Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہﷺ کے ساتھ میدان جہاد میں

  علی محمد الصلابی

رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ جہاد میں

علماء کا اتفاق ہے کہ سیدنا عمرؓ بدر، احد اور تمام غزوات میں نبیﷺ کے ساتھ رہے اور کبھی غائب نہیں ہوئے۔ 

(صحیح البخاری: حدیث، 15)

1ـ غزوۂ بدر

سیّدنا عمرؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور جب رسول اللہﷺ نے معرکہ سے قبل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا تو سب سے پہلے سیدنا ابوبکرؓ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کا مشورہ دیا۔ پھر سیدنا عمر فاروقؓ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کرنے کا مشورہ دیا۔ 

(صحیح البخاری: حدیث، 6632 )

غزوۂ بدر میں مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مہجع(سنن أبی داود: الصلوٰۃ: حدیث، 1498، سنن ترمذی: الدعوات: حدیث، 3562۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سنن ابن ماجہ: المناسک: 2894 بروایت عمرؓ، اور محدث عصر حاضر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔مترجم)

کی شہادت ہوئی، جو سیدنا عمرؓ کے غلام تھے۔

(سنن أبی داود: الصلاۃ: حدیث، 1498 سنن ترمذی: الدعوات: حدیث، 3562)

سیدنا عمر بن خطابؓ نے عقیدہ (توحید) کے مقابلے میں رشتہ و قرابت کو دیوار پر مارتے ہوئے اپنے ماموں عاص بن ہشام  (عمر بن الخطاب: د/ محمد أبوالنصر: صفحہ، 94) کو قتل کیا اور اپنے اس فکر و عقیدہ کی تائید میں اس عمل کو باعثِ فخر سمجھتے تھے، معرکہ بدر ختم ہونے کے بعد آپ نے مشرکین کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس واقعہ میں عبرت و موعظت کی عظیم باتیں ہیں، جنہیں میں نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ، عرض وقائع وتحلیل احداث‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ 

جب رسول اللہﷺ کے چچا عباسؓ قیدیوں میں پکڑ کر لائے گئے تو آپ کی خواہش تھی کہ وہ ہدایت قبول کر لیں، چنانچہ کہا: اے عباسؓ! اسلام لے آؤ۔ اللہ کی قسم، تمہارا اسلام لانا میرے نزدیک خطابؓ کے اسلام لانے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور مجھے یہ خواہش اس وجہ سے ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی نگاہ میں تمہارا ایمان لانا ہی پسندیدہ ہے۔

ان قیدیوں میں قریش کا ماہر خطیب سہیل بن عمرو بھی تھا۔ آپؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت اکھاڑ لوں تاکہ اس کی زبان باہر لٹک جائے اور آپﷺ کے خلاف کبھی کہیں بھی تقریر نہ کر سکے۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا أُمَثِّلُ بِہٖ فَیُمَثِّلُ اللّٰہُ بِیْ وَإِنْ کُنْتُ نَبِیًّا ، وَأَنْ عَسَی أَنْ یَّقُوْمَ مَقَامًا لَ ا تُذَمَّہُ۔

(مناقب أمیر المومنین عمر ابن الخطاب: ابن الجوزی: صفحہ، 89)

’میں اس کا مثلہ نہیں کروں گا کہ اللہ تعالیٰ میرا مثلہ کر دے، اگرچہ میں نبی ہوں۔ امید ہے کہ (آئندہ) وہ کسی ایسے مقام پر کھڑا ہو جہاں تم اس کی مذمت نہ کر سکو۔‘‘

رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے کچھ لوگ اسلام سے پھر جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور ان سے مکہ کے گورنر عتاب بن اسیدؓ کافی ہراساں تھے، یہاں تک کہ چھپ گئے۔ اس وقت سہیل بن عمروؓ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر وفاتِ نبویﷺ کا ذکر کیا، اور فرمایا: ’’یہ چیز تو اسلام کی طاقت میں اضافہ کرنے والی ہے، جس نے ہمیں شک میں ڈالا ہم اس کی گردن اڑا دیں گے۔‘‘ پھر لوگ اپنے خیالات سے باز آ گئے۔

