Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[سانپ کا واقعہ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[سانپ کا واقعہ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ ]

[اشکال]:گیارہواں واقعہ:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ علماء کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سانپ نکلا اور منبر پر چڑھ آیا۔ لوگوں نے ڈر کر اسے مارنا چاہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا، اس کے ساتھ کچھ بات چیت کی تو وہ منبر پر سے اتر گیا۔ جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو فرمایا وہ جنوں کا حاکم تھا اورایک پیچیدہ مسئلہ دریافت کرنے آیا تھا۔ میں نے وہ مسئلہ بتادیا جس دروازے سے وہ سانپ داخل ہوا تھا اہل کوفہ اسے باب ثعبان(سانپ والا دروازہ) کہا کرتے تھے۔ بنو امیہ نے یہ نام مٹانے کے لیے اس دروازہ پر عرصہ تک بہت سے مقتولوں کو لٹکائے رکھا، اب لوگ اسے ’’باب القتلیٰ‘‘ (مقتولوں کا دروازہ) کہہ کر پکارنے لگے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:ہم کہتے ہیں :’’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنات تو ان دوسرے علماء کے پاس بھی مسائل دریافت کرنے کے لیے آتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہزار درجہ کم مرتبہ کے ہیں ؛قدیم و جدید دورمیں یہ بات ثابت ہے [اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، پھر اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا خصوصیت ہے] ؟ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام اس سے بہت بلند تھا،اور یہ آپ کے ادنیٰفضائل میں سے ایک ہوگا۔ اور اگر یہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و جلالت میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی۔ایسی کہانیوں نے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل وہی لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں جو آپ سے[ اورعلم سے] بہت دور ہیں ۔رہ گئے وہ لوگ جنہیں اہل علم ودین کی صحبت نصیب ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ دیگر اہل علم کے اس سے بھی بڑے بڑے واقعات ہیں ۔ یا انہوں نے اس سے بھی بڑی بڑی کرامات ملاحظہ کی ہوتی ہیں ۔ایسی روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ 

٭ ہم جانتے ہیں کہ وہ صحابہ جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت کم درجہ کے ہیں ‘ لیکن ہم سے وہ درجہ ہا بہتر اوراعلی مقام رکھتے ہیں ۔ جب ایسے واقعات سے ہم جیسے کسی ایک انسان پر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت نہیں کی جاسکتی تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر آپ کی فضیلت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔

مگر اس کا کیا علاج کہ شیعہ کی جہالت ‘ظلم اور اولیاء اللہ متقین سے دوری کی وجہ سے ان کے پاس کوئی قابل اعتماد کرامت موجود نہیں ہے۔بلکہ ان کے علمی افلاس کی حالت یہ ہے کہ جب کسی خارق عادت واقعہ کا سنتے ہیں تو اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں جیسے کسی قلاش انسان چند ٹکے مل جائیں تو ان کی تعظیم کرتا ہے۔اور بھوکے کو روٹی کے ٹکڑے مل جائیں تووہ انہیں بہت بڑا جانتا ہے۔

رافضی اپنی جہالت اور اولیاء اللہ متقین کی راہ اورتقوی الٰہی سے دوری کی وجہ سے کرامات اولیاء میں اپناکوئی حصہ ومقام نہیں رکھتے ۔ اسی لیے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قسم کی من گھڑت کہانیاں سنتے ہیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بات صرف انسان میں ہوسکتی ہے جو ساری مخلوق میں سب سے افضل ہو۔بلکہ مذکورہ بالا خوارق ہی نہیں بلکہ اس سے بڑی بڑی خرق عادات امت محمدیہ کے بہت سارے ایسے لوگوں کو حاصل ہیں جن سے ابوبکرو عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہزاردرجہ افضل ہیں ۔جو کہ ان تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے اور دوستی رکھتے ہیں ۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے تقدیم بخشی ہے وہ ان کو مقدم جانتے ہیں ۔خصوصاً وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ سے اچھی طرح واقف ہیں ؛ اور انہیں باقی تمام صحابہ پر مقدم سمجھتے ہیں ۔اس لیے کہ اس امت میں آپ کو تقوی اور ولایت الٰہی میں بہت خاص مقام حاصل تھا۔[ ٭....جو شخص صلحاء و اولیاء سے صدور کرامات کا انکار کرتا ہے، وہ مکابرہ کا ارتکاب کرتا ہے، مگر تقویٰ کا انحصار کرامات پر نہیں ، جو شخص زیادہ متقی ہو اﷲ کے نزدیک زیادہ باعزت وہی ہے اگرچہ اس سے ایک کرامت بھی صادر نہ ہوئی ہو۔]

