ضعیف حدیث کن شرائط کے ساتھ فضائل میں قبول ہوتی ہے؟ (عند المحدثین)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینضعیف حدیث کن شرائط کے ساتھ فضائل میں قبول ہوتی ہے عند المحدثین وہ شرائط درج ذیل ہیں!
1: أَنْ يَكُونَ الضَّعْفُ غَيْرَ شَدِيدٍ، فَيَخْرُجُ مَنِ انْفَرَدَ مِنَ الْكَذَّابِينَ وَالْمُتَّهَمِينَ بِالْكَذِبِ، وَمَنْ فَحُشَ غَلَطُهُ، نَقَلَ الْعَلَائِيُّ الِاتِّفَاقَ عَلَيْهِ۔
ترجمہ: اس حدیث کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب (متروک) اور فحش غلطیاں کرنے والے (منکر الحدیث) راوی نہ ہوں امام صلاح الدین علائی رحمہ اللہ نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے۔
2: أَنْ يَنْدَرِجَ تَحْتَ أَصْلٍ مَعْمُولٍ بِهِ۔
ترجمہ: اس حدیث کی اصل شریعت میں موجود ہو۔
3: أَنْ لَا يُعْتَقَدَ عِنْدَ الْعَمَلِ بِهِ ثُبُوتُهُ، بَلْ يُعْتَقَدُ الِاحْتِيَاطُ۔
ترجمہ: اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔
یہ تینوں شرائط امام جلال الدین سیوطیؒ نے شیخ الاسلام امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ سے نقل کرکے لکھیں ہیں یہی مذہب ہے علامہ علاؤ الدین حصکفی٬ ابن عابدین شامی٬ ابن دقیق العید٬ امام جلال الدین سیوطی٬ امام ابن ھمام٬ علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہم اللہ وغیرہ کا۔
(كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: ص، 351)
(كتاب الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر: جلد، 2 صفحہ، 954)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے شرائط مقررہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف حدیث پر عمل کرنے والے کے لیے ایک نہایت اہم اور قابلِ لحاظ بات یہ بھی بیان کی
وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة۔
ترجمہ: ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا شخص اس ضعیف حدیث کی تشہیر نہ کرتا پھرے تا کہ کوئی دوسرا انسان ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے یا اس چیز کو شریعت سمجھ نہ بیٹھے جو فی الواقع شریعت نہیں ہے یا اس طرح اس کو عمل کرتا دیکھ کر بعض جاہل لوگ یہ نہ گمان کر لیں کہ وہ صحیح سنت ہے۔
(تبيين العجب بما ورد في فضل رجب: صفحہ، 23)
نوٹ: ضعیف حدیث کو فضائل کے باب میں قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ائمہ کرام کے 4 مختلف بڑے مذاہب ہیں ہمیں ان چاروں میں سے جو أصح معلوم ہوا ہم نے اس کو اختیار کیا کسی کو بھی دلائل کے ساتھ ہمارے مؤقف سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
ضعیف حدیث کو بیان کرنے کی شرط
امام ابو عمرو تقی الدین ابن صلاح: متوفی 643 ہجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا أردْتَ رِوَايةَ الحديثِ الضعيفِ بغَيْرِ إسْنادٍ فَلاَ تَقُلْ فيهِ قَالَ رسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم كَذا وكَذا، وما أشْبَهَ هَذا مِنَ الألفَاظِ الجازِمةِ بأنَّهُ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ ذَلِكَ ، وإنَّمَا تَقُولُ فيهِ رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَذَا وكَذَا، أوْ بَلَغَنا عَنْهُ كَذا وكَذا، أوْ وَرَدَ عَنهُ، أوْ جَاءَ عَنهُ، أوْ رَوَى بَعْضُهُمْ، ومَا أشْبَهَ ذَلِكَ وهَكَذا الْحُكْمُ فيما تَشُكُّ في صِحَّتِهِ وضَعْفِهِ، وإنَّمَا تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فيما ظَهَرَ لَكَ صِحَّتُهُ بطريقِهِ الذي أوْضَحْنَاهُ أوَّلاً، واللهُ أعلمُ۔
ترجمہ: جب تم کوئی ضعیف حدیث بغیر سند کے بیان کرنا چاہو تو اس میں یوں مت کہو۔
قال رسول اللہﷺ كذا وكذاکہ رسول اللہﷺ نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کے مشابہ ایسی تعبیر جس میں اس بات کا جزم ہو کہ رسول اللہﷺ نے اس کو فرمایا ہے اور تم تو اس میں صرف یہ کہو گے کہ
روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا وكذا
ترجمہ: کہ رسول اللہﷺ سے یوں یوں منقول ہے یا
بلغنا عنه كذا وكذا
ترجمہ: کہ رسول اللہﷺ سے ہمیں اس اس طرح کی بات پہنچی ہے یا ورد عنه يا جاء عنه
ترجمہ: کہ آپﷺ سے یہ بات وارد ہے یا روی بعضھم
ترجمہ: کہ بعض لوگوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات روایت کی ہے اور اس کے مشابہ الفاظ اور یہی حکم ہے ان احادیث کے متعلق کہ جن کی صحت و ضعف میں آپ کو شک ہو اور قال رسول اللہﷺ (جیسی جزم کی تعبیر) تو صرف اس صورت میں آپ کہیں گے جب کہ حدیث کی صحت آپ پر اس طریقے سے واضح ہو جائے جس کو ہم نے پہلے بیان کیا ہے،
واللہ اعلم۔
(كتاب مقدمة ابن الصلاح معرفة أنواع علم الحديث ت الفحل والهميم: صفحہ، 211)
(كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: صفحہ، 350)
اس اصول کو امام نوویؒ٬ امام جلال الدین سیوطیؒ٬ امام سراج الدین بلقینیؒ٬ امام زین الدین عراقیؒ٬ امام ابن کثیرؒ٬ امام ابن ملقنؒ٬ امام بدر الدین زرکشیؒ جیسے جلیل القدر محدثین کرام نے بھی بیان کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ضعیف حدیث پر عمل کرتے وقت اوپر بیان کردہ شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ضعیف حدیث کو بیان کرتے وقت بھی اوپر بیان کردہ شرط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
ھذا ما عندی والعلم عند الله