(الفاروق مع النبی: د/ عاطف لماضۃ: صفحہ، 32)

سیدنا عمر بن خطابؓ نے ایک حدیث بیان کی جسے آپﷺ سے اس وقت سنا تھا جب آپ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے مقتولین سے مخاطب تھے۔ پس انسؓ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عمرؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا، میری نگاہ تیز تھی۔ میں نے چاند پہلے دیکھ لیا اور سیدنا عمرؓ سے کہنے لگا: کیا آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اپنے بستر پر لیٹے ہوئے میں ابھی اسے دیکھ لوں گا۔ پھر آپ بدر والوں کے بارے میں ہمیں بتانے لگے۔ کہا: کل ہمیں رسول اللہﷺ ان (مشرکین) کی ہزیمت گاہ دکھا رہے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ ان شاء اللہ کل اس مقام پر فلاں چت ہو گا اور اس مقام پر فلاں چت ہو گا۔ پھر وہ (جن کے نام لیے تھے)ان مقامات پر گرتے گئے۔ میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ اس مقام سے ذرّہ برابر نہ ہٹے، وہاں مارے جا رہے تھے، پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا اور وہ کنویں میں ڈال دیے گئے۔ آپ ان کے پاس گئے اور کہا: اے فلاں! اے فلاں! کیا جس چیز کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا تم نے اسے حق پایا؟ میں نے اس چیز کو حق پایا جس کا اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ ان لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو مردہ ہوگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو میں ان سے کہتا ہوں اسے تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 

(الطبقات: ابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 391 اور392 سند منقطع ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ )

جب عمیر بن وہب اسلام لانے سے پہلے اور غزوہ بدر کے بعد رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے مدینہ آئے تو سیدنا عمر بن خطابؓ مسلمانوں کی ایک جماعت میں غزوۂ بدر کے بارے میں بات کر رہے تھے، اور وہ لوگ اپنے بارے میں اللہ کے اعزاز و اکرام اور جو کچھ ان کے دشمنوں کے بارے میں اس نے انہیں دکھایا تھا اس کا ذکر کر رہے تھے۔ اچانک سیدنا عمرؓ کی نظر عمیر بن وہب پر اس وقت پڑی جب کہ وہ مسجد نبوی کے دروازے کے سامنے تلوار لٹکائے اپنی اونٹنی کو بٹھا رہا تھا۔ آپ نے آواز لگائی: یہ کتا اللہ کا دشمن عمیر بن وہب ہے، یہ کسی بری نیت ہی سے آیا ہے، اسی نے ہمیں نبرد آزمائی پر اُبھارا ہے اور بدر کے دن مشرکوں سے مقابلہ کے لیے اکٹھا کیا ہے۔ پھر آپ نبی کریمﷺ کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! یہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہب ہے، جو تلوار لٹکائے ہوئے آیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ سیدنا عمرؓ آگے بڑھے، اس کی تلوار کے پٹکے سے اس کی گردن لپیٹ دی اور اسے قید کر لیا اور وہاں موجود انصار سے کہا: اللہ کے رسول اللہﷺ کے پاس چلو اور وہاں بیٹھو، اور اس خبیث کے شر سے آپ کو آگاہ کرو، کیونکہ اس سے ہمیشہ خطرہ ہے۔ پھر آپ اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس حاضر خدمت ہوئے۔ جب آپﷺ نے اس کو دیکھا کہ عمرؓ اس کی تلوار کے پٹکے سے اس کی گردن کو باندھے ہوئے لا رہے ہیں تو کہا: اے عمرؓ اسے چھوڑ دو، اور اے عمیر تم قریب آؤ، وہ قریب آیا اور کہا: صبح بخیر۔ اس کلمہ کے ذریعہ سے اہلِ جاہلیت ایک دوسرے کو تحیہ پیش کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

