Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ

  جعفر صادق

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مبارک زمانہ ابتدائے بعثت سے شروع ہو کر پہلی صدی کے آخر تک ختم ہوگیا اوراس طرح رسول اللہﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ۔
(بخاری: کتاب موقیت الصلوٰۃ، بَاب السَّمَرِ فِی الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، حدیث نمبر: 566)
ترجمہ: جو لوگ آج روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ:
حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین کی بنیاد ہیں، دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انہوں نے حضور اقدسﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بنا کر اس کا اتباع کیا جائے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہیں قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی، اللہ جل شانہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کو پہچانو ان کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔
(مشکوۃ: باب اعتصام بالکتاب والسنت: حدیث نمبر: 193 ازرزین)
انسان کے فرائض میں سب سے مقدم اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اخلاق انسانی کی اصلاح کی جائے علم اور فن، تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت تمام چیزیں دنیا میں آئیں اور آتی رہیں گی لیکن انسانیت کو تہذیب سے آراستہ کرنا بہت ضروری تھا اس لیے دنیا میں جب سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو بھیجا گیا تو اسی ذمہ داری کے ساتھ بھیجا گیا پھر ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے پیغمبر اسی سلسلے کو یعنی تہذیب نفوس کو آگے بڑھاتے رہے اس کے بعد سب سے آخر میں حضور اکرمﷺ کو تمام کمالات کا مجموعہ بنا کر بھیجا گیا اور پھر اعلان کردیا گیا کہ:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا الخ۔
(سورۃ المائدہ: آیت 3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر ہمیشہ کے لیے پسند کرلیا۔
اب انسانوں کے اخلاق سدھارنے کے لیے قیامت تک کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے اگر کوئی انسان نبی کریمﷺ کے اخلاق کا مطالعہ کرنا چاہے یا آپﷺ کی تربیت کا انداز دیکھنا چاہے آپﷺ کے اقوال و افعال اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہے تو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتاہے، عقائد عبادات معاشرت اور معاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اور بدعت کی پہچان ہوتی ہے۔
اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔
(خلاصہ سیر الصحابہ: 5/7)
جناب نبی کریمﷺ کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہِ راست حضور اکرمﷺ سے استفادہ کیا اور آپﷺ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردہ اور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر پڑی ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پوری جماعت کی تقدیس و تعریف فرمائی ہے اور جماعتِ صحابہ کو مجموعی طور پر رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ الخ (سورۃ المائدہ: آیت، 119) فرمایا یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، صحابہ کرام راستہ پانے والے اور راستہ دکھانے والے ہیں ،اسی غرض سے آئندہ صفحات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو پیش کیا جارہا ہے۔