عدالتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا مفہوم
حنیف معاویہعدالتِ صحابہؓ کا مفہوم
اہلِ السنۃ و الجماعۃ کا یہ اجتماعی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اگرچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں ہیں، مگر وہ عادل، مُتْقِن، متقی اور انتہا درجہ پرہیزگار ہیں۔ آسمانِ دیانت و تقویٰ کے درخشندہ ستارے ہیں۔ فسق و فجور جن کے قریب بھی نہیں پھٹکا، چنانچہ خداوندِ قدوس نے قرآن کریم میں صحابہ کرامؓ کو مخاطَب کرکے فرمایا:
’’وَلٰکِنَّ اللّٰه حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَه فِيْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ أُولٰئِکَ همُ الرَّاشِدُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:7)
’’لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اُسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں کی اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے، ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔‘‘
نیز ارشادِ باری ہے:
’’أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰه قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْمٌ۔‘‘
(الحجرات:۷)
ترجمہ: ’’یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقویٰ کے لیے منتخب کرلیا ہے، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔‘‘
’علم العقائد‘‘ کی معروف کتاب ’’المسامرۃ شرح المسایرۃ‘‘ میں ہے:
’’واعتقاد أھل السنة و الجماعة تزکیة جمیع الصحابة رضي اللّٰہ عنهم وجوبًا بإثبات العدالة لکل منهم و الکف عن الطعن فیهم و الثناء علیهم ۔۔۔۔۔۔ و ماجریٰ بین علي و معاویة رضي اللّٰہ عنهما ۔ کان مبنیاً علی الاجتهاد من کل منهما لامنازعة من معاویة رضي اللّٰہ عنه في الإمامة۔‘‘
(المسامرۃ شرح المسایرۃ، صحفہ: 269، 270)
ترجمہ: ’’اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ تمام صحابہ کرامؓ کا تزکیہ یعنی گناہوں سے پاکی بیان کرنا ہے، اس طرح کہ ا ن سب کے لیے عدالت ثابت کرنا اور ان کے بارے طعن سے رُکنا اور ان کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اور حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے مابین جو کچھ معاملہ پیش آیا، یہ دونوں حضرات کے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ حضرت معاویہؓ کی طرف سے حکومت و امامت کا جھگڑا نہیں تھا۔‘‘
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں
’’ الصّحابۃؓ کلُّهم عدول من لابس الفتن وغیرهم بإجماع من یعتد به، قال تعالٰی: (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا) (البقرۃ:۱۴۳) الآیة، أي عدولًا۔ وقال تعالٰی: (کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) (آل عمران:۱۱۰)، والخطاب فیها للموجودین حینئذ۔ وقال صلی اللّٰه علیہ وسلم: خیر النّاس قرني ، رواہ الشیخان۔ قال إمام الحرمین: والسبب في عدم الفحص عن عدالتهم: أنهم حملة الشریعة۔‘‘
(تدریب الراوی، صحفہ:492، 493، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
’’باجماعِ معتبر علماء تمام صحابہ کرامؓ عادل ہیں، مبتلائے فتن ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں،
(دلیل ) ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:’’وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا‘‘
ترجمہ کہ ہم نے تمہیں اُمت وسط یعنی عادل بنایا۔
نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
ترجمہ کہ تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے نکالے گئے ہو