عقلمند انسان ان طرق کو جانتا ہے۔اوروہ یہ علم یا توصالحین کے واقعات و کرامات پر تحریر کردہ کتابوں کامطالعہ کرنے سے حاصل کرسکتا ہے ؛ جیسے : کرامات الاولیاء أز ابن ابی الدنیا؛ کتاب الخلال ؛ ابوبکر اللالکائی کی تصنیف؛اور ان کے علاوہ دیگر کتابیں ۔یا جو کچھ صالحین کے واقعات ابو نعیم کی کتاب ’’الحلیۃ ‘‘ اور ابن جوزی کی صفوۃ الصفوۃ اور دوسری کتابوں میں ہیں ۔

یا پھر وہ خود براہ راست اس کا مشاہدہ بھی کرسکتا ہے۔ یا پھر کسی سچے انسان کے خبر دینے سے بھی اسے معلوم ہوسکتا ہے۔لوگوں کے سامنے ہر دور میں اس قسم کے بہت سارے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ اورلوگ انہیں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بیان بھی کرتے ہیں ۔اور ایسا اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔ یا پھر کسی انسان کے ساتھ خود بھی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے۔

یہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے لشکر اور ان کی عوام و رعیت ہیں ۔ ان کی کراما ت اس سے بھی کہیں بڑی ہیں ۔مثال کے طور پر حضرت علاء حضرمی رحمہ اللہ کا سمندر عبور کرنا۔اس کا ذکر پہلے گزر چکاہے۔سمندر کا پار کرنا پانی کے خشک ہوجانے سے بڑی کرامت ہے۔ اور مثال کے طور پر آپ کی اللہ تعالیٰ سے پانی طلب کرنے کے لیے دعا۔ اور قادسیہ کے واقعہ میں گائے کا حضرت سعد بن ابی وقاص سے کلام کرنا۔ اورحضرت عمرکا یا ساری الجبل کی آواز لگاناحالانکہ آپ اس وقت مدینہ میں تھے اورساریہ نہاوند میں تھے۔اورجیسے حضرت خالد بن ولید کا زہر پی جانا۔اورمثلا ابو مسلم خولانی کو آگ میں ڈالا جانا۔آگ آپ پر ٹھنڈی اورسلامتی والی ہوگئی تھی۔یہ اس وقت کا قصہ ہے جب اسود عنسی کذاب جھوٹی نبوت کا دعویدار یمن پر غالب آگیا تھا۔ابومسلم خولانی نے اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا لہٰذا اس نے آپ کو آگ میں ڈالدیا تھا۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنادیا۔ جب آپ اس آگ سے نکلے تو اپنی پیشانی کو پونچھ رہے تھے۔ان کے علاوہ بھی اتنے واقعات ہیں جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ اولیا اللہ کے لیے خوارق عادات ان کی ضرورت کے مطابق پیش آتی ہیں ۔پس ان میں سے جو کوئی کفار و منافقین یا فاسقین کے درمیان مقیم ہو ا ور اسے یقین زیادہ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ جیسا کہ اندھیرے میں روشنی کا ظاہر ہونا وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات مفضول کی اتنی کرامات ہوتی ہیں جتنی فاضل کی نہیں ہوتیں لیکن مفضول کی ضرورت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔

یہ خوارق بذات خود مقصود و مطلوب نہیں ہوتیں بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ایک وسیلہ ہوتی ہیں ۔جو کوئی انہیں ہی غایت سمجھ اور اس وجہ سے عبادت کرنے لگے تو پھر شیطان اس سے کھلواڑ کرنے لگتا ہے۔اور اس کے لیے ایسی ہی خوارق کو ظاہر کرتا ہے جو کہ کاہنوں اور جادوگروں کے کرتوتوں کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور جو کوئی کرامت یا خارق عادت تک رسائی صرف اس ذریعہ سے چاہتا ہے اور اسے اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے ت واس کے حق میں کرامات ان لوگوں کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں جتنی ان سے بے نیاز لوگوں کے حق میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تابعین میں کرامات کے واقعات صحابہ کرام کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں ۔

