علم فقہ
سید تنظیم حسیناسماعیلی فقہ میں قیاس اور رائے کو دخل نہیں ہر حکم نصِ قطعی کا محتاج ہے جس کے لیے ان کے یہاں ہمہ وقت امام نائب امام موجود ہے ان کے یہاں ارکان دین سات ہیںں:
1: ولایت امام کے محبت اور اس کی اطاعت۔
2: طہارت اتقا 3: صلوٰۃ 4: زکوٰۃ 5: حج 6: روزہ اور 7: جہاد ان سب میں ولایت سب سے افضل ہے جس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان میں توحید و رسالت نہیں ہے ان میں سب سے زیادہ نامور شخصیت قاضی نعمان بن محمد کی ہے حیرت ہے کہ قاضی نعمان بن محمد کو بھی صحیح العقائد اسماعیلی نہیں سمجھا گیا کہا جاتا ہے وہ حقیقت میں اسماعیلی نہ تھے۔
(تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، اول صفحہ، 86)
اسماعیلی دعوت کا نظام:
دعوت کے معنیٰ بلانے کے ہیں اور داعی بلانے والے کو کہتے ہیں عام طور پر ہرمسلمان کو داعی الی اللہ سمجھا جاتا ہے لیکن اسماعیلیوں نے اپنے یہاں ایک نظامِ دعوت ترتیب دیا جس کے ارکان مدارج فرائض و زمہ داریاں status and functions متعین شدہ نظر آتی ہیں ان ارکان جن کو اسماعیلی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں میں نبی و امام بھی شامل ہیں ان نظام کی تشکیل بلکل اسی انداز پر نظر آتی ہے جیسے کوئی انجمن یا سوسائٹی کی ہوتی ہے یہ نظام اسماعیلیوں کے علمِ تاویلات و علمِ حقیقت سے وابستہ ہیں جس کے نمونے گزشتہ صفحات میں دیئے جا چکے ہیں۔
ارکان: صدر دعوت
عہدے: 1: نبی
فرائض: ظاہری شریعت کی تعلیم
2: وصی نبی کے بعد جس کا دوسرا نام صامت ہے
فرائض: باطنی علوم کی تعلیم
3: امام وصی کے بعد
فرائض: ظاہری شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم۔
ارکان: بارہ باطنی مددگار ان میں امام کا خاص اور اول مددگار شامل ہے جسے باب الابواب کہتے ہیں
عہدے: لیلی حجتیں حجت کو کفیل بھی کہتے ہیں
فرائض: باطنی علوم کی تعلیم یہ لوگ امام کے حضور میں رہتے ہیں اور ان پر جہاد فرض نہیں
ارکان: بارہ ظاہری مدد گار
عہدے: نمازی حجتیں
فرائض: ظاہری شریعت کی تعلیم بارہ جزیروں میں زمین کو تقسیم کیا گیا ہے اور ہر جزیرے میں ایک حجت بھیجا جاتا ہے۔
ارکان: مبلغین جو نبی یا وصی یا امام کی طرف سے تبلیغ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
عہدے: داعی البلاغ
فرائض: ظاہری شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم
عہدے: داعی مطلق
فرائض: امام کی غیبت کے زمانہ میں امام کا قائم مقام
عہدے: داعی الداعا
فرائض: تمام داعیوں کا صدر
ارکان: داعی کا اول مددگار
عہدے: ماذون
فرائض: مستجیب سے عہد و میثاق لینا اذن کے معنیٰ اجازت کے ہیں یعنی داعی نے ماذون کو عہد لینے کی اجازت دی ہے۔
ارکان: داعی کا دوسرا مددگار
عہدے: مکاسر
فرائض: مستجیب کے پہلے مذہب کو باطل ٹھہرا کے اپنا مذہب ثابت کرنا مکاسر کسر سے بنا ہے کسر کے معنیٰ توڑنے کے ہیں کیونکہ وہ باطل مذہبوں کو توڑتا ہے۔
نوٹ:حسب ضرور نئے عہدے بھی قائم کئے جا سکتے ہیں
(ہم آگے چل کر فان ہمیر اور امیر علی خان کا بیان نقل کریں گے کے یورپ میں خفیہ انجمنوں کے خطوط قاہرہ اور الموت سے جا ملتے ہیں یہ نظام ِ دعوت اس کا ثبوت ہے)
اسماعیلی دعوت کے مدارج:
تاریخی اعتبار سے اسماعیلی دعوت کا مرتب ایرانی داعی ابو شاکر میمون القداح اور اس کا بیٹا عبداللہ ہے یہ دونوں مختلف ادیان اور یونانی فلسفہ کے ماہر تھے میمون کا اصلی مذہب مجوسی تھا لیکن وہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرتا تھا اور اہلِ بیتؓ کی دعوت دیتا تھا انہوں نے خلیفہ ابو منصور (136، 158ھ) کے زمانہ میں قید خانہ میں اپنے مذہب کے 9 مدارج مرتب کیے (ایک بیان کے مطابق یہ ابتداء میں سات تھے دو کا اضافہ بعد میں ہوا) اسماعیلی روایات کے مطابق میمون القداح اور اس کا بیٹا اسماعیلی امام مستور محمد المکتوم بن اسماعیل اور ان کے بیٹے عبداللہ المستور کے حجت کفیل تھے۔
