تیسرا مرحلہ عہدعثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین
علی محمد الصلابیتیسرا مرحلہ عہد عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین
عہد عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین کا سبب
انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ حذیفہ بن یمانؓ عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آرمینیہ اور آذربائجان میں اہلِ شام اور اہل عراق کی اسلامی افواج ایک ساتھ جنگ لڑ رہی تھیں، ان کے درمیان قرآن کی قرأت میں اختلاف رونما ہوا جس سے حذیفہؓ بے حد پریشان ہوئے اور عثمانؓ سے عرض کیا: یہود و نصارٰی کی طرح کتاب الہٰی میں اختلاف رونما ہونے سے قبل اس امت کی خبر لیجیے۔ عثمانؓ نے ام المؤمنین حفصہؓ کو کہلا بھیجا کہ قرآن آپ ہمیں بھیج دیں، اس کے مختلف نسخے کرا کے ہم آپ کو واپس کر دیں گے۔ ام المؤمنین نے قرآن کو عثمانؓ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبدالرحمن بن حارثؓ بن ہشامؓ کو حکم فرمایا اور انہوں نے اس کے مختلف نسخے تیار کیے۔ عثمانؓ نے تینوں قریشی حضرات (عبداللہ، سعد، عبدالرحمن) سے فرمایا تھا کہ جب تمہارا قرآن کے کسی لفظ کے طرز تحریر میں زید بن ثابتؓ سے اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور جب یہ حضرات قرآن کو مختلف مصاحف میں منتقل کر چکے تو عثمانؓ نے اصل صدیقی نسخہ ام المؤمنین حفصہؓ کو واپس کر دیا، اور پھر تیار کردہ مصاحف کا ایک ایک نسخہ خلافت اسلامیہ کے مختلف علاقوں کو بھیج دیا۔ اور اس کے علاوہ جو صحابہؓ کے پاس ذاتی نسخے تھے اور انہوں نے اپنی یادداشت کے لیے اپنے اپنے ڈھنگ سے تحریر کر رکھے تھے انہیں جلا دینے کا حکم جاری کیا۔
[البخاری؍ فضائل القرآن (4987)]
(تاکہ بعد میں یہ چیز قرآن میں اختلاف کا سبب نہ ہو۔)
اس صحیح روایت سے ہمارے سامنے مختلف امور ثابت ہوتے ہیں
اگرچہ ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں قرآن کی جمع و ترتیب کا کام ہو چکا تھا، لیکن عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں جمع قرآن کا حکم نافذ فرمایا، اس کا اصل سبب قرأت قرآن میں مسلمانوں کے مابین اختلاف کا رونما ہونا تھا، قریب تھا کہ اس اختلاف کے سبب قرآن کے سلسلہ میں خطرناک فتنہ برپا ہو جائے، حالاں کہ قرآن ہی شریعت کی اصل، دین کا ستون اور امت کی معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی عمارت کی اساس و بنیاد ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ بعض لوگ کہنے لگے تھے یہ میری قرأت تمہاری قرأت سے افضل ہے، جس کی وجہ سے حذیفہؓ پریشان ہو گئے، اور مسلمانوں کے امام و خلیفہ عثمانؓ کی خدمت میں پہنچے، اور ان سے درخواست کی کہ اختلاف رونما ہونے سے پہلے امت کی خبر لیں تاکہ مسئلہ بڑھنے نہ پائے، اور یہ اختلاف سنگین صورت اختیار نہ کر لے، اور نص قرآنی میں اختلاف رونما نہ ہو جائے اور کلمات و آیات میں تبدیلی نہ واقع ہو جائے جیسا کہ یہود و نصاریٰ اس کا شکار ہو چکے ہیں۔
یہ صحیح حدیث اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم صحائف میں لکھ کر ایک جلد میں لایا جا چکا تھا اور امت کا اس پر مکمل اتفاق ہو چکا تھا کہ جو کچھ اس میں مکتوب ہے وہ وہی قرآن ہے جو رسول اللہﷺ کو جبریل امین علیہ السلام کے واسطہ سے آخری دور میں حاصل ہوا۔ یہ قرآن خلیفہ اوّل ابوبکرؓ کے پاس محفوظ رہا، پھر عمر بن خطابؓ کی حفاظت میں منتقل ہوا، اور جب عمرؓ کا آخری وقت آیا اور آپ نے انتخاب خلیفہ کے لیے شوریٰ تشکیل دے دی تو اس قرآن کی حفاظت کے لیے ام المؤمنین حفصہؓ کے حق میں وصیت فرمائی۔ عثمانؓ نے اپنے دور میں جمع قرآن کے لیے اسی نسخہ پر اعتماد کیا اور اسی سے اپنا سرکاری مصحف تیار کرایا، اور چار مشہور صحابہ کرامؓ کو جو حفظ قرآن، کتابت حروف اور ادائے قراء ت اور فہم اعراب و لغت کے ماہر تھے کتابت قرآن کا حکم دیا، جن میں سے تین قریشی تھے اور ایک انصاری زید بن ثابتؓ تھے۔ جنھوں نے عہد صدیقی میں پہلی بار عمر بن خطابؓ کے مشورے سے قرآن جمع کیا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ جنھیں عثمانؓ نے جمع کے لیے منتخب فرمایا تھا ان کی تعداد بارہ تھی، ان میں ابی بن کعبؓ اور قریش و انصار کے دیگر حضرات تھے۔[عثمان بن عفان؍ صادق عرجون صحفہ 171]
