مناظر سنی شیعہ
مولانا اللہ یار خانؒمناظر سنی شیعہ
فیض محمد شیعی: متعہ کا اس سے زیادہ ثبوت کیا ہونا چاہیے کہ قرآنِ کریم نے اس کی حلت کا اعلان کر دیا ہے اور سنیوں نے سیدنا عمر فاروقؓ کے قول پر عمل کر کے متعہ کو حرام قرار دیا اور قرآن کو چھوڑ دیا۔
اللہ یار خان سنی: استغفراللہ متعہ کی حلت قرآن تو قرآن کی حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے البتہ قرآنی آیات خواہ مکی ہیں یا مدنی حرمتِ متعہ پر صاف صاف دلالت کرتی ہیں باقی خیال کرنا حلت و حرمت کا اختیار ہمارے مذہب میں کلی طور پر پیغمبر کو بھی نہیں ہوتا بلکہ فعل خدا تعالیٰ کا ہے۔ سیدنا عمرؓ کو کہاں سے فعل حرمت کا اختیار حاصل ہوا یہ اختیارات تو مذہب شیعہ میں ائمہ معصومین کو دیئے گئے ہیں جس چیز کو چاہیں حرام کریں۔ جس کو حلال کریں۔
شیعہ: قرآن کی آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ موجود ہے کہ جس عورت سے متعہ کر اس کو متعہ کی اجرت دیا کرو۔
سنی: سبحان اللہ! آیت کا مطلب خوب سمجھا جی ملک فیض محمد، آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم جماع سے نفع اٹھاؤ۔ ان کو مہر دے دیا کرو! نہ کہ متعہ۔
شیعہ: مہر ہرگز مراد نہیں ہوسکتا مہر تو محض نکاح کرنے سے لازم ہو جاتا ہے پھر فائدہ اٹھانے کی قید کی کیا حاجت تھی لہٰذا متعہ کی اجرت مراد ہے۔
سُنّی: کس قائل نے کہا ہے کہ محض نکاح سے پورا مہر لازم ہو جاتا ہے اجی حضرت! بعد نکاح قبل از خلوة صحیحہ یا وطی کے طلاق دے دی جائے تو نصف مہر دینا پڑتا ہے نہ پورا۔ اور آیت میں پورا مہر مراد ہے۔
شیعہ: آیت میں پورے مہر کا کوئی قرینہ نہیں آپ کس لفظ سے پورا مہر مراد لیتے ہیں؟۔
سُنّی: نصف کے نہ مذکور ہونے سے پورا مراد لیتے ہیں جب چیز مطلق چھوڑ دی جائے تو مراد فرد کامل اس سے ہوتا ہے جب نصف کا لفظ نہ تھا۔ تو ہم نے کامل مراد لیا اور کامل پورا مہر ہے۔
فیص محمد شیعہ: آیت فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ جس کی مصدر جو ماخذ فصل ہے متعہ ہے آپ نکاح کسی لفظ سے مراد لیتے ہیں متعہ سے متعہ ہی مراد ہوگا نہ نکاح۔
سُنّی اللہ یارخان: متعہ کے معنیٰ لغت عربی میں کیا ہیں، آیا یہی آپ کا اصطلاحی متعہ یا مطلق نفع اٹھانا۔
شیعہ: اس سے ہم کو کیا واسطہ؟ لفظ متعہ کا موجود ہے۔
سُنّی: اچھا، آپ صرف لفظ سے بحث کرتے ہیں۔ اچھا فرمائیں، کوئی خارجی مردود شیعہ پر یہ اعتراض کر دے کہ تم یزید کو بہت برا بھلا کہتے ہو حلانکہ قرآن اس کی بڑی تعریف کرتا ہے۔
شیعہ: وہ آیت قرآن میں کہاں ہے؟۔
سُنّی: ارے بھائی! میں نے تو خارجیوں کا عقیدہ پیش کیا تھا نہ سنیوں کا۔
شیعہ: اچھا،خارجی کون سی آیت تعریف یزید میں پیش کرتے ہیں یزید تو وقت نزولِ قرآن موجود ہی نہ تھا۔
سُنّی: ارے بھائی! ہم کو اس سے بحث نہیں وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
"وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِ اللّٰهِ الخ" يزيد بنو امیہ کا خدا کے فضل سے ہے اور خدا کے فضل سے پیدا ہوا اور خدا کے فضل سے حکومت کی اور خدا نے فضل کر کے اس کو دی بس شیعہ مولوی تاڑ گیا۔ کہ متعہ کے لفظ کا جواب لفظ یزید سے دیا گیا۔
سُنّی: جنابِ عالی آیت سے مراد نکاحِ صحیح مراد ہے اور منکوحہ سے زوجہ مراد ہے نہ ممتوعہ عورت زوجہ ہے نہ زوجہ میں داخل ہے آیت قرآنی متعہ کو حرام قرار دے چکی ہے۔
- فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ الخ (سورة النساء: آیت 3)۔
ترجمہ: پس نکاح کریں ان عورتوں سے جو خوش آئیں تم کو دو دو تین تین چار چار سے پسں خوف عدل ہو یعنی ہے انصافی کا تو ایک ہی کافی پر باندی رکھ لیں۔
- وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْؕ الی ان قال ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ الخ (سورة النساء: آیت 176)۔
ترجمہ: جو شخص تم میں سے آزاد عورتیں سے نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو پس لونڈیاں کر لے مگر لونڈی سے اس وقت جائز ہے جب خوف زنا کا ہو اگر صبر کرو تو تمھارے لئے اچھا ہوگا۔
- وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ الخ (سورۃ النور 32)
ترجمہ: بچتے رہیں وہ لوگ جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتے یہاں تک کہ خدا ان کو غنی کر دے اپنے فضل و کرم سے۔
فائدہ: قرآن نے دو دو تین تین چار چارکی قید لگا کر متعہ کی جڑا اکھیڑ پھینکی چونکہ متعہ میں ممتوعہ عورتوں کی کوئی تعداد نہیں ہوتی خواہ چار سو کریں معلوم ہوا کہ ممتوعہ زن فَانْكِحُوْا کے حکم میں جو قرآن میں آتا ہے داخل نہیں ہے۔
دوم: قرآن نے عدل کی قید لگا کر معتوعہ پر کاری ضرب لگائی چونکہ ممتوعہ عورتوں میں عدل و انصاف کی ضرورت نہیں۔ انصاف و عدل سے باری مقرر کرنا صرف منکوحہ زوجہ کے لئے ہے۔
سوم: بعد نکاح اَوْمَا مَلَكَتْ کی قید لگا کر بتا دیا صرف دو قسم کی عورتیں حلال ہیں۔ اگر ممتوعہ زن حلال ہوتی تو اس کا ذکر بھی کیا جاتا۔
چہارم: وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا الخ کی قید سے متعہ فنا ہوگا قرآن نے بتایا کہ آزاد مسلمان عورتوں کے نہ ملنے پر باندیوں سے نکاح کر لینا اگر متعہ کا وجود ہوتا تو قرآن یوں فرماتا وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَاسْتَمْتَعُوْا بِا النِّسَاء اَوْمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ، الخ چونکہ متعہ مبارکہ تو دو آنہ پر چار آنہ پر روٹی و کپڑا پر بھی کیا جاسکتا تھا۔ ایک آسان اور ارزاں پھر "لکل جدید لذة" ہر نئی میں لذت ہوتی ہے پھر ہر روز نیا نظارہ پھر صبر کی قید قرآن کو کیونکر لگانا پڑتی، صاف حکم دیتا اگر آزاد عورت نہیں ملتی اور نہ ہی باندی ملتی ہے تو دو چار آنہ پر نئی نئی سے ہم آغوش ہو جانا چاہیے۔
واہ متعہ شریف، الحمدللہ کہ اس کی خدا نے اجازت نہ فرمائی تھی ورنہ کوئی شخص اپنی عزت نہ بچا سکتا جو زانی و زانیہ پکڑے جاتے تو فوری کہتے ہم نے تو جناب صیغے متعہ کے پڑھ کر یہ متبرک فعل کیا ہے ہم نے تو خالی ثواب نہیں لوٹا بلکہ ملائکہ کی پیدائش کی وجہ سے ہم تو یہ فعل کرتے ہیں۔ ملائکہ کثرت سے پیدا ہوں۔
اے اہلِ اسلام! اہلِ انصاف! خدا کے لئے انصاف کرنا اگر اس متعہ کو جائز رکھا، تو کیا حدود شرعی باقی رہ سکتی ہیں جن پر کوڑے لگائے جائیں یا رجم کیا جائے
اگر باکرہ لڑکی اور کنوارہ لڑکا زنا کرتے پکڑے جائیں یا بیوہ عورت پکڑی جانے تو اس پر کب حد جاری کی جاسکتی ہے وہ فوری کہہ سکتی ہے کہ ہم نے متعہ کیا ہوا ہے اگر ممتوعہ عورت زوجہ میں داخل ہوتی تو قرآن کریم خَشِّیَ الْعَنَتَ کی قید نہ لگاتا متعہ تو ہر وقت مل سکتا تھا بچنے کی کیا حاجت تھی اور صبر کی قید کی کیا ضرورت تھی۔