علم میں اس کی مثال: اسماء اور لغات کا علم ہے۔اس لیے کہ نحو اور لغت کی معرفت سے مقصود کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا فہم حاصل کرنا ہے۔ اوریہ کہ انسان بول چال میں اہل عرب کے کلام کے مطابق چل سکے۔صحابہ کرام علم نحوسے مستغنی تھے۔ ان کے بعد آنے والے لوگوں کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی ۔چانچہ عربی زبان کے قوانین میں ان کے کلام کو حجت مل گئی ۔ ایسی کوئی چیز عصر صحابہ میں نہیں پائی جاتی تھی۔اس لیے کہ اس وقت زبان دانی میں کمی بہت کم تھی اور صحابہ کرام علم کی کمال پر فائز تھے۔ایسے ہی بعد میں آنے والوں کا کلام اسما الرجال اور ان کے واقعات میں حجت سمجھا جانے لگاایسی کوئی چیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں نہیں تھی۔ اس لیے کہ یہ وسائل ایک دوسرے مقصد کے لیے طلب کیے جاتے ہیں ۔ایسے ہی مناظرہ و بحت کی ضرورت متأخرین میں بہت زیادہ پیش آئی جب کہ صحابہ کرام اس سے مستغنی تھے۔

ایسے ان لوگوں کے لیے قرآن مجید کا ترجمہ کرنا جو عربی میں قرآن نہ سمجھتے ہوں ۔ضرورت تھی کہ فارسی ترکی اور رومی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا جائے ۔جب کہ صحابہ کرام اس سے مستغنی تھے۔ایسے ہی بہت سارے لوگوں کے لیے تفسیر و معانی کے بیان کی ضرورت پیش آئی جب کہ صحابہ کرام اس سے بے نیازتھے۔

پس جو کوئی علم نحو؛معرفۃ الرجال اورنظری و جدلی اصطلاحات جوکہ نظروہ مناظرہ پر متعین ہوتی ہیں انہیں بذات خودمقصودبناتا ہے تووہ خیال کرتا ہے کہ ان علوم پر عبور رکھنے والے صحابہ کرام سے بڑے عالم ہیں ۔جس طرح کہ دوسرے بھی بہت سارے لوگ جن کی بصیرت کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیاہے وہ بھی یہی خیال کرتے ہیں ۔اور جس کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ یہ علوم بذات خود مقصود نہیں (بلکہ دوسرے علوم کو سمجھنے کے لیے بطور وسیلہ کے مقصود ہیں )تووہ جان لیتا ہے لیتا ہے کہ وہ صحابہ کرام جو اصل علوم مقصودہ پر دسترس رکھتے تھے وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ افضل ہیں جنہیں ان علوم کی معرفت حاصل ہوخواہ وہ اپنے فن میں کتنا ماہر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حال خوارق کا بھی ہے۔ 