أَکْرَمْنَا اللّٰہُ بِتَحِیَّۃٍ خَیْرٌ مِّنْ تَحِیَّتِکَ یَا عُمَیْرُ، بِالسَّلَامِ، تَحِیَّۃُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 311)

ترجمہ: '’اے عمیر! اللہ نے ہمیں تمہارے تحیہ سے بہتر تحیہ یعنی السلام علیکم کے ذریعہ سے اعزاز بخشا ہے، یہ جنت والوں کا تحیہ ہے۔"

پھر آپﷺ نے فرمایا: اے عمیر! تم کس مقصد سے آئے تھے؟ اس نے کہا: قیدی کو آزاد کرانے کی نیت سے آیا تھا، جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ اس پر احسان کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر تمہاری گردن میں تلوار کیوں لٹک رہی ہے؟ اس نے کہا: اللہ ان تلواروں کا برا کرے، ان سے ہمیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا: مجھے سچ سچ بتاؤ تم کس نیت سے آئے تھے؟ اس نے کہا: میں اسی (مذکورہ) مقصد سے آیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اور صفوان بن امیہ حِجْر میں بیٹھے تھے، ان سردارانِ قریش کے بارے میں تمہاری گفتگو ہوئی جو قلیب بدر میں ڈال دیے گئے، پھر تم نے کہا کہ اگر میں مقروض نہ ہوتا اور بال بچے نہ ہوتے تو میں جاتا اور محمد(ﷺ) کو قتل کر دیتا۔ چنانچہ صفوان بن امیہ نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی ذمہ داری اس پر شرط پر قبول کر لی کہ تم مجھے قتل کر دو، اللہ تمہاری نیت سے واقف ہے۔ عمیر نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ جو آسمانی خبریں ہمیں سناتے تھے اور جو آپ پر وحی نازل ہوتی تھی ہم اسے جھٹلاتے تھے۔ اور آپ نے جو کہا یہ ایسا معاملہ جسے میرے اور صفوان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کی قسم، اللہ نے آپ کو جو خبر دی میں اسے بخوبی جان گیا، پس شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی، اور یہاں لایا۔ پھر آپ نے کلمۂ شہادت کا اقرار کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:

فَقِّہُوْا أَخَاکُمْ فِیْ دِیْنِہٖ وَعَلِّمُوْہُ الْقُرْآنَ وَأَطْلِقُوْا أَسِیْرَہٗ۔

ترجمہ: ’’اپنے بھائی کو دین سکھاؤ، قرآن پڑھاؤ، اور اسے قید سے آزاد کر دو۔‘‘

چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ 

(صحیح السیرۃ النبویۃ: علی محمد محمد الصلابی: صفحہ، 259)

اس واقعہ سے حفاظت و سلامتی کے بارے میں سیدنا عمر بن خطابؓ کا ایسا بلند احساس ظاہر ہوتا ہے جس میں آپ منفرد تھے۔ آپ عمیر بن وہب کی آمد دیکھ کر چونک گئے اور خبردار کیا اور علی الاعلان کہا کہ یہ شیطان ہے، کسی بری نیت سے آیا ہے، کیونکہ آپ کے سامنے اس کے ماضی کے ریکارڈ موجود و معلوم تھا، وہ مکہ میں مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا، اسی نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں سے جنگ لڑنے پر کافروں کو ابھارا تھا اور مسلمانوں کی تیاریوں کے بارے میں اس نے خود معلومات فراہم کی تھیں، اسی لیے آپ نے رسول اللہﷺ کی حفاظت کے اسباب کو فوراً اختیار کیا اور ایک طرف خود عمیر کی تلوار کے پٹکے کو سختی سے پکڑ لیا جو اس کی گردن سے بندھا ہوا تھا۔ اس طرح اسے رسول اللہﷺ پر حملہ آور ہونے کی نیت سے اس کی تلوار کو استعمال میں لانے کے ممکنہ خطرات کو بے کار کر دیا، اور دوسری طرف دیگر صحابہ کرامؓ کو رسول اللہﷺ کی حفاظت و نگرانی پر لگا دیا۔