٭ اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عہد عثمانی میں فتوحات خلیفہ کی اجازت اور اس کے حکم سے جاری تھیں، اور فوجی قرارداد مدینہ دارالخلافہ سے صادر ہوتی تھیں، اور تمام اسلامی صوبے خلیفہ راشد عثمانؓ کے تابع تھے، بلکہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عثمانؓ کی خلافت پر تمام صوبوں میں صحابہ و تابعین کا اجماع تھا، اور یہ کہ شریعت کے اہم مسائل پر خلیفہ راشد عثمانؓ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور مدینہ دار سنت اور فقہاء صحابہؓ کا مرکز تھا۔[المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام والعصر الراشدی (2؍244) ]
عہد عثمانی میں جمع قرآن کے لیے جمہور صحابہؓ سے مشورہ
عثمانؓ نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور اس سلسلہ میں ان سے مشورہ کیا، ان میں امت کے نمائندہ افراد، ائمہ اعلام اور علماء صحابہؓ اور سر فہرست علی بن ابی طالبؓ تھے۔ عثمانؓ نے اس مشکل مسئلہ کو امت کے چنندہ اور ہدایت یاب قائدین کے سامنے پیش کیا۔ اس سلسلہ میں گفتگو کی، بحث و مباحثہ ہوا، اور مختلف پہلوؤں سے اس پر غور و خوض کیا، لوگوں کے خیالات معلوم کیے اور اپنی رائے پیش کی، لوگوں نے بصراحت آپ کی رائے کو قبول کیا جس سے اہلِ ایمان کے دلوں میں ادنیٰ شک و شبہ بھی باقی نہیں رہا، اور کسی نے بھی اس پر نکیر نہ کی، قرآن کا معاملہ امت کے ایک ادنیٰ فرد پر مخفی نہیں رہتا چہ جائیکہ علمائے آئمہ کبار پر مخفی رہے۔[عثمان بن عفان؍ صادق عرجون صفحہ175]جمع قرآن کے سلسلہ میں عثمانؓ نے کوئی بدعت ایجاد نہ کی، بلکہ آپ سے قبل ابوبکر صدیقؓ یہ کام کر چکے تھے اسی طرح آپ نے یہ کام صرف اپنی ذاتی رائے سے نہیں کیا بلکہ اس سلسلہ میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ کر کے قدم بڑھایا اور آپ کے اس کام کو سب نے پسند کیا اور کہا: آپ کی رائے خوب رہی، مصاحف کے سلسلہ میں آپ نے بہت اچھا کیا۔
[فتنۃ مقتل عثمان بن عفان1؍78]
جب عثمانؓ نے دیگر خود نوشت مصاحف کو نذر آتش کیا تو مصعب بن سعدؓ صحابہ کرامؓ سے ملے اور دیکھا کہ سبھی لوگ آپ کے اس فعل کو پسند کر رہے ہیں۔[التاریخ الصغیر؍ البخاری (1؍94) إسنادہ حسن لغیرہ ۔]
اور علیؓ اس سلسلہ میں عثمانؓ پر نکتہ چینی کرنے سے منع کرتے تھے، اور فرماتے تھے: لوگو! عثمانؓ پر غلو نہ کرو، ان کے سلسلہ میں خیر ہی کہو، اللہ کی قسم انہوں نے قرآن کے سلسلہ میں جو کچھ کیا ہے ہم تمام صحابہؓ کے مشورہ سے کیا ہے۔ اللہ کی قسم اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو انہوں نے کیا ہے۔[فتح الباری (9؍18) إسنادہ صحیح ۔]
صحابہ کرامؓ کے اس با برکت امر پر اتفاق کے بعد خواہشات نفسانی سے پاک ہر شخص پر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ عثمانؓ کے اس عظیم کارنامہ پر جس کے ذریعہ سے قرآن کریم کی انہوں نے حفاظت فرمائی ہر مسلمان کا خوش اور راضی ہونا واجب ہے۔[فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (1؍78) ]
علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں
’’عثمانؓ نے جمع قرآن کا یہ کارنامہ مہاجرین و انصار اور مسلمانوں کو جمع کر کے اور ان سے مشورہ کے بعد انجام دیا، اور ان تمام حضرات نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نبی کریمﷺ سے مشہور قرأت صحیح اور ثابت ہے اس کے مطابق قرآن کو جمع کیا جائے اور اس کے ماسوا قراء توں کو نظر انداز کیا جائے، اور سب ہی نے آپ کی رائے کو صحیح قرار دیا اور آپ کی رائے صحیح و درست اور کامیاب تھی۔‘‘[الجامع لاحکام القرآن 1؍88]ابوبکر صدیقؓ اور عثمانؓ کے جمع قرآن کے درمیان فرق