بہت سارے متاخرین کے ہاں خوارق ہی بذات خود مقصود ومطلوب ہوتی ہیں اور وہ اس غرض کے لیے بہت زیادہ عبادت کرتا ہے بھوک برداشت کرتا ہیرات جگے کرتا اور خلوت میں رہتا ہے تاکہ اسے بھی مکاشفات تثیرات وغیرہ حاصل ہوجائیں ۔جیسا کہ کوئی انسان کوشش کرکے بادشاہ تک پہنچتا ہے تاکہ وہاں سے کچھ مال وغیرہ حاصل کرسکے۔بہت سارے لوگ اپنے مشائخ کی تعظیم صرف اسی وجہ سے کرتے ہیں ۔جیسا کہ بادشاہوں اور امیر طبقہ کی تعظیم ان کی شاہی اور مال کی وجہ سے کی جاتی ہے۔اس قسم کے لوگوں کے بارے میں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی افضل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے لوگ اکثر طورپر پیغام رسالت اور اللہ اس کے رسول کے احکام سے خارج ہوجاتے ہیں اور اپنے ذوق و ارادہ کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ یہ لوگ سلب احوال کے بعد سلب اعمال اور ادائے فرائض اور پھر ایمان سے محروم ہوجاتے ہیں ۔جیساکہ اگر کسی انسان کو حکومت اور مال مل جائے پس وہ اس مال و ملک کی وجہ سے شریعت اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت سے خارج ہوجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے اورلوگوں پر ظلم کرنے لگ جائے تو اس کی سزا اسے یہ ملے گی کہ:یاتو اسے اس کے منصب سے معزول کردیا جائے گا۔ یا پھر اس پر دشمن کا خوف مسلط کردیا جائے گا۔ یا پھر اسے فقیر و تنگدست کردیا جائے گا یا ان کے علاوہ کوئی اور سزا بھی مل سکتی ہے۔دنیا میں نفس کے لیے ظاہری و باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کی محبت و رضامندی پر استقامت مقصود ہوتی ہے۔ پس جب بھی انسان اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے زیادہ تابع ہوگااللہ اور اس کے رسول کا زیادہ اطاعت گزار ہوگا۔ وہ اتنا ہی افضل ہوگا۔ پس جس انسان کو ایمان و یقین اور اطاعت کا مقصود بغیر کسی خارق یا کرامت کے حاصل ہوجائے تو اسے کسی خارق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیساکہ صدیق امت حضرت ابوبکر عمرو عثمان وعلی و طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم اور ان کے امثال سابقین اولین کے لیے جب واضح ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو یہ لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔انہیں کسی خارق(معجزہ یا کرامت)کی ضرورت نہ رہی۔جیسے کہ ان لوگوں کو ایسی چیزوں کی ضرورت تھی جنہیں ان حضرات جیسی معرفت حاصل نہ ہوسکی تھی۔

معرفت حق کے متعدد اسباب ہیں ۔ہم نے ان کے بارے میں کئی ایک مواقع پر آگاہ کیا ہے۔خصوصا عقیدہ رسالت اور دلائل نبوت پر بحث کرتے ہوئے ہم نے بیان کیا تھا کہ رسول کی سچائی کی معرفت حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ اور معجزات کا طریقہ بھی ان طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اور جن مناظرین نے یہ کہا ہے کہ معجزہ کے بغیر رسول کی تصدیق ممکن نہیں ؛اس کی یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ : ’’اللہ تعالی کی معرفت صرف کائنات کے پیدا ہونے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘[٭ ....(اس مسئلہ میں ابن تیمیہ نے قاعدہ ولی کے نام سے ایک قاعدہ کلیہ ذکر کیا ہے۔دیکھیں : مجموعِ فتاو ی ۲؍۱۔۹۷ )]

یہ بات اور اس طرح کی دیگر باتیں وہ مناظرین کرتے ہیں جو علم کی کسی خاص قسم کوکسی متعین دلیل کے ساتھ خاص کرتے ہیں کہ اس کے بغیر یہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے لوگ تفرقہ میں پڑ گئے ۔ایک گروہ ان کی موافقت کرتے ہوئے ہر ایک انسان پر ایسی چیز واجب کرتے ہیں جو کہ اللہ اور اس کے رسول نے واجب نہیں کی۔ خصوصا جب کہ ان کا اختیار کردہ طریقہ بھی اپنے مقدمات میں جرح و تنقید وقدح سے خالی نہ ہو۔جیسا کہ یہ لوگ حدوث عالم پر حدوث اجسام سے استدلال کرتے ہیں ۔اور ایک گروہ ایسا ہے جو اس مناظرانہ طریقہ کار پر کلی طور پر تنقید و جرح کرتا ہے۔اور نظر و مناظرہ کے تمام ابواب کو بند کرتا ہے۔ان امور کے مطلق طور پر حرام ہونے اور لوگوں کے اس سے بے نیاز ہونے کا دعوی کرتا ہے۔پس اس طرح دونوں گروہوں کے حمایتیوں کے درمیان فتنہ پیدا ہوتا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علم کے حصول کے بہت سارے طریقے ہیں ۔بسا اوقات اللہ تعالیٰ بہت سارے لوگوں کو ان متعین طرق سے بے نیاز کردیتے ہیں ۔بلکہ صرف علوم ضروریہ میں ایک نظر سے انہیں یہ علوم حاصل ہوجاتے ہیں ۔ اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نفس کو ان ضروری علوم کے لیے مستعد کردیتی ہے حتی کہ اسے الہام سے یہ علوم حاصل ہوجاتے ہیں ۔ اورلوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہوتا جسے انتہائی گہری نظر یا ان طرق کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے کہ یاتوجو چیز دوسروں کو حاصل ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی یا پھر انہیں کوئی ایسا شبہ پیش آجاتا ہے جو نظر ومناظرہ کے بغیر ختم نہیں ہوسکتا۔

