نام، نسب، کنیت، القاب، اوصاف
علی محمد الصلابینام، نسب، کنیت، القاب، اوصاف
نام، نسب، کنیت، القاب:
آپ کا نام عبداللہ ہے، آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے:
عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب (سیرۃ و حیاۃ الصدیق: مجدی فتحی السید: صفحہ، 27) بن لوی بن غالب القرشی التیمی۔ (الاصابۃ لابن حجر: جلد، 4 صفحہ، 144 اور 145)
آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں مرہ بن کعب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔ لفظ بَکْر بِکْر سے ہے، جس کے معنی نوجوان اونٹ کے ہوتے ہیں۔ (اسی طرح اس کا معنی والدین کا پہلا بچہ، جوان گائے، کنواری، ہر چیز کا اوّل، انگور کا پیلا دانہ وغیرہ بھی ہوتا ہے۔ دیکھیے: ترتیب القاموس المحیط: جلد، 1 صفحہ، 306(مترجم)) عرب بچوں کا نام بکر رکھتے تھے، ایک عظیم قبیلے کے جد امجد کا نام بکر تھا۔ (ابوبکر الصدیق: علی الطنطاوی: صفحہ، 46)
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعدد القاب ہیں۔ یہ تمام القاب بلند مرتبت، علو منزلت اور خاندانی شرف پر دلالت کرتے ہیں۔
عتیق (آزاد):
عتیق کا لقب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا تھا، آپ نے فرمایا:
انت عتیق اللہ من النار (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: جلد ل، 15 صفحہ، 280 إسنادہ صحیح)
’’تم جہنم سے اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) ہو۔‘‘
اس کے بعد آپ کا نام عتیق پڑ گیا۔
اور ایک روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
ابشر فانت عتیق اللہ من النار (رواہ الترمذی فی المناقب: 3679، و صححہ الالبانی رحمہ اللہ فی السلسلۃ: 1574)
’’(ابوبکر) تم خوش ہو جاؤ جہنم سے تم اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) ہو۔‘‘
اسی روز سے آپ کا نام عتیق پڑ گیا۔
(اصحاب الرسول ، محمود المصری: جلد،1 صفحہ، 59)
مؤرخین نے اس لقب کے سلسلہ میں دیگر بہت سے اسباب ذکر کیے ہیں۔ بعض نے کہا: آپ کے حسن وجمال کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا گیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: جلد، 1 صفحہ، 52) بعض نے کہا: آپ کو شرف ومنزلت اور خیر وبھلائی میں آگے ہونے کی وجہ سے عتیق کہا گیا۔ (الاصابۃ: جلد، صفحہ، 146) اور بعض نے کہا: چہرہ کے موزوں اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے عتیق کہا گیا۔ (المعجم الکبیر: جلد، 1 صفحہ، 53 الاصابۃ: جلد، 1 صفحہ، 146) اور بعض نے کہا کہ آپ کی والدہ کے یہاں کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، لہٰذا جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کو کعبہ کے سامنے کر کے دعا کی: الہٰی یہ بچہ موت سے تیرا عتیق ہے، اسے مجھے عطا فرما، محروم نہ کرنا۔ (الکنی والاسماء للدُّولابی: جلد، 1 صفحہ،6 بحوالہ خطب ابی بکر، محمد احمد عاشور، جمال الکومی: صفحہ،11)
ان اقوال میں سے بعض کے اندر توفیق و تطبیق ہو سکتی ہے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حسن وجمال کے پیکر، اعلیٰ حسب ونسب کے مالک، صاحب جو د و کرم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے پیش نظر آپ جہنم سے اللہ کے عتیق (آزاد کردہ) تھے۔ (تاریخ الدعوۃ الی الاسلام فی عہد الخلفاء الراشدین، دکتور یسری محمد ھانی: صفحہ، 36)
صدیق (سچائی کا پیکر):
یہ لقب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اثبت احد فانما علیک نبی و صدیق و شہید ان (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر: جلد، 5 صفحہ،11)
’’اے احد! ٹھہر جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں کثرت تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب ملا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء و معراج کا واقعہ پیش آیا اور صبح کے وقت آپ نے اس کو لوگوں سے بیان کیا تو کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے مرتد ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا: آپ کو اپنے ساتھی کی خبر ہے؟ ان کا تو یہ زعم ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اگر واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آگئے؟ فرمایا: ہاں ہم تو اس سے بڑی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صبح وشام آپ پر آسمان کی خبروں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو صدیق سے ملقب کیا گیا۔ (اخرجہ الحاکم: جلد، 3 صفحہ، 62 اور 63 وصححہ و أقرہ الذہبی)
آپ کا ’’صدیق‘‘ نام ہونے پر امت کا اجماع ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں آپ نے سبقت کی اور صدق و سچائی کو آپ نے لازم پکڑا، کبھی اس سلسلہ میں کوتاہی ولغزش کا شکار نہ ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ: جلد، 2 صفحہ، 17) آپ اس صفت سے ہمیشہ متصف رہے۔ شعراء اس سلسلہ میں آپ کی مدح خوانی میں رطب اللسان ہیں۔
ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا:
وَسُمِّیْتَ صدِّیقا وکلُّ مہاجِرٍ
