Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اعمال کی قبولیت کی بحث:

  امام ابنِ تیمیہؒ

[اعمال کی قبولیت کی بحث:]مرجئہ اپنے یہ دلائل پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ:﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (المائدۃ: ۲۷)’’اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘میں متقی سے مراد وہ شخص ہے جو شرک سے بچتا ہو، ان کے نزدیک اعمال صرف کفر سے ہی ضائع ہوتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ﴾ (الزمر: ۶۵)’’بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ﴾ (المائدۃ: ۵)’’اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقیناً اس کا عمل ضائع ہوگیا۔‘‘ان کی دلیل رب تعالیٰ کا ایک یہ ارشاد بھی ہے:﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُo جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا﴾(فاطر: ۳۲۔۳۳)  ’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی ن

یکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے۔‘‘

ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ یہ تینوں قسم کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ بعض غالی مرجئہ کا قول ہے کہ اہل توحید میں سے کؤی بھی جہنم میں داخل نہ ہو گا۔ لیکن میں کسی معین شخص کو نہیں جانتا جو اس قول کا قائل رہا ہو۔ بعض نے یہ قول مقاتل بن سلیمان سے حکایت کیا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ پھر یہ لوگ ان کے علاوہ دلیل میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں :﴿فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰیo لَا یَصْلَاہَا اِِلَّا الْاَشْقٰیo الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰیo﴾ (اللیل:)’’پس میں نے تمھیں ایک ایسی آگ سے ڈرا دیا ہے جو شعلے مارتی ہے۔ جس میں اس بڑے بدبخت کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ جس نے جھٹلایا اور منہ موڑا۔‘‘بعض جاہلوں نے اس آیت کو بھی دلیل بنایا ہے:﴿ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ﴾ (الزمر: ۱۶)’’یہ ہے وہ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ وعید ایک شے ہے جس سے رب تعالیٰ تمھیں ڈراتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ رہا یہ ارشاد باری تعالیٰ:﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا اَنزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْo﴾ (محمد: ۹)’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ۔‘‘تو یہ آیت کفار کے حق میں ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَتَعْسًا لَہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْo ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا اَنزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْo﴾ (محمد: ۸۔۹)’’اور جن لوگوں نے کفر کیا سو ان کی ہلاکت ہے اور اس نے ان کے اعمال برباد کر دیے ۔ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطَانُ سَوَّلَ لَہُمْ وَاَمْلَی لَہُمْo ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِسْرَارَہُمْo فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْo ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْo﴾ (محمد: ۲۵۔۲۸)’’بے شک جو لوگ اپنی پیٹھوں پر پھر گئے، اس کے بعد کہ ان کے لیے سیدھا راستہ واضح ہو چکا، شیطان نے ان کے لیے (ان کا عمل) مزین کر دیا اور ان کے لیے مہلت لمبی بتائی۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے ان لوگوں سے کہا جنھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی، عنقریب ہم بعض کا موں میں تمھارا کہا مانیں گے اور اللہ ان کے چھپانے کو جانتا ہے۔ تو کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے، ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوں گے ۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جو لوگ اپنے اسلام سے الٹے قدموں پھر گئے حالانکہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی، تو انھیں شیطان نے ان کے عمل خوشنما بنائے اور انھیں جھوٹی امنگیں دلائیں ۔ یعنی شیطان نے انھیں یہ آرزو دلائی کہ ان کی عمر لمبی ہو گی اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے ان کا ساتھ دینے کا ان سے وعدہ کیا تھا جو رب تعالیٰ کی نازل ہونے والی آیات کو ناپسند کرتے تھے۔ اسی لیے بعض اسلاف نے ’’کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ‘‘ کی تفسیر میں اس آیت کا سبب نزول منافقین اور یہود کو قرار دیا ہے۔ وعیدیہ کا قول ہے کہ رب تعالیٰ نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ لوگ اترنے والی آیات کو ناپسند کرتے ہیں اور کراہت کرنا یہ دل کا فعل ہے۔ جہمیہ کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق اور اس کے عمل کا نام ہے۔ یہ جہم، صالحی کا اور اشعری کا مشہور قول ہے اور یہی اکثر اشاعرہ کا بھی قول ہے۔ مرجئہ کے فقہاء کے نزدیک ایمان یہ دل کی تصدیق کے ساتھ زبان کے قول کو کہتے ہیں ۔ جبکہ ان دونوں اقوال کے مطابق ان حضرات کے نزدیک دل کے اعمال ایمان میں سے نہیں جیسا کہ اعضاء و جوارح کے اعمال بھی ایمان میں سے نہیں ۔لہٰذا ان حضرات کے نزدیک ایک آدمی دل و زبان سے ایمان کی تصدیق کرنے کے باوجود ’’مَا نَزَّلَ اللّٰہُ‘‘ سے کراہت کر سکتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا آدمی کافر نہ ہو گا۔ حالانکہ یہ آیت اسے بھی شامل ہے۔ لہٰذا جب یہ آیت اس کے کفر پر دلالت کر رہی ہے تو یہ آیت ان لوگوں کے قول کے فساد کو بھی بتلا رہی ہے۔