فسادیوں کی بات آتی ہے تو اسی مرزے کی بازاری زبان شیریں زبان میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
مرزا جہلمی جو کہ کافی صفات میں مرزا قادیانی کا ہم پلہ ہے اپنے ایک بیان میں عقیدہ ختم نبوت کے بارے کہتا ہے کہ تحفظ عقیدۂ ختم نبوت بڑا نفع مند کاروبار ہے اگر یہ کام کیا جائے تو بیرون ملک سے بہت زیادہ پیسہ ملتا ہے۔
مرزا جہلمی آخر اس بیان سے ثابت کیا کرنا چاہتا ہے؟
کہ ردِ قادیانیت پر کام اسلام کی مرضی نہیں بلکہ کافروں کی مرضی ہے؟
اب اسکے چیلے یہ کہیں گے کہ فلاں صاحب نے ایسا کہا۔
چلیں بالفرض محال اگر تسلیم کر لیا جائے کہ کسی کے کہنے پر ایسا بیان دیا تو کیا مرزا جہلمی کیا فیڈر پیتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے اسکو تسلیم کرلیا۔
اسی مرزا جہلمی کو 1400 سال قبل کی وہ باتیں تو پتا چل جاتی ہیں جو کہ بڑے بڑے محدثین کو بھی معلوم نہ ہوئی لیکن فی زمانہ کی باتوں سے نا آشنا۔
گل وچ ہور اے
مرزا جہلمی اس صدی کا کذاب اعظم ہے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے۔
اب اسکے فالورز فوراً یہ کہیں گے کہ اس نے اپنے بیان سے رجوع کر لیا۔
تو انکی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ اتنی بڑی کھچ سے رجوع نہیں بلکہ توبہ کی جاتی ہے۔
اور وہ رجوع بھی جو کہ اس گناہ کا کفارہ نہیں لوگوں کے کہنے پر کیا ۔
اس کے اس بیان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنی غلیظ اور پسماندہ سوچ کا مالک ہے۔