عدالت صحابہ رضی اللہ عنہم کا مفہوم کیا صحابہ رضی اللہ عنہم صرف روایت حدیث میں عادل ہیں؟
محمد جنادہ نعمانیاہلِ سنت والجماعت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں ہیں مگر وہ عادل، متقن، متقی اور انتہا درجہ پرہیزگار ہیں، آسمانِ دیانت و تقویٰ کے درخشندہ ستارے ہیں، فسق و فجور جن کے قریب بھی نہیں بھٹکا۔
چنانچہ خداوندِ قدوس نے قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطَب کرکے فرمایا:
وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيۡكُمُ الۡاِيۡمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
ترجمہ: لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آ چکے ہیں۔
نیز ارشادِ باری ہے:
اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰى لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 3)
ترجمہ: یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقویٰ کے لیے منتخب کر لیا ہے، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔
علم العقائد کی معروف کتاب المسامرۃ شرح المسایرۃ میں ہے:
’’و اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم و الکف عن الطعن فیھم و الثناء علیھم وما جریٰ بین علی و معاویۃ رضی اللّٰہ عنھما کان مبنیاً علی الاجتھاد من کل منھما لامنازعۃ من معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ فی الامامۃِ‘‘ (صفحہ، 269، 270)
ترجمہ: اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تزکیہ یعنی گناہوں سے پاکی بیان کرنا ہے اس طرح کہ ان سب کے لیے عدالت ثابت کرنا اور ان کے بارے طعن سے رکنا اور ان کی مدح و ثناء کرنا ہے۔ اور حضرت علی اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو کچھ معاملہ پیش آیا یہ دونوں حضرات کے اجتہاد کی بناء پر تھا، سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکومت و امامت کا جھگڑا نہیں تھا۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
الصّحابۃ کلّھم عدول من لابس الفتن وغیرھم بإجماع من یعتد بہ، قال اللہ تعالیٰ: وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا ۞ الآیۃ
(سورۃ البقرة: آیت، 143)
أی عدولا۔ وقال اللہ تعالیٰ: كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ۞
(سورة آل عمران: آیت، 110)
والخطاب فیھا للموجودین حینئذ وقال صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: خیر النّاس قرنی، رواہ الشیخان۔ قال إمام الحرمین: والسبب فی عدم الفحص عن عدالتھم: أنّھم حملۃ الشریعۃ
(تدریب الراوی: صفحہ، 492، 493 قدیمی کتب خانہ، کراچی)
یعنی باجماعِ معتبر علماء تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں، مبتلائے فتن ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، (دلیل) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا ۞
ترجمہ: کہ ہم نے تمہیں امت وسط یعنی عادل بنایا۔
نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ۞
کہ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالے گئے ہو، ان آیات میں خطاب اُس وقت موجود حضرات (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کو ہے، اور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ لوگوں میں بہترین میرا زمانہ ہے، امام الحرمین نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت سے بحث و جستجو نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حاملینِ شریعت و ناقلینِ شریعت ہیں۔
مشہور حنفی محقق ملا قاری رحمۃ اللہ ارقام فرماتے ہیں:
’’ذھب جمہور العلماء الی أنّ الصحابۃَ رضی اللّٰہ عنہم کلّھم عدول قبل فتنۃ عثمان و علی وکذا بعدھا ولقولہ علیہ الصلاۃ والسّلام أصحابی کالنجوم بأیّھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘
(شرح الفقہ الأکبر لملا علی القاری: صفحہ، 63)
ترجمہ: جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل (پاکباز، متقی) ہیں حضرت عثمان غنی و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں وقوع پذیر فتنوں سے پہلے بھی اور اُس کے بعد بھی، کیونکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کی مانند ہیں، ان میں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
’’قال ابن الصلاح و النووی الصحابۃ کلھم عدول و کان للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مائۃ ألف و أربعۃ عشر ألف صحابی عند موتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم والقرآن والأخبار مصرّحان بعدالتھم وجلالتھم ولما جری بینھم محامل‘‘
(الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ: جلد، 2 صفحہ، 640 مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ابنِ صلاح اور امام نووی فرماتے ہیں، کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل و متقی تھے، نبی کریمﷺ کے وصال کے وقت ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت و تقویٰ اور جلالتِ شان کی صراحت و وضاحت کر رہے ہیں، اور ان کے باہمی مشاجرات و معاملات کے محمل اور تاویلات موجود ہیں۔
اس لیے اہل سنت والجماعت کا بجا طور مؤقف پر یہی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ صرف روایتِ حدیث میں عادل و پاکباز ہیں، بلکہ تمام معاملاتِ زندگی اور اعمالِ حیات میں بھی عادل و متقی اور پرہیزگار ہیں تاہم معصوم نہیں ہیں کہ ان سے کوئی خطا اور گناہ سرزد ہی نہ ہو، معصوم عن الخطا صرف انبیاء کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ عن الخطا ہیں، یعنی یا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے خطا و معصیت کا صدور ہونے نہیں دیتے، اور اگر کسی ایزدی حکمت و ربانی مصلحت کی بناء پر کسی معصیت و گناہ کا صدور ہو تو خداوندِ قدوس صحابی کی زندگی میں ہی اس کا ازالہ و تدارک کروا دیتے ہیں کہ صحابی جب دنیا سے جاتا ہے تو بموجبِ وعدۂ خداوندی ’’وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى ۞‘‘ (سورۃ النساء: آیت، 95) جنتی بن کر دنیا سے رخصت ہوتا ہے، اس لیے ’’الصّحابۃ کُلُّھم عُدول‘‘ کا یہ مطلب لینا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم السلام کی مانند معصوم ہیں، نادرست اور غلط ہے، عصمت خاصہ انبیاء کرام ہے تاہم دوسری طرف یہ کہنا کہ صحابی عام زندگی میں اس مفہوم میں بھی عادل نہیں ہوتا جو اہلِ سنت کے متفق علیہ و مسلّم ہے، تصریحاتِ اہلِ سنت و تشریحاتِ اکابر علماء دیوبند کے مطابق و موافق نہیں ہے، اس کا واضح مطلب تو یہ ہوا کہ صحابی فاسق ہو سکتا ہے کیونکہ عدالت اور فسق میں تباین و تضاد ہے، عادل ہے تو فاسق نہیں، فاسق ہے تو عادل نہیں، اور عادل نہیں تو فاسق ہے۔
مگر بہت سے گمراہ نظریات رکھنے والے لوگوں کا نظریہ اور اعتقاد یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایتِ حدیث میں تو عادل ہیں، مگر دیگر احوالِ زندگی میں عادل اور متقی نہیں ہیں، درحقیقت اس اعتراض اور نقطئہ نظر کا مبدأ اور منشا سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو غیر عادل اور فاسق و فاجر اور باغی و طاغی تک قرار دینا ہے، اسی ضرورت سے یہ نظریہ ایجاد کرنا پڑا۔
چنانچہ مودودی صاحب اپنی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں:
میں ’’الصَّحَابۃُ کلُّھُم عُدول‘‘ (صحابہ سب راست باز ہیں) کا یہ مطلب نہیں لیتا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بے خطا تھے، اور ان میں ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالا تر تھا، اور ان میں سے کسی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ سے روایت کرنے یا آپﷺ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابی نے کبھی راستی سے ہرگز تجاوز نہیں کیا ہے‘‘
(خلافت و ملوکیت: صفحہ، 303 طبع: ادراہ ترجمان القرآن، لاہور، 2019ء)
موجودہ دور میں بھی بعض ایسے نظریاتِ فاسدہ و خیالاتِ کاسدہ کے حامل لوگ پیدا ہو چکے ہیں۔