خواجہ حسین نظامی نے مقریزی مشہور مؤرخ کے حوالہ سے اپنی کتاب فاطمی دعوتِ اسلام میں حسبِ ذیل مدارج نقل کیے ہیں۔
(تاریخِ تفسیر و مفسرین میں بھی ان مدارج کا ذکر ہے صفحہ، 461، 462)
پہلی دعوت:
داعی پہلی مجلس میں مدعو سے مشکل اور پیچیدہ سوالات کر کے اس کو عاجز کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ اے شخص اسرارِ دین پوشیدہ ہیں اور اکثر لوگ ان کے منکر اور ان سے جاہل ہیں اگر مسلمان ان باتوں کو جان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے ائمہ اہلِ بیتؓ سے خاص کی ہیں تو ان میں اختلاف نہ ہوتا گمراہی کا سبب ائمہ دین سے رو گردانی ہے حق یہ ہے کہ ائمہ ہی تنزیل و تاویل قرآن سے آگاہ ہیں اللہ تعالیٰ نے علمِ دین کو پردے میں مخفی رکھا ہے۔
اس کے بعد اس سے تاویلات سے متعلق باتیں بتلائی جاتی ہیں اور عہد و پیمان کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور مدعو سے کچھ رقم امام کی نذر کے طور پر مانگی جاتی ہے اگر مدعو یہ رقم دے دیتا ہے تو دوسری مجلس یا نشست میں شرکت کا اہل ہو جاتا ہے۔
دوسری دعوت:
اس نشست میں مدعو کو بتلایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس وقت تک راضی نہیں ہوتا جب تک وہ ائمہ حق کی پیروی نہ کریں پھر ان امور کی شرح کی جاتی ہے جو اسماعیلی مذہب کی کتابوں میں مذکور ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مدعو آگے کہاں تک آگے بڑھا ہے۔
تیسری دعوت:
تیسری مجلس میں ائمہ حق سے روشناس کرایا جاتا ہے جو حسبِ ذیل ہیں۔
1: حضرت علیؓ 2:حضرت حسنؓ 3: حضرت حسینؓ 4: حضرت زین العابدینؓ 5: حضرت محمد الباقرؒ 6 حضرت جعفر الصادقؒ اور ساتویں قائم صاحب الزماں جو بعض کے نزدیک محمد المکتوم بن اسماعیل ہیں اور بعض کے نزدیک خود اسماعیل بن جعفر الصادقؒ صاحب الزماں کے متعلق بتلایا جاتا ہے کہ وہ علمِ باطنی و مخفی کا حامل ہوتا ہے اور وہی تاویل و تفسیر اور تاویل تاویلات کا ماہر ہوتا ہے دعاۃداعی کی جمع ان کے وارث ہوتے ہیں۔
چوتھی دعوت:
اس میں بتایا جاتا ہے کہ شرائع کے مجدد سات ہیں ہر ایک کو ناطق کہا جاتا ہے اور ہر ناطق کے ساتھ ایک وصی ہوتا ہے جس کو صامت کہتے ہیں۔
یہ اس طرح ہیں:
ناطق:
1: حضرت آدم علیہ السلام
2: حضرت نوح علیہ السلام
3: حضرت ابراہیم علیہ السلام
4: حضرت موسیٰ علیہ السلام
5: حضرت عیسیٰ علیہ السلام
6: حضرت محمد مصطفیٰﷺ
7: محمد بن اسماعیل صاحب الزماں جن پر علوم اولین و آخرین تمام ہوئے۔
صامت:
حضرت شیث علیہ السلام
حضرت اسماعیل علیہ السلام
حضرت شمعون علیہ السلام
حضرت سام علیہ السلام
حضرت ہارون علیہ السلام
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت نوح علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور حضرت محمدﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو منسوخ کر دیا یہ ناطق سات ہیں اسی طرح سے وہ چیزیں گنائی جاتی ہیں جو سات ہیں مثلاً آسمان، ہفتے کے دن، زمینیں، کواکب اور سیارے وغیرہ وغیرہ۔
پانچویں دعوت:
اس میں مدعو کو بتلایا جاتا ہے کہ ہر ایک صامت کے ساتھ بارہ مددگار حجتیں بارہ مہینوں، برجوں اور چار انگلیوں کے بارہ ٹکڑوں کی طرح ہوتے ہیں۔
چھٹی دعوت:
اس میں بتلایا جاتا ہے اعمالِ شریعت نماز، روزہ، حج وغیرہ سب رموز ہیں اور عام سیاست کی مصلحت کے لیے جاری کیے گئے ہیں تاکہ ان میں مصروف ہو کر آپس میں فتنہ و فساد نہ پھیلائیں اور حاکم وقت سے وفادار رہیں ورنہ فی الحقیقت ان سے مراد ان کی تاویلیں ہیں۔