سواک یُسمّٰی باسمہ غیر منکرِ
’’آپ کو ’’صدیق‘‘ سے ملقب کیا گیا اور آپ کے علاوہ دیگر مہاجرین کو بلا کسی نکیر کے ان کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘
سبقت الی الاسلام واللہ شاہدٌ
وکنت جلیسا فی العریش المُشَہَّرِ (أسد الغابۃ: جلد، 3 صفحہ، 310)
’’آپ نے اسلام کی طرف سبقت کی اور اللہ اس پر شاہد ہے اور بدر کے دن مشہور سائبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین تھے۔‘‘
اور مشہور شاعر اصمعی (عبدالملک بن قریب باہلی)نے کہا:
ولکنی أحبُّ بکل قلبی
واعلم ان ذاک من الصَّواب
رسولَ اللہ والصدیق حُبًّا
بہ أرجو غدا حُسن الثواب
(ابوبکر الصدیق: للطنطاوی، صفحہ، 49)
’’لیکن میں یہ جانتے ہوئے کہ یہی حق ہے، پورے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن اس کے ذریعہ سے اچھے ثواب کی امید ہے۔‘‘
صاحب (ساتھی):
قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے یہ لقب آپ کو عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْی واللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃ التوبۃ: آیت، 40)
ترجمہ: ’’اگر تم ان نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ’’ساتھی‘‘ سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔ اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز اللہ کا کلمہ ہی ہے۔ اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ یہاں اس آیت کریمہ میں صاحب (ساتھی) سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء: یسری محمد ھانی، صفحہ، 39)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار میں پناہ گزیں تھے تو میں نے آپ سے عرض کیا: اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھ لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا ابابکر ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما (البخاری، فضائل الصحابۃ: 3653)
’’اے ابوبکر ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مناقب میں سے اللہ کا تعالیٰ یہ ارشاد ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا..... إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا (سورۃ التوبۃ: آیت، 40)
کیونکہ اس آیت کریمہ میں بلا اختلاف ’’صاحب‘‘ (ساتھی) سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ہونے سے متعلق بکثرت مشہور احادیث وارد ہیں۔ اس منقبت میں آپ کا کوئی شریک نہیں۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : جلد، 4 صفحہ، 148)
اتقی (بڑا متقی):
آپ کو یہ لقب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عطا فرمایا ہے:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَ (سورۃ اللیل: آیت، 17)
ترجمہ: ’’اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہو گا۔‘‘
اس کی تفصیل ان شاءاللہ، اللہ کی راہ میں ستائے ہوئے لوگوں کے ذکر میں آئے گی، جنہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آزاد کرایا تھا۔
أوَّاہ (نرم دل):
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو’’اَوَّاہ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا، جو اللہ تعالیٰ کے خوف وخشیت پر دلالت کرتا ہے۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رافت ورحمت کی وجہ سے ان کا نام ’’اوّاہ‘‘ پڑ گیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ: جلد، 3 صفحہ، 171)
ولادت اور پیدائشی اوصاف:
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل کے بعد ہوئی البتہ اس میں اختلاف ہے کہ عام الفیل سے کتنے دنوں بعد ہوئی، بعض لوگوں نے کہا: آپ کی ولادت عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد ہوئی اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دو سال چند ماہ بعد ہوئی، انہوں نے مہینوں کی تعیین نہیں کی ہے۔ (سیرۃ وحیاۃ الصدیق، مجدی فتحی السید: 129، تاریخ الخلفاء: 56) والدین کی گود میں آپ کی بہترین نشوونما ہوئی، آپ کے والدین اپنی قوم میں عزو شرف کے مالک تھے، اس لیے آپ کو عز و شرف وراثت میں ملی تھی۔
(تاریخ الدعوۃ الاسلام فی عہد الخلفاء الراشدین: 30)
آپ کا رنگ گورا، بدن دبلا پتلا تھا۔ اس سلسلہ میں قیس بن ابی حازم کا بیان ہے: ’’میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حاضری دی، آپ دبلے تھے، بدن پر گوشت کم تھا اور رنگ گورا چٹا تھا۔‘
(الطَّبقات لابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 188 إسنادہ صحیح)
سیرت نگاروں نے راویوں کی زبانی آپ کا حلیہ مبارک کچھ اس طرح بیان کیا ہے: آپ زردی مائل سفید تھے، قد و قامت اچھا معتدل تھا، دبلے پتلے ہلکے رخسار، پیٹھ خم دار، ازار کمر سے سرک جایا کرتی تھی، چہرہ پر گوشت کم تھا، آنکھیں دھنسی ہوئیں، ناک اونچی، پنڈلیاں پتلی، رانیں مضبوط، پیشانی ابھری ہوئی، انگلیوں کے جوڑ نمایاں تھے، آپ داڑھی اور سفید بالوں میں مہندی وکتم (ایک قسم کی گھاس) کا خضاب لگاتے تھے۔
(البخاری: 5895، مسلم: 2341، ابوبکر الصدیق: مجدی السید: 32)