اس نظریہ کا علماء امت نے ابطال اور رَد فرمایا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم مودودی صاحب کے اس مؤقف کا ردِ بلیغ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر اس کتاب (خلافت و ملوکیت) کے ان مندرجات کو درست مان لیا جائے جو خاص سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ہیں تو اس سے عدالتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا وہ بنیادی عقیدہ مجروح ہوتا ہے جو اہلِ سنت کا اجماعی عقیدہ ہے اور جسے مولانا مودودی صاحب بھی اصولی طور پر درست مانتے ہیں۔ مولانا نے ’’الصحابۃ کلھم عُدول‘‘ (تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں) کو اصولی طور پر اپنا عقیدہ قرار دے کر یہ لکھا ہے کہ اس عقیدے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ روایتِ حدیث میں انہوں نے پوری دیانت اور ذمہ داری سے کام لیا ہے۔ لیکن اس گفتگو میں مولانا نے اس بحث کو صاف نہیں فرمایا، عقلی طور پر عدالتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تین مفہوم ہو سکتے ہیں۔
1: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم اور غلطیوں سے بالکل پاک ہیں ۔
2: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی عملی زندگی میں (معاذ اللہ) فاسق ہو سکتے ہیں لیکن روایتِ حدیث کے معاملے میں بالکل عادل ہیں۔
3: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ تو معصوم تھے اور نہ فاسق۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی سے بعض مرتبہ بتقاضائے بشریت ’’دو ایک یا چند‘‘ غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں لیکن تنبہ کے بعد انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے انھیں معاف فرما دیا اس لیے وہ ان غلطیوں کی بناء پر فاسق نہیں ہوئے چنانچہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے گناہوں کو اپنی ’’پالیسی‘‘ بنا لیا ہو، جس کی وجہ سے اسے فاسق قرار دیا جا سکے۔ پہلے مفہوم کو تو انہوں نے صراحتاً غلط کہا ہے اور جمہور اہلِ سنت بھی اسے غلط کہتے ہیں، اب آخری دو مفہوم رہ جاتے ہیں، مولانا نے یہ بات صاف نہیں کی کہ ان میں سے کون سا مفہوم وہ درست سمجھتے ہیں، مولانا نے یہ بات صاف نہیں کی کہ ان میں سے کون سا مفہوم درست ہے، اگر ان کی مراد دوسرا مفہوم ہے، یعنی یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین صرف روایتِ حدیث کی حد تک عادل ہیں، ورنہ اپنی عملی زندگی میں وہ معاذ اللہ فاسق و فاجر بھی ہو سکتے ہیں، تو یہ بات ناقابلِ بیان حد تک غلط اور خطرناک ہے، اس لیے کہ اگر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو فاسق و فاجر مان لیا جائے تو آخر روایتِ حدیث کے معاملہ میں اسے فرشتہ تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے؟ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کے لیے جھوٹ، فریب، رشوت، خیانت اور غداری کا مرتکب ہو سکتا ہے، وہ اپنے مفاد کے لیے جھوٹی حدیث کیوں نہیں گھڑ سکتا۔ اسی لیے تمام محدثین اس اُصول کو مانتے ہیں کہ جو شخص فاسق و فاجر ہو اس کی روایت صحیح نہیں ہوتی، ورنہ اگر روایات کو مسترد کرنے کے لیے یہ شرط لگا دی جائے کہ راوی کا ہر ہر روایت میں جھوٹ بولنا ثابت ہو تو شاید کوئی بھی روایت موضوع ثابت نہیں ہو سکے گی اور حدیث کے تمام راوی معتبر اور مستند ہو جائیں گے، خواہ وہ عملی زندگی میں کتنے ہی فاسق و فاجر کیوں نہ ہوں اور اگر مولانا مودودی صاحب عدالتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیسرے مفہوم میں درست سمجھتے ہیں جیسا کہ اوپر نقل کی ہوئی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے، سو یہ مفہوم جمہور اہلِ سنت کے نزدیک درست ہے لیکن حضرت امیرِ معاویہؓ پر انھوں نے جو اعتراضات اپنی کتاب میں کیے ہیں اگر اُن کو درست مان لیا جائے تو عدالت کا یہ مفہوم ان پر صادق نہیں آ سکتا۔
(حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور تاریخی حقائق: صفحہ، 139 تا 142 طبع: معارف القرآن، کراچی، 2016ء)
یہی بحث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے دوسرے باب، صفحہ، 254 پر بھی کی ہے۔
مولانا محمد ثاقب اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دراصل مولانا مودودی صاحب نے عدالتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا جو مفہوم بیان کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایتِ حدیث کی حد تک تو عادل ہو سکتے ہیں لیکن زندگی کے تمام معاملات میں ان سے بعض کام عدالت کے منافی صادر ہو سکتے ہیں۔
(حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور تاریخی روایات: صفحہ، 163 مکتبہ معارف القرآن، کراچی، 2011ء)
حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’اور بعض علماء نے جو عدمِ عصمت اور عمومِ عدالت کے تضاد سے بچنے کے لیے عدالت کے مفہوم میں یہ ترمیم فرمائی کہ یہاں عدالت سے مراد تمام اوصاف و اعمال کی عدالت نہیں بلکہ روایت میں کذب نہ ہونے کی عدالت مراد ہے، یہ لغت و شرع پر ایک زیادتی ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (مقامِ صحابہ: صفحہ، 60)
اس زمانہ کے مؤرخ مولانا محمد اسماعیل ریحان نے بھی اپنی کتاب ’’تاریخ امتِ مسلمہ‘‘ (جلد، 2 صفحہ، 67) پر مفتی اعظم مولانا محمد شفیع دیوبندی قدس سرہ کے حوالے سے اس نظریہ اور خیال کی تردید فرمائی ہے۔
محقق اہلِ سنت مولانا مہر محمد صاحب رحمۃ اللہ (میانوالی) لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلا استثناء، دروغ گوئی خصوصاً کذب فی الروایۃ سے پاک و صاف تھے اور کسی سے بھی کذب کا صدور نہیں ہوا اور بایں معنیٰ عادل ہونا بھی ان کی منقبت کی واضح دلیل ہے، لیکن عدالتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صرف اس معنیٰ میں منحصر کرنا اور اسے محدثین کی مراد بتانا ناقابلِ تسلیم اور لائقِ مناقشہ ہے، کیونکہ بعض محدثین نے عدالت کی تفسیر میں جھوٹ سے بچنا لکھا ہے تو اس کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ ان محدثین کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روایت میں عمداً کذبِ بیانی کے سوا باقی سب امور اور شعبہ ہائے حیات میں غیر عادل حتیٰ کہ ہر قسم کے کبیرہ گناہوں تک کا ارتکاب کرتے تھے، جیسے صاحبِ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور ان کے حواریوں کا خیال ہے بلکہ جھوٹ سے بچنے کی تصریح کا مطلب یہ ہے کہ بایں معنیٰ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عدالت اتنی قطعی اور اٹل ہے جیسے انبیاء کرام علیہم السلام کی گناہوں سے عصمت کہ اس میں استثناء یا شذوذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ کسی عالم نے آج تک یہ لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جھوٹ بولتے تھے، بخلاف چند اور گناہوں کے کہ چند حضرات کی ان سے عصمت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہر فرد انبیاء علیہم السلام کی طرح قطعی معصوم نہیں کہ صدورِ معصیت محال ہی ہو، ہم نے اپنی کتاب میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ عدالتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف روایت عن الرسول میں منحصر نہیں بلکہ ان کی سیرت کے ہر پہلو میں عام ہے۔ محدثین جو عام رُواۃ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ عادل ہیں تو یہ اس کی پوری سیرت کی پاکیزگی پر شہادت ہوتی ہے کہ وہ کبائر سے مجتنب اور صغائر پر غیر مصر ہے، پھر اسی بحث میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کہتے ہیں:
’’الصّحابہ کُلُّہم عدول‘‘
ترجمہ: کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں، تو اب اس عدالت کو تجنب عن الکذب میں مخصوص نہیں کیا جائے گا ورنہ لازم آئے گا کہ غیر صحابی کی عدالت صحابی رضی اللہ عنہ سے افضل ہو، وھو باطل۔ علماء اصولِ حدیث اور محدثین ’’کلھم عدول‘‘ کی دلیل ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ فرماتے ہیں: ’’زَکّیاھم و عدّلاھم‘‘کیونکہ خدا اور رسول اکرمﷺ نے ان کا تزکیہ کیا ہے، اور ان کو عادل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کا یہ تزکیہ اور تعدیل صرف کذب سے اجتناب میں نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیگر گناہوں کے مرتکب ہوتے رہتے تھے بلکہ یہ مجموعی طور پر ان کے اعمال و اخلاق کی عیوب سے طہارت اور آلودگیوں سے اجتناب پر شہادت ہے، تو معلوم ہوا محدثین کے نزدیک بھی عدالت میں تعمیم ہے۔ بہرحال! تزکیہ، نزاہت، قصدِ معصیت سے تبریہ ان کی شان کی گناہوں سے بلندی جیسے واضح الفاظ ہمارے مؤید ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت عام ہے، اور وہ بالعموم سب گناہوں اور معاصی سے محفوظ ہیں، ایسی صراحتوں کے باوجود کیا اب بھی محدثین پر یہ اتہام لگایا جائے گا کہ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تعمدِ کذب فی الروایۃ تک عادل تھے باقی ہر قسم کے کبائر اور معاصی کرتے تھے، اور ذنوب ان سے معدوم نہیں ہوئے تھے۔
(عدالتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم: صفحہ، 70 تا 75 طبع: ہفتم)
یہ ایک بالکل بدیہی اور سادہ سی سے بات ہے، اگر یہ مؤقف تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام زندگی میں عادل نہیں، صرف روایتِ حدیث میں عادل ہیں، اور ان کی قبولِ روایت کے لیے عام زندگی میں عدالت ضروری نہیں تو اس سے نہ صرف یہ اصولِ حدیث میں برائے قبولِ روایت عدالت کی شرط ایک مذاق اور مضحکہ خیز قاعدہ بن کر رہ جائے گا بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر رواۃ تو عام معاملاتِ حیات میں بھی عادل ہوں اور صحابیِ رسولﷺ نعوذ باللہ عادل نہ ہو، جیسا کہ حضرت مولانا مہر محمد صاحب میانوالی رحمۃ اللہ نے بھی ذکر فرمایا ہے۔
بعض حضرات نے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ کی طرف بھی ایسی باتوں کی نسبت کی ہے، جس کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ نے (مقامِ صحابہ: صفحہ، 60، 61) یہ تصریح فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاً شاہ صاحب کی طرف ان عبارات کی نسبت مشکوک ہے، ثانیاً اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ حضرت شاہ رحمۃ اللہ کی عبارات ہیں تو خلافِ جمہور ہونے کی وجہ سے متروک و مردود ہیں۔ دوسری طرف حضرت امیرِ معاویہؓ عدالت و تقویٰ پر علماء امت کی تصریحات موجود ہیں، ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی عدالت پر مہر اثبات ثبت کرتے ہوئے میں فرماتے ہیں:
’’وأما معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ فھو من العَدُول الفضلاء والصَّحابۃ النُّجباء رضی اللّٰہ عنہ وأما الحروب التی جرت فکانت لکل طائفۃ شبہۃ اعتقدت تصویب أنفسھا بسببھا وکلھم عدول رضی اللّٰہ عنھم ومتأولون فی حروبھم وغیرھا ولم یخرج شیء من ذلک أحدا منھم عن العدالۃ لأنھم مجتھدون اختلفوا فی مسائل من محل الاجتھاد کما یختلف المجتھدون بعدھم فی مسائل من الدماء وغیرھا ولا یلزم من ذلک نقص أحد منھم فکلھم معذورون رضی اللّٰہ عنھم ولہٰذا اتفق أھل الحق ومن یعتد بہ فی الإجماع علی قبول شھاداتھم وروایاتھم و کمال عدالتھم رضی اللّٰہ عنھم اجمعین‘‘۔
(شرح النووی علی الصحیح لمسلم، کتاب الفضائل، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہم: جلد، 15 صفحہ، 149 دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: بہرحال سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ تو وہ عادل، صاحبِ فضیلت اور معزز صحابی ہیں، جہاں تک ان محاربات و مشاجرات کا تعلق ہے جو ان حضرات کے مابین پیش آئے تو وہاں ہر ایک کو کوئی اشتباہ و التباس تھا، جس کی وجہ سے ہر ایک نے خود کو درست سمجھا، جب کہ وہ سب کے سب عادل ہیں اور ان کے مخاصمات و باہمی متنازعات میں ان کے پاس تاویل موجود ہے، ایسی کسی معاملہ نے انھیں عدالت سے نہیں نکالا کیونکہ وہ مجتہد تھے، (جس کا نتیجہ یہ ہے کہ) محلِ اجتہاد میں کچھ مسائل میں ان کا اختلاف ہو گیا، جیسا کہ ان کے بعد بھی مختلف مسائل میں مجتہدین کا اختلاف ہوتا رہتا ہے، اس سے ان میں سے کسی کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معذور ہیں اور اسی وجہ اہلِ احق اور ان لوگوں کا کہ اجماع کے باب میں جو لائقِ اعتبار و قابلِ شمار ہے، کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گواہیوں اور روایات کے قبول ہونے نیز کمالِ عدالت و تقویٰ پر اتفاق اور اجماع ہے۔
لہٰذا حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ صرف روایتِ حدیث میں بلکہ تمام امورِ حیات و معاملاتِ زندگی، احوال و آثار اور اوصاف و خصال میں عادل اور متقی و پرہیزگار ہیں، یہ نظریہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین صرف روایتِ حدیث میں عادل ہیں، خلافِ اہلِ سنت والجماعت باطل اور غلط ہے، جس کا قلع قمع ضروری ہے۔