شہادت خلیفہ سوم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (قسط ہشتم)
نقیہ کاظمیشہادت خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ: قسط ہشتم
السوال: سیدنا عثمانؓ کے مخالفین روافض وغیرہم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آنموصوفؓ کے جنازہ اور دفن وغیرہ کے متعلق ایسی روایات ذکر کی ہیں جن پر نظر کرنے سے ایک عام آدمی سخت پریشان ہوتا ہے۔
ان روایات میں ان لوگوں نے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عثمانؓ کو انکی شہادت کے بعد بغیر حفاظت چھوڑ دیا گیا۔ ان کو کسی نے غسل اور کفن نہیں دیا اور انہیں تین دن تک دفن نہیں کیا، ایسے ہی ویرانے میں پڑے رہے۔ بعد میں بعض لوگوں نے انہیں خون آلود کپڑوں سمیت حش کوکب میں زیر زمین کر دیا۔
الجواب: جواب میں پہلے یہ چیز ذکر کر دینا بہت ضروری ہے کہ دور اوّل کی تاریخ مرتب کرنے میں بعض مؤرخین نے بڑا غلط کردار ادا کیا ہے اور اہلِ اسلام کے اکابر حضرات کے اہم واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے اور ان کو ایسی صورت میں ذکر کیا ہے کہ ان سے کئی قسم کے مطاعن اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
مثلاً
1: محمد بن جریر الطبری (صاحب تاریخ طبری)
2: ابنِ قتیبہ (صاحب کتاب الامامۃ والسیاسۃ)
3: احمد بن اعثم کوفی (صاحب تاریخ اعثم کوفی)
4: میر خواند صاحب کتاب روضۃ الصفاء وغیرہ وغیرہ مؤرخین نے اپنی تالیفات میں بغیر تحقیق کے ہر قسم کا مواد بھر دیا۔
ان میں سے تاریخ طبری تو رطب و یابس اور صحیح اور سقیم ہر قسم کی روایات کا کشکول ہے جبکہ باقی مذکورہ مؤرخین خالص شیعہ ہیں اور انہوں نے اپنے مسلک رفض و تشیع کی تائید میں ایک جانبدارانہ کردار ادا کیا ہے۔
ان لوگوں نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس مقام اور مرتبہ کا کچھ لحاظ نہیں کیا جو انہیں کتاب و سنت کے ذریعے حاصل ہے اور تاریخ کی روایات میں ایسا مواد بھی موجود ہے جو ان اعترضات اور مطاعن کے جواب میں کافی ہے لیکن طاعنین اس کو نظر انداز کرکے صرف قابل اعتراض روایات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اس موقع کے کوائف کو یہ لوگ اپنے نظریات کے مطابق مرتب کرتے ہیں۔ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی ایک قابلِ افسوس سعی (کوشش) ہے۔
چنانچہ حضرت عثمانؓ کے سوانح مرتب کرنے والوں نے ذکر کیا ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو اس کے بعد آپؓ کے گھر والوں میں سے چند لوگ اور مزید چند افراد مثلاً سیدنا زبیر بن العوامؓ، سیدنا حسن بن علیؓ۔ ابو جہم بن حذیفہؓ، مروان بن الحکم وغیرہم حضرت عثمانؓ کی میت کو اسی روز مغرب اور عشاء کے درمیان گھر سے جنازے کے لیے باہر لائے اور مقام حش کوکب (جو مقام بقیع کے قریب ایک باغ تھا) کے پاس لائے اور بقول بعض حضرات جبیر بن مطعم یا حکیم بن حزام یا مروان بن الحکم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (اور آپؓ وہیں دفن کر دیے گئے)
(کتاب التمہید والبیان فی مقتل الشہید عثمان رضی اللّٰہ عنہ صفحہ 142، طبع بیروت خلیفہ بن خیاط نے بھی جنازہ عثمانیؓ کا ذکر کیا ہے (تاریخ خلیفہ بن خیاط صفحہ 156/155 جلد اوّل، طبع اول، عراق)