ایسے ہی سالکین کے ساتھ بہت سارے احوال پیش آتے ہیں جیسے کہ ذکر اور قرآن کی سماعت کے وقت چیخ نکلناغشی طاری ہونا اور اضطراب کی کیفیت کا پیدا ہوجانااور شہود مخلوقات سے فنا ہوجانا۔اور دل میں ایک ایسی خاص کیفیت کا پیدا ہوجانا کہ دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز کا مشاہدہ باقی نہ رہے۔(اسے تصوف کی اصطلاح میں اصطلام کہتے ہیں )۔ یہاں تک کہ اس کے نفس سے مشہود بھی غائب ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کیفیت کو ہر سالک کے لیے لازم قرار دیتے ہیں ۔اور ان میں سے بعض اسے منتہائے مقصود قراردیتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی اور مقام ہی نہیں ۔اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اس پر تنقید و جرح کرتے ہیں ۔اور اسے ایسی بدعت قرار دیتے ہیں جو کہ عصر صحابہ کے بعد ایجاد کرلی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ کیفیت بعض سالکین کے ساتھ ان پر وارد ہونے والی قوتاور تمکین محبت میں ضعف قلب کے اعتبار سے پیش آتی ہے۔جوکوئی یہ کیفیت نہیں پاتا تو کبھی یہ اس کی کمال قوت اور کمال ایمان کی وجہ سے ہوتا ہے۔اور کبھی کمزور ایمان کی وجہ سے ۔ جیسا کہ بہت سارے باطل پرست فساق اور اہل بدعت کیساتھ ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات اس طریقہ کے لوازمات میں سے نہیں ۔بلکہ بہت سارے سالکین اس سے مستغنی ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ معاملہ خود غایت نہیں ہے۔ بلکہ وہ کمال شہود ہے۔اس طرح سے کہ خالق اور مخلوق کے مابین تمیز ہوسکے۔اور اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کے معانی کا مشاہدہ ہوسکے۔مگر اس میں کوئی ایک امر انسان کودوسرے امر سے غافل نہ کردے۔یہ شہود میں کمال اور قوت ایمانی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ضرور ہے کہ جس کے ساتھ یہ احوال پیش آتے ہیں وہ اتنی ہی مناسبت سے پیش آتے ہیں جتنی ضرورت ہو۔دوسرے مقام پر ان امور کی پوری تفصیل گزرچکی ہے۔

مقصود یہ ہے کہ ان خوارق کے مراتب کو پہچانا جائے اور یہ کہ بیشک یہ چیزیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایسے اولیا اللہ ہیں جوصرف اللہ کی رضامندی چاہتے ہیں اور اس چیز سے محبت کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول کومحبت ہو۔ اور ان خوارق کا مرتبہ صرف ان وسائل کاہے جوکہ معرفت الہی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔جیسا کہ ان خوارق کے علاوہ دیگر امور بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔اگر عادت کی چیزوں پر انحصار کرتے ہوئے ان خوارق کی ضرورت پیش نہ آئے تو وہ اس طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔جب کہ بہت سارے خواہشات کے پجاری جو کہ جہلا کے ہاں مقام و مرتبہ کے طلب گار ہوتے ہیں یا اس طرح کے دیگر مقاصد رکھتے ہیں ۔ ان کے ہاں سب سے اعلی مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سارے طلاب العلم ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد مقام ومرتبہ اورمال کا حصول ہوتا ہے۔ اور ہر انسان کو وہ کچھ مل جاتا ہے جس کی وہ نیت کرتے ہیں ۔جب کہ اہل علم و اہل دین جو کہ اس مقام و مرتبہ کے اہل لوگ ہیں ان کے ہاں مقصود صرف علم کی منفعت ہوتی ہے۔اور اس علم کی انہیں دنیا اورآخرت میں ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل علم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

((إِن طلبہ لِلّٰہِ عِبادۃ، ومذاکرتہ تسبِیح، والبحث عنہ جِہاد، وتعلِیمہ لِمن لا یعلمہ صدقۃ، بِہِ یعرف اللّٰہ ویعبدونہ، ویمجد اللّٰہ ویوحد))۔[جامع بیان العلم فضلہ]

’’علم کا اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرنا عبادت ہے۔ اس کا مذاکرہ کرنا تسبیح ہے۔ علم کی تلاش میں نکلنا جہاد ہے۔جاہل کو اس کی تعلیم دینا صدقہ ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور لوگ اس کی بندگی کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے۔‘‘

اسی لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ علم سے صحیح معنوں میں نفع حاصل کرنے والے اپنے نفس کا تزکیہ سب سے پہلے کرتے ہیں ۔اور ان کا مقصد اتباع حق ہوتا ہے نہ کہ اتباع ہویٰ۔اوروہ اس میں عدل و انصاف کی راہ پر گامزن رہتے ہیں ۔وہ علم سے محبت کرتے اوراس سے لذت حاصل کرتے ہیں ۔ اوروہ علم اور اہل علم کی کثرت سے محبت کرتے ہیں ۔اور ان کی ہمتیں انہیں اس علم کے موجب و مقتضی کے مطابق عمل کرنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ۔ اس کے برعکس جو لوگ علم کی حلاوت کا ذوق ہی نہیں پاتے اوران کا مقصود صرف کرسی اور مال ہوتا ہے ان لوگوں کو اگر اپنا مقصد کسی دوسرے ذریعہ سے مل جائے تووہ اسی پر اکتفا کرلیتے ہیں ۔بلکہ بسا اوقات اگر کوئی دوسرا راستہ علم کے راستہ سے آسان ہوتو اسے ہی ترجیح دیتے ہیں ۔

جس انسان کو یہ معرفت حاصل ہوجائے اس پر یہ وواضح ہوجاتا ہے کہ وہ مقاصد جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور ان پر راضی ہوتا ہے وہ حضرت ابوبکر کو حضرت عمرکی نسبت زیادہ کامل انداز میں حاصل تھے۔ اور حضرت عمر کو حضرت عثمان کی نسبت ان میں زیادہ کمال حاصل تھا۔ اور حضرت عثمان کو حضرت علی کی نسبت زیادہ کمال حاصل تھا۔ اور یہ کہ صحابہ تمام مخلوق سے زیادہ حق کا علم رکھتے تھے۔سب سے بڑے اللہ کے تابعدار تھے اور عدل کے سب سے زیادہ حق دار۔ہر اہل حق کو اس کا حق دینے والے تھے۔ ان پر تنقید صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو ان حقائق سے انتہائی بڑا جاہل ہو جن کی بنا پر یہ لوگ مدح اورتفضیل کے مستحق ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو راہ حق کی طرف ہدایت دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جو انسان عبادت کرنے میں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے شرعی طریقہ کار پر نہیں چلتا اوروہ خوارق عادات کی تلاش میں رہتا ہے تو ایسے انسان کو جنات اور شیاطین اپنا شکار کرلیتے ہیں اوراسے کائنات میں ہونے والے چند امور کی خبریں دیتے ہیں یا پھر اسے ہوا میں اڑاتے ہیں یا پھر وہ پانی پر چلتا ہے۔تو وہ اسے کرامات اولیا میں سے شمار کرتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اللہ کا بہت بڑا ولی ہے۔ یہ بات اس کے مشرک بننے یا کفر کرنے یا فسق و بدعت میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔

اس طرح کے واقعات تو بعض کفار اہل کتاب اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی پیش آجاتے ہیں اور بعض اسلام کی طرف نسبت رکھنے والے ایسے ملحدین کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں جو نماز کو فرض نہیں سمجھتے۔بلکہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی اوررسول نہیں مانتے بلکہ آپ سے بغض رکھتے ہیں اور بعض قرآن سے بغض رکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے دیگر امور ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جن سے کفر واجب ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود شیاطین بعض خوارق عادات دیکھا کر اسے گمراہ کرلیتے ہیں ۔جیسا کہ وہ مشرکین کو گمراہ کرتے ہیں ۔جیساکہ یہ شیاطین کاہنوں اور بتوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔اور آج بھی اہل ہند ترک اورحبشہ کے بعض مشرکین کے ساتھ اور بعض بلاد اسلامیہ میں موجود مشہور کفاروفساق اور جہلا و مبتدعین کے ساتھ بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں ۔