میں حیران ہوں جب شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ متعہ کو حرام نہ فرماتے نہ بھلا تو کون انسان زناء نہ کرتا بھلا ان سے دریافت کریں متعہ سے بڑھ کر کونسی زنا ہے جو لوگ کرتے ہیں۔ لوگ زناء کرتے ہیں مگر اسکو حرام سمجھ کر کرتے ہیں۔ آپ حلال ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں دونوں میں بڑا فرق ہے۔
اچھا شیعہ علی نقی! اس حدیث کا ذرا جواب دیں جو فتح بن یزید سے مروی ہے متعہ اور سلام کے صفحہ 81 مدار پر:
سالت ابالحسن عليه السلام عن المتعة فقال هی حلال مباح مطلق لمن لم يغنيه الله باالتزويج فليستفف بالمتعة فإن استغنى عنها بالتزويج فهی مباح له ازغاب عنها۔
سوال کیا میں نے متعہ کے متعلق تو حضرت نے فرمایا کہ حلال مباح ہے اس کے لئے جس نے شادی نہ کی ہوئی ہو بے شک وہ متعہ کے ذریعہ سے بدکاری سے بچے لیکن جس نے شادی کر لی ہے اس کو اب ضرورت نہیں ہاں اس وقت مباح ہوگا جب سفر میں چلا جائے۔
فائدہ: شیعہ علی نقی! اگر متعہ نکاح میں داخل تھا تو ایک عورت آزاد سے شادی کر لینے پر متعہ کیونکر حرام ہوا جب ایک مرد کو چار عورتوں کی اجازت قرآن نے دے دی ہے پہلے بھی ایک یا دو یا تین عورتیں منکوحہ تھیں اگر متعہ نکاح میں داخل تھا تو اس چہارم سے متعہ کرنا حلال ہوتا حلانکہ امام نکاحِ صحیح کے بعد حرام فرماتے ہیں پھر آپ کس طرح نکاح میں داخل کرتے ہیں۔
تقریظ:
الحمد لله وكفٰى وسلام على عبادہ الذين اصطفى اما بعد! تمام اہلِ اسلام کی خدمت میں گزارش ہے کہ علی نقی شیعی لکھنؤی نے ایک چھوٹا سا رسالہ نامی "متعہ اور اسلام" اہلِ سنت والجماعت کے خلاف لکھا جس کو امامیہ مشن لاہور نے شائع کیا۔ اس رسالہ میں شیعہ علی نقی نے متعہ کے حلال ہونے کو بزعمِ خویش قرآن و حدیث سے ثابت کیا۔ اور اہلِ سنت و الجماعت کے مسلک کو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہے سخت ضرورت تھی کہ اس مسئلہ میں مسلک حقہ اہلِ سنت و الجماعت کے دلائل و براہین کو آسان اردو عبارت میں واضح کیا جائے۔ اور شیعہ علی نقی کے اعتراضات کے عام فہم اور مضبوط جواب تحریر کئے جائیں تاکہ عامۃ الناس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر دین و ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں خداوند تبارک و تعالیٰ تمام اہلِ اسلام خصوصاً طالبانِ تحقیق کے طرف سے مولانا اللہ یار خان صاحبؒ کو جزائے خیر عطا کرے جنہوں نے باوجود مشاغل کثیرہ کے اس دینی ضرورت کو باحسن وجوہ پورا کیا ہے۔
میں نے اول سے آخر تک اس مضمون کو دیکھا ہے بفضلہ تعالیٰ مضمون کیا ہے۔ ایک دریائے تحقیقات ہے جو ساون کے دریاؤں کی طرح موجیں مار رہا ہے حق یہ ہے کہ مولانا اللہ خان صاحبؒ نے حقِ تحقیق ادا کر دیا ہے اس لئے اہلِ اسلام سے درخواست ہے کہ اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ شائع کرنے کی کوشش کریں اور اس کے مضامین کو محفوظ رکھنے میں سستی سے کام نہ لیں، مجھے تسلیم ہے کہ اس کتاب کی زبان اہلِ زبان کے محاورات کے مطابق نہیں ہے مگر آپ اس رسالہ کو ادبی رسالہ تصور نہ کریں بلکہ ایک علمی اور تحقیقی مضمون خیال کر کے اس کے مطالعہ سے شرف اندوز ہوں۔
حرره احمد شاه بخاری
مدرس مدرسہ عربیہ دارالہدیٰ چوکیرہ ضلع سرگودھا پاکستان۔