اور امام محمدؒ نے اس مسئلہ کو اپنے مسند میں اس طرح ذکر کیا ہے۔
ثنا عبد الرزاق ثنا معمر عن قتادہ وال صلی الزبیر علی عثمان رضی اللّٰہ عنہ و دفنہ اکان اوصی الیہ۔
(مسند امام احمد بھامشہ منتخب کنزالعمال صفحہ 54، جلد اول، تحت من اخبار عثمان رضی اللہ عنہ)
یعنی قتادہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر سیدنا زبیر بن العوامؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور ان کو دفن کیا۔ کیونکہ سیدنا عثمانؓ نے آنموصوفؓ کو اس کی وصیت فرمائی تھی۔ یہ روایت محدثین نے بہتر سند کے ساتھ اپنی حدیث کی کتابوں میں ذکر کی ہے۔ نیز حافظ ابن کثیرؒ نے اس مقام پر درج ذیل روایت ذکر کی ہے کہ
قیل بل دفن من لیلتہ ثم کان دفنہ ما بین المغرب و العشاء خفیہ من الخوارج وقیل بل استوذن فی ذالک بعض روسائھم۔ فخرجوا بہ فی نفر قلیل من الصحابۃ فیھم حکیم بن حزام و حویطب بن عبد العزی و ابو جھم بن حزیفہ و نیار بن مکرم الاسلمی و جبیر بن مطعم وزید بن ثابت و کعب بن مالک و طلحہ و الزبیر و علی بن ابی طالب و جماعۃ من اصحابہ و نسائہ منھن امراتان نائلہ (بنت فرافصتہ) و ام البنین بنت عبداللہ حصین و صبیان و جماعۃ من خدمہ حملوہ علی باب بعد ما غسلوہ و کفنوہ وزعم بعضھم انہ لم یغسل ولم یکفن و الصحیح الاول۔
یعنی اسی رات (جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب) باغیوں سے بچاؤ کرکے مغرب اور عشاء کے درمیان (حضرت عثمانؓ) کو دفن کیا گیا۔ بعض نے کہا کہ باغیوں کے بعض رؤساء سے اجازت طلب کرکے سیدنا عثمانؓ کی میت کو لوگ باہر لائے۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت حکیم بن حزامؓ، حضرت حویطب بن عبد العزیؓ، حضرت ابو جہم بن حذیفہؓ، حضرت نیار بن مکرم الاسلمیؓ، حضرت جبیر بن مطعمؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ اس موقع پر شامل اور حاضر تھے اور ان کے ساتھیوں کی ایک جماعت اور انکی عورتوں میں سے سیدہ نائلہؓ اور سیدہ ام البنینؓ اور فرزند بھی شامل تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خدام کی ایک جماعت آنموصوفؓ کو غسل و کفن کے بعد اٹھا کر دروازہ پر لائی اور بعض کا خیال ہے کہ ان کو غسل اور کفن نہیں دیا گیا لیکن (یہ بات صحیح نہیں) بلکہ اوّل بات صحیح ہے (کہ آنموصوفؓ کو غسل دیا گیا اور کفن بھی پہنایا گیا)
(البدایہ والنہایہ: لابن کثیر صفحہ، 991، جلد 7 نیز تاریخ المدینۃ المنورۃ لابن شیبہ صفحہ 1242/1241 جلد رابع میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح ہے)
اور تاریخ طبری رطب و یابس اور صحیح اور سقیم روایات کا مجموعہ ہے اس میں بھی درج ذیل روایت مذکور ہے کہ
خرج مروان حتیٰ اتی دار سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فاتاہ زید بن ثابت و طلحہ بن عبیداللہ و علی والحسن و کعب بن مالک و عامہ من ثم من اصحابہ فتوافی الی موضع الجنائز صبیان و نساء فاخرجوا عثمان رضی اللّٰہ عنہ فصلی علیہ مروان ثم خرجوا بہ حتی انتھوا الی البقیع فدفنوہ فیہ مما یلی حش کوکب۔
(تاریخ طبری: صفحہ، 144 جلد، 5 تحت ذکر الخبر عنہ الموضع الذی دفن فیہ عثمان رضی اللہ عنہ) الفتنہ ووقع الجمل تالیف سید بن عمرو الضبی الاسدی ص 84، تحت دفن عثمانؓ، طبع بیروت)
