Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یقین و ثبات]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یقین و ثبات]

[ اعتراض ]:شیعہ مصنف کا یہ اعتراض کہ آیت کریمہ[ ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾] ’’ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ‘‘]۔ میں سکینہ نازل کرنے کا ذکر فرمایا تو اس میں واضح طور پر اہل ایمان کو سکون و اطمینان کے مورد میں آپ کا شریک قرار دیاہے، مگر آیت زیر تبصرہ میں یہ صراحت موجود نہیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور نقص نہیں ہوسکتا۔‘‘

[ جواب]:پہلی بات: رافضی مصنف اپنے تئیں یہ تصور کروانا چاہتا ہے کہ سکون نازل ہونے کاذکر متعدد بار ہوا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ تذکرہ صرف حنین کے موقعہ پر ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

﴿وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَo ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا ﴾۔[التوبہ ۲۵۔ ۲۶]

’’اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے ۔‘‘

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹھ پھیر کر چلے جانے کے بعد اہل ایمان اور اپنے نبی پر سکینہ نازل کرنے کاذکر فرمایا ہے ۔ پھر دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اہل ایمان پر سکینہ نازل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ....ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ ....﴾ [الفتح ۱۔۴]

’’(اے نبی)بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے....وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِم﴾ [الفتح ۱۸]

’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا۔‘‘

دوسری بات : علماء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ اس آیت :﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ﴾میں ضمیر کس کی طرف راجح ہے۔ بعض کہتے ہیں : ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : نہیں ‘بلکہ ضمیر کا مرجع حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اقرب المذکورین ہیں ‘ اور آپ کو اطمینان و سکون کی ضرورت زیادہ تھی۔تو آپ پر بھی ایسے ہی سکون نازل ہوا جیسا کہ بیعت رضوان کے موقع پردرخت کے نیچے اہل ایمان پر سکون و اطمینان نازل ہوا تھا۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں اس سے مستغنی تھے؛ اس لیے کہ آپ کو کمال اطمینان حاصل تھا۔بخلاف یوم حنین کے؛ اس لیے کہ اس دن آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ کیونکہ جمہور صحابہ پسپا ہوچکے تھے؛ اور دشمن آپ کی طرف بڑھ رہا تھا‘اور آپ اپنی خچر کو دشمن کی طرف ہانک رہے تھے۔

پہلے قول کی بنیاد پر ضمیر کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی ہے:

﴿ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا ﴾’’اور ایسے لشکر سے ان کی مدد کی جسے تم نے نہیں دیکھا۔‘‘

اس لیے کہ سیاق کلام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر تھا؛ اس لیے جداگانہ طور پر نزول سکینہ کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی۔کیونکہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع و مطیع اور رفیق و مصاحب تھے۔لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ :جب آپ نے اپنے ساتھی سے کہا:﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘: تو[اللہ تعالیٰ کی معیت دونوں کو حاصل تھی]۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متبوع ومطاع تھے اورابوبکر تابع و مطیع‘اوریہی آپ کے ساتھی بھی تھے۔ بنابریں جب متبوع کو سکون و اطمینان اور ملائکہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی تو لازماً تابع بھی اس میں شریک ہو گا۔ اس لیے یہاں جداگانہ طور پر نزول سکینہ کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی؛کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کمال مصاحبت وملازمت حاصل تھے‘جو کہ اس تائید و سکون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی مشارکت کو واجب کرتے تھے۔

بخلاف حنین کے دن پسپا ہونے والوں کے احوال کے۔ اس لیے کہ اس موقع پر اگر اللہ تعالیٰ اتنا ہی فرماتے کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنا سکون اپنے پیغمبر پر نازل کیا ‘ اور اس سے آگے کچھ نہ فرماتے تو یہاں پر کوئی ایسا قرینہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے کہ یہ سکون اہل ایمان پر بھی نازل ہوا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جب پسپا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اور ان کے لیے ایسی مطلق صحابیت بھی ثابت نہیں تھی جو ابوبکر جیسے کمال صحبت و ملازمت پر دلالت کرتی ہو۔

چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مطلقاً صاحب کامل کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ جس سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ اور ہر حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وابستہ رہا کرتے تھے۔ خصوصاً ایسے نازک وقت اور انتہائی خوف کے حالات میں جب کہ دوستی نباہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔تو اس سے بطریق دلالۃ النص واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نصرت و تائید ربانی کے وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک و سہیم ہوں گے۔اس لیے کہ جو کوئی بھی انتہائی سختی اور خوف و شدت کے حالات میں دوستی نبھائے؛ وہ ضروری طور پر نصرت اور تائید و مدد کے احوال میں بھی ساتھ نبھاتا ہے۔ تو پھر اس کے ساتھ کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ؛ اس لیے کہ احوال کلام خود اس پر دلالت کرتے ہیں ۔

جب اس بات کا علم ہوگیا کہ آپ اس حال میں بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور مؤید تھے ‘ تو یہ بات بھی بدیہی طور پر معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سکینہ نازل ہوا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا لشکر اتار کر آپ کی تائید کی گئی ؛ جس کو آپ کے مذکورہ ساتھی ودوست نہیں دیکھ سکے ؛ اس میں باقی لوگوں کی نسبت بہت بڑی فضیلت ہے؛اور یہ قرآن کی بلاغت اور حسن بیان کی دلیل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾ [التوبۃ ۶۲]