جب مدعو کے دل میں یہ بات جم جاتی ہے تو اس کو یونانی فلاسفروں، افلاطوں، ارسطو وفیشا غورث کے اقوال سمجھائے جاتے ہیں۔
ساتویں دعوت:
اس میں یہ بتلایا جاتا ہے کہ کس طرح عقول کو پیدا کیا گیا اور شریعت میں صادر اول اور عقلِ اول کو قلم کہتے ہیں اور اس کے مددگار کو لو ح۔
آٹھویں دعوت:
اس دعوت میں سات عقول کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اجرام فلکی کی حرکتیں اور ان کے ذریعے جمادات، نباتات، حیوانات کا وجود میں آنا، انسان اول کا ظہور، ناطقوں کا قیام وغیرہ سے متعلق گفتگو کی جاتی ہے۔
نویں دعوت:
اس نشست میں مدعو کو یونانی فلاسفروں کی کتابیں پڑھنے اور علومِ الہٰی و طبیعی سے واقفیت حاصل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور یہ بتلایا جاتا ہے کہ وحی صرف نفس کی صفائی کا نام ہے اور نبی یا رسول کا کام ہے کہ جو بات اس کے دل میں آتی ہے اور اسے بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتلا دیا کرتا ہے اور اس کا نام کلامِ الہٰی رکھتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں یہ قول اثر کر جائے اور اسے مان لیں تاکہ سیاست اور مصلحت عام میں انتظام رہے۔
جب مدع مستجیب دعوت میں داخل ہونے کو تیار ہو جاتا ہے تو داعی اس سے حسبِ ذیل معاہدہ لیتا ہے جس کو عہد الاولیاء کہا جاتا ہے مؤرخین مقریزی و بغدادی نے جو معاہدہ نقل کیا ہے اس کا اختصار یعنی اہم نکات یہ ہیں:
1: داعی جس مستجیب سے عہد لیتا ہے اسے خدا کی قسم کھلا کر کہتا ہے کہ تم نے اپنے نفس پر خدا کا وہ عہد و میثاق اور رسول انبیاء ملائکہ اور کتابوں کا وہ ذمہ واجب کر لیا ہے جو خدا نے انبیاء سے لیا تم نے جو کچھ میرے متعلق یا اس شہر میں جو امام مقیم ہیں ان کے متعلق یا ان کے اہلِ بیتؓ اور اصحاب وغیرہ کے متعلق سنا ہے یا سنو گے جانا ہے یا جانو گے اسے چھپاؤ گے اور اس میں سے کسی بات کو خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ہے ظاہر نہ کرو گے بجز اس بات کا ہے کہ جس کی میں اجازت دوں۔
2: اس عہد کے محافظت اس بات پر منحصر ہے کہ ہم نے تم سے جن باتوں کا عہد لیا ہے ان میں سے کسی بات کو بھی تم ظاہر نہ کرو گے نہ ہماری زندگی میں نہ ہماری وفات کے بعد۔
3: اگر تم نے جان بوجھ کر کچھ بھی مخالفت کی تو تم اللہ اور اس کی جماعت سے خارج ہو جاؤ گے تمہارا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا اس میں کوئی رحمت نہیں ہوگی اور خدا تم پر وہ لعنت بھیجیا گا جو اس نے ابلیس پر بھیجی۔
4: اور جتنے تمہارے غلام ہوں خواہ مرد یا عورت تمہاری مخالفت کی وجہ سے تمہاری وفات تک خدا کی راہ میں آزاد تصور کیے جائیں گے اور تمہاری موجودہ بیوی اور وہ بیویاں جو تمہارے انتقال کے وقت تک تمہارے نکاح میں آئیں گی مطلقہ شمار کی جائیں گی۔
ہم نے خود مؤرخ مقریزی کے بیان کردہ عہد نامہ سے صرف اہم باتیں طوالت کے خوف سے پیش کی ہیں یہ عہد نامہ کس قدر طویل ہوگا سمجھ سے باہر ہے کیونکہ مقریزی لکھتا ہے:
اس کے علاؤہ ان کی بہت سی وصیتیں ہیں جن کو طوالت کے خوف سے ہم نے چھوڑ دیا ہے اور جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ عاقل کے لیے کافی ہیں
دعوت کی یہ مجالس ہمیشہ خفیہ ہوتی تھیں حتیٰ کہ فاطمی خلافت کے قیام کے بعد خلیفہ کے قصر میں ایک مخصوص جگہ ان کا انعقاد ہوتا تھا ان کو مجلسِ حکمت کہا جاتا تھا۔
نظامِ دعوت اور عہد نامے سے متعلق ہم بھی مؤرخ مقرریزی کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں کہ عقلمند را اشارہ کافی است مقریزی ہے بھی بالکل صحیح اور حق بجانب اس لیے کہ دعوت کے مدارج اور عہد و پیمان کے نکات خود اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کس غرض سے ترتیب دیا گیا ہے۔