حاصل یہ ہے کہ سیدنا مروان، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا طلحہ، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا حسن بن علی، سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہم، اور بھی جو لوگ حضرت عثمانؓ کے ساتھیوں میں سے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے اور کچھ لڑکے اور عورتیں بھی (جنازہ کے لیے) آ ملے۔ حضرت عثمانؓ کو گھر کے باہر لائے۔ مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد یہ تمام احباب جنازہ کو اس مقام میں لائے جو بقیع کے قریب تھا اور وہاں دفن کردیا(یعنی اس مقام کو حش کوکب کے نام سے ذکر کرتے ہیں)
تاریخ شہادت:
حضرت عثمانِ غنیؓ کی شہادت کی تاریخ 18 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ 655 عیسوی ہے۔
رفع اشتباہ:
یہاں یہ بات بظاہر اشتباہ ہے کہ تاریخ طبری کی اس مقام کی عام روایات جن سے معترضین اعتراض پیدا کرتے ہیں ان کو نظر انداز کرکے مذکور بالا روایات کو لیا گیا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلسلہ میں اس قاعدہ کی روایت مقصود ہے جو علماء نے لکھا ہے کہ
واذا اختلف کلام امام فیوخذ ما یوافق الادلہ الظاھرہ و یعرض عما خالفھا:
یعنی جب ایک مسئلہ میں کسی امام کے کلام میں اختلاف پایا جائے تو جو ظاہر دلائل کے موافق کلام ہو، اس کو اخذ کیا جائے اور جو اسکے خلاف کلام ہو اس سے اعراض کیا جائے۔
اس قاعدہ کی روشنی میں طبری کی جو روایات قواعدِ شرعی سے مطابقت رکھتی ہیں اور دیکر اکابر علماء اور مؤرخین کے بیانات کے موافق ہیں، ان پر اعتماد کیا جائے گا اور جن روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اعتراض پیدا ہو ان کو ترک کر دیا جائے گا۔
1: الزواجر لابن حجر المکی صفحہ 28، تحت الکبیرۃ الاولی الشرک بحث ایمان و کفر فرعون، طبع مصر۔
2: رد المحتار للشامی صفحہ 317، جلد ثالث، تحت توبہ الباس مقبولہ الخ باب المرتد)
حاصل بحث یہ ہے کہ
اگرچہ اس مسئلہ میں مؤرخین نے کئی قسم کی بے سروپا روایات نقل کی ہیں، تاہم بعض احادیث کی روایات اور اہلِ تاریخ کے عمدہ بیانات مسئلہ ہذا کی وضاحت کے لیے موجود ہیں (جیسا کہ سابقہ سطور میں ان کو مختصراً نقل کیا ہے)
ان میں مذکور ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اسی روز دفن کیا گیا یعنی جمعہ کے روز عصر کے وقت باغیوں نے آنجنابؓ کو ظلماً شہید کیا تھا اور آپؓ پر ظلم و ستم کے زور کی وجہ سے دفن کرنے میں بھی مانع ہوئے تھے لیکن حالات کی برہمی اور شدید رکاوٹوں کے باوجود بعض اکابر حضرات (مذکورہ بالا) نے اسی روز رات کو (شبِ ہفتہ) کو دفن کا انتظام کیا۔ غسل و کفن دفن حسبِ دستور کیا گیا اور صلوٰۃ جنازہ بھی ادا کی گئی اور نمازِ جنازہ میں شامل ہونے والے حضرات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ وغیرہم کا ذکر روایات میں موجود ہے اور حوالہ جات مندرجہ بالا اس بات پر شاہد ہیں۔ اعتراض پیدا کرنے والے لوگوں نے خیانت سے کام لیا ہے کہ اپنے مطلب کے موافق روایات کو لے لیا اور جن روایات سے دفاع ہو سکتا تھا اور مطاعن کے جواب پر مشتمل تھیں، ان کو ترک کر دیا۔