’’ اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‘‘

یہاں پر اس جملہ :﴿اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾میں اگر ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضامندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ۔اور اگر اس کی ضمیر کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہ ہوجائے۔ جب ان دونوں میں سے کسی ایک کی رضا مندی دوسرے کی رضامندی کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ؛ تو ان دونوں کی رضا مندی ایک ہی چیز سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب پہلا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی اس کی اتباع میں ہوجائے گی۔ جیسے یہا ں پر﴿اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾ میں اللہ تعالیٰ واحد کی ضمیر لائے ہیں ۔ ایسے ہی یہاں پر :  ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا ﴾ میں واحد کی ضمیر لائے ہیں ۔ اس لیے کہ یہاں پر کسی ایک پر اطمینان و سکون کا نزول دوسرے کی مشارکت کو مستلزم ہے۔ یہ محال ہے کہ ایک ساتھی پر اطمینان نازل ہو اور ساتھ دینے والے پر نہ ہو یا ساتھ دینے والے پر نازل ہو او راس ساتھی پر نازل نہ ہو جو کہ ہمیشہ سے جزء لاینفک اور ملازم ہے۔جب اس سکینہ کا حصول ان دونوں کے ساتھ ہی ممکن تھا تو ضمیر کو واحد لایا گیا۔ اور اس ضمیر کا اصل مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ‘ اور آپ کا صاحب و ساتھی آپ کے اتباع میں اس میں شریک ہے۔ 

اگر کوئی یہ کہے کہ : اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر سکون نازل کیا اور ان کی تائید کی ؛ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شریک نبوت ہوں ۔جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا ﴾ [القصص۳۵]

’’ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَo وَنَجَّیْنَاہُمَا وَقَوْمَہُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمo وَ نَصَرْنَاہُمْ فَکَانُوْا ہُمُ الْغَالِبِیْنَo وَآتَیْنَاہُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَo وَہَدَیْنَاہُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ [الصافات۱۱۴۔۱۱۸]

’’اور بلا شبہ یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسا ن کیا ۔ اور ہم نے ان دونوں کو اور دونوں کی قوم کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔ اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب ہوئے۔اور ہم نے ان دونوں کو نہایت واضح کتاب دی ۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھے راستے پر چلایا ۔‘‘

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ان دو انبیاء کرام علیہماالسلام کا ذکر کیا؛ پھر اس چیزکا ذکر کیا جس میں ان کی قوم بھی ان کے ساتھ شریک تھی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [فتح ۲۶]

’’ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ۔‘‘

اس لیے کہ یہاں پر اس کلام میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کا تقاضا یہ ہو کہ جب یہ دونوں نصرت سے سرفراز ہوکر نجات پا گئے تھے تو یہ نجات نصرت ان کی قوم کو بھی حاصل ہوگئی تھی۔پھر جو چیز ان دونوں کیساتھ خاص تھی ؛ اسے تثنیہ کے لفظ سے ذکر کیااس لیے کہ یہ دونوں حضرات نبوت میں شریک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے مفرد ذکر نہیں کیا جیسا کہ یہاں پر اس فرمان میں ہے:﴿وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ﴾’’ اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‘‘ 

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ ﴾ [توبہ۲۴]

’’ اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ۔‘‘

اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر سکون نازل فرمایااور ان کی تائید کی تو اس سے شراکت کا وہم پیدا ہوتا ہے۔ [تو اس کا جواب یہ ہے ]: بلکہ یہاں پر ضمیر کامرجع رسول متبوع ہے۔اور آپ کی تائید و نصر ت آپ کے ساتھی کی تائید و نصرت بطور لازم ضرورت کے تحت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جس موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تائید ونصرت سے نوازا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی قسم کے حالات میں تائید ربانی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے شامل حال ہوئی، اسی بنا پرخوف و شدت کے مقامات پر تمام صحابہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یقین و ثبات میں سب سے آگے تھے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ:

’’اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کو کرۂ ارضی پر بسنے والے سب انسانوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بڑھ جائے گا۔‘‘[شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اسے حدیث نبوی نہیں ، بلکہ بصیغہ تمریض’’قیل‘‘ ذکر کیا ہے ۔ نیز احادیث القصاص(ح:۱۸)، میں ان الفاظ کو موضوع قرار دیتے ہوئے معناً درست قرار دیا ہے جیسا کہ اگلی حدیث ہے۔ تاہم یہ روایت مرفوعاً الکامل لابن عدی(۴؍۱۵۱۸)، میں بسند ضعیف مروی ہے ۔ تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ دیکھئے: فضائل الصحابۃ للامام احمد(۶۵۳)، السنۃ لعبد اللّٰہ بن احمد(۸۲۱)، شعب الایمان(۳۶)، اس معنی کی مرفوعاً روایت مسند احمد (۲؍۷۶)، الشریعۃ للآجری (۱۳۳۳)، میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے۔]

سنن میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:

’’کیا تم میں سے کسی نے آج خواب دیکھا ہے؟‘‘ ایک صحابی نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک ترازو اترا جس میں آپ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تولا گیا تو آپ بڑھ گئے، پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تولا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا۔پھر عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کو تولا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا ۔پھر ترازو کوآسمانوں میں اٹھا لیا گیا۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایا: ’’یہ خلافت نبوت ہے۔پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اپنا ملک عطا کردے گا۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء(حدیث:۴۶۳۴)، سنن ترمذی، کتاب الرؤیا۔ باب ما جاء فی رؤیا النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، المیزان والدلو (حدیث: ۲۲۸۷)۔]

ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر روزہ اورنماز کی وجہ سے سبقت نہیں لے گئے تھے ‘ بلکہ آپ کی سبقت کا سبب دل میں موجود ایمان تھا۔