ابنِ التین نے فرمایا: ابوبکر صدیق اور عثمان رضی اللہ عنہما کے جمع قرآن میں فرق یہ ہے کہ ابوبکرؓ نے قرآن کو اس خوف سے جمع کیا تھا کہ کہیں حاملین قرأت کے وفات پا جانے سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے کیوں کہ قرآن یکجا جمع نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا آپ نے صحائف میں اسے آیات کی اس ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا جیسا کہ نبی کریمﷺ نے انہیں مطلع کیا تھا۔نیز عثمانؓ کا جمع قرآن اس وقت عمل میں آیا جب کہ وجوہ قرأت میں اختلاف رونما ہوا۔ لوگوں نے اپنی اپنی لغات کے موافق قرآن پڑھنا شروع کیا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی قراء ت کو غلط قرار دینے لگے، چنانچہ اس سے معاملات کی سنگینی کا خطرہ لاحق ہوا، لہٰذا عثمانؓ نے ان صحائف کو جو ابوبکرؓ نے تیار کرائے تھے ایک مصحف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کرا دیا، اور صرف قریش کی لغت کو ملحوظ رکھا کیوں کہ انہی کی لغت پر قرآن کا نزول ہوا تھا اگرچہ ابتداء میں آسانی کی خاطر دوسری لغات کے مطابق قرآن کی تلاوت کی اجازت دی گئی تھی، پھر آپ نے دیکھا کہ اب ضرورت ختم ہو چکی ہے لہٰذا ایک ہی لغت پر اکتفا کیا۔
اور ابوبکر باقلانی فرماتے ہیں
’’عثمانؓ کا جمع قرآن سے مقصود وہ نہ تھا جو ابوبکرؓ کا دو جلدوں کے درمیان جمع کرنے کا تھا، بلکہ آپ کا مقصود صرف نبی کریمﷺ سے معروف و ثابت شدہ قرأتوں پر لوگوں کو جمع کرنا اور انہیں ایسے مصحف پر لگانا تھا جس میں کوئی تقدیم و تاخیر نہ ہو، اور نہ اس کے ساتھ کوئی تفسیر ہو، اور نہ ایسی آیات ہوں جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہو تاکہ بعد میں آنے والے لوگ کسی فساد و اشتباہ کا شکار نہ ہوں۔‘‘
اور حارث محاسبی فرماتے ہیں
’’لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جامع قرآن عثمانؓ ہیں لیکن بات ایسی نہیں ہے، بلکہ آپ نے مہاجرین و انصار کے اتفاق و اختیار سے انہیں ایک حرف کے مطابق قرأت پر جمع کیا، کیوں کہ حروف قراء ت سے متعلق اہلِ شام و عراق کے مابین اختلاف رونما ہونے کی وجہ سے آپ کو فتنہ کا خطرہ محسوس ہوا، لیکن اس سے قبل حروف سبعہ کے مطابق جس پر قرآن کا نزول ہوا تھا مصاحف کے اندر مطلق قرأت کی سہولت تھی، البتہ قرآن کو حقیقت میں جمع کرنے والے ابوبکرؓ تھے۔ ‘‘علیؓ فرماتے ہیں:
’’اگر میں مصاحف سے متعلق والی ہوتا تو جو عثمانؓ نے کیا ہے وہی کرتا۔‘‘
[عثمان بن عفان؍ صادق عرجون صفحہ 178]
نیز دیکھیے:
الاتقان للسیوطی 159]
(مترجم)]
علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ عثمانؓ نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کرنے کی زحمت کیوں اٹھائی جب کہ آپ سے قبل ابوبکر صدیقؓ اس سے فارغ ہو چکے تھے؟ تو اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ عثمانؓ کا مقصود مصحف کی تالیف پر لوگوں کو جمع کرنا نہ تھا جیسا کہ تم جانتے ہو کہ عثمانؓ نے ام المومنین حفصہؓ کو کہلا بھیجا تھا کہ آپ قرآنی صحائف ہمیں بھیج دیں ہم مختلف مصاحف میں اسے نقل کر کے آپ کو واپس کر دیں گے۔ عثمانؓ نے یہ قدم اس وقت اٹھایا تھا جب کہ لوگوں کے درمیان قرأت قرآن میں اختلاف رونما ہوا تھا، کیوں کہ صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہو چکے تھے، اور صورتحال سنگین ہو چکی تھی، اختلاف بڑھ چکا تھا اور اہلِ شام و عراق کے درمیان اختلاف نے وہ شکل اختیار کر لی تھی جس کو حذیفہؓ نے بیان کیا ہے۔‘‘[الجامع لاحکام القرآن (1؍87)]اسم الكتاب
سیدنا عثمان بن عفانؓ رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے