امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھبیسویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھبیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھبیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّہَدَآئُ عِنْدَ رَبِّہِمْ﴾ (الحدید:۱۹)
’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ۔‘‘
امام احمدبن حنبل ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صدیق تین ہیں :حبیب بن موسیٰ نجار مومن آل یاسین،جس نے کہا تھا : ’’اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی بات مان لو۔‘‘ حزقیل مومن آل فرعون؛ جس نے کہا تھا: ’’ کیا تم کسی آدمی کو اس وجہ سے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔‘‘ اورتیسرے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور یہ تینوں میں سے افضل ہیں ۔‘‘
ایسی ہی روایت ابن مغازلی شافعی نے اور کتاب ’’ الفردوس ‘‘ کے مصنف نے بھی روایت کی ہے۔یہ ایسی فضیلت ہے جو آپ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:پہلی بات :....ہم شیعہ مصنف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی صحت ثابت کرے۔ اس لیے کہ امام احمد کی تمام مروّیات صحیح نہیں ہیں ۔ کسی روایت کے آپ کی کتاب ’’ الفضائل ‘‘کی طرف منسوب ہونے سے اس کی صحت ثابت نہیں ہوجاتی ؛ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔اہل علم جانتے ہیں کہ ’’الفضائل ‘‘ کی ہر روایت کو صحیح نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ [ اس کتاب میں ] آپ وہی روایات نقل کرتے ہیں جو لوگ روایت کررہے ہوں ؛ بھلے ان کی صحت ثابت نہ ہو۔بلکہ ’’المسند ‘‘ میں بھی جمع کردہ آپ کی ہر روایت کو صحیح نہیں کہا جا سکتا ۔ آپ مسند کی احادیث لوگ دوسرے معروف راویوں سے نقل کرتے ہیں ؛ جب تک کہ ان میں کوئی ایسی قدح کی علامت ظاہر نہ ہو۔ اس لیے کہ بعض احادیث میں ایسی علت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف ہی نہیں بلکہ باطل ہوجاتی ہے ۔لیکن اس کی اکثر احادیث صحیح اور قابل حجت ہیں ۔ اور سنن ابی داؤد کی احادیث سے زیادہ عمدہ ہیں ۔ جب کہ ’’ الفضائل‘‘ میں جمع کردہ احادیث کامعاملہ ایسے نہیں ہے۔
محدث کے ہاں کبھی حدیث میں غلطی ثابت ہوتی ہے ؛ یا راوی کے علم کے بغیر دوسرے دلائل کی وجہ سے اس حدیث میں جھوٹ کے آثار کا پتہ چل جاتاہے۔
اہل کوفہ کے ہاں سچ اور جھوٹ آپس میں مل گیا تھا۔ متاخرین پر بسا اوقات ان میں سے کسی ایک کی غلطی یا اس کا جھوٹ مخفی رہ جاتا ہے۔لیکن کسی دوسری دلیل سے اس کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ روایت امام احمد نے اپنی ’’المسند‘‘ میں ذکر کی ہے نہ ’’ الفضائل‘‘ میں ۔بلکہ القطیعی نے محمد بن یونس القرشی سے روایت کرتے ہوئے اس کا اضافہ کیا ہے ؛ وہ عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اور پھر مذکورہ حدیث بیان کی ۔
القطیعی نے اسے ایک دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : ہماری طرف عبد اللہ بن غنام کوفی نے لکھا کہ ہم نے حسن بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نابینا سے سنا ؛ اس نے کہا ہے : اس نے عمرو بن جمیع سے سنا؛ وہ کہتا ہے: ہم سے محمد بن ابی لیلی نے عیسیٰ سے نقل کیا ہے؛ اور پھر حدیث بیان کی۔
عمرو بن جمیع ناقابل اعتماد انسان ہے ؛ اس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ محدث ابن عدی رحمہ اللہ عمرو بن جمیع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ وضاع ہے[اپنی طرف سے روایات گھڑتا رہتا ہے ]۔
یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انتہائی خبیث اور جھوٹا ہے۔
امام نسائی اور دار قطنی رحمہم اللہ فرماتے ہیں : متروک الحدیث ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جھوٹی روایات کو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایت کرتا ہے۔ اور منکر احادیث کو مشہور لوگوں کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ اس کی روایت کو لکھنا حلال نہیں ہے ؛ صرف عبرت کے لیے لکھاجائے تو ٹھیک ہے۔
دوسری بات :....یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہے۔
تیسری بات:....علاوہ ازیں صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کچھ اور لوگ بھی صدیق کے لقب سے ملقب تھے‘ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کہا جاتا تھا؛ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صدیق صرف تین ہیں ؟
بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہ احد پر چڑھے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ پہاڑ کا نپا تو آپ نے فرمایا :
’’احد (کے پہاڑ) ٹھہر! تجھ پر تو صرف ایک نبی ہے ایک صدیق اور دو شہید۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’ لوکنت متخذا خلیلاً‘‘ (ح: ۳۶۷۵)، صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل طلحۃ والزبیر رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۴۱۷)۔]
اسے امام احمد نے یحی بن سعید ؛ انہوں نے قتادہ سے ؛ اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ احد کے پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ [مسند ۳؍۱۱۲]
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم پر سچ بولنا واجب ہے۔ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اور انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچا لکھ دیا جاتا ہے۔اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ؛بیشک جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’ لوکنت متخذا خلیلاً‘‘ (ح: ۳۶۷۵)، صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل طلحۃ والزبیر رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۴۱۷)۔]
چوتھی بات: ....اللہتعالیٰ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بھی صدیقہ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صدیق صرف تین ہی ہیں ؟
پانچویں بات: ....قائل کا یہ کہنا کہ : ’’صدیق صرف تین ہیں ‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی صدیق نہیں تو پھر یہ سراسر جھوٹ اور کتاب و سنت اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ اور اس اگر سے مراد یہ ہو کہ اپنی صدیقیت میں یہ تین لوگ کامل تھے ؛ تب بھی یہ خطاء ہے۔اس لیے کہ ہماری امت سب امتوں میں سے بہترین امت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے پیدا کیا ہے؛ توپھر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہماالسلام کی تصدیق کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والوں سے افضل کیوں کر ہوسکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے مؤمن کو صدیق نہیں کہا؛ اور نہ ہی آل یاسین کے فرد کوصدیق کہا ہے ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کی تھی۔لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے ان سے زیادہ افضل ہیں ۔
قرآن کریم میں بعض انبیاء کو بھی صدیق کہا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں فرمایا:
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾ (مریم:۴۱)
’’ اس کتاب میں ابراہیم( علیہ السلام )کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔‘‘
[اور حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:]
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ﴾ (مریم:۵۶)
’’ اور اس کتاب میں ادریس( علیہ السلام )کا بھی ذکر کر، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھے۔‘‘
[اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:]
﴿یُوْسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ ﴾ [یوسف ۴۶] ’’یوسف!اے دوست۔‘‘
چھٹی بات : عام لوگوں کے حق میں فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ﴾
(الحدید:۱۹)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق ہیں ۔‘‘
یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہتعالیٰ اور رسولوں پر ایمان رکھتا ہے وہ صدیق ہے ۔
ساتویں بات:....اگر صدیق ہی امامت کا مستحق ہوسکتا ہے؛ توپھرصدیقیت کے اعتبار سے اس مقام کے سب سے زیادہ حق دار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔اس لیے کہ بہت سارے دلائل کی روشنی میں خواص و عوام میں تواتر کے ساتھ یہ نام آپ کے لیے ثابت ہے۔ یہاں تک اسلام کے دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔پس اس لیے امامت و خلافت کے سب سے زیادہ مستحق آپ ہی ہوئے ۔اور اگر صدیق ہونے سے امامت وخلافت لازم نہیں آتی توپھر رافضی کی دلیل باطل ٹھہری۔ [صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب قبح الکذب و حسن الصدق، (ح: ۱۰۵؍ ۲۶۰۷)، واللفظ لہ۔ صحیح بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ....﴾ (ح:۶۰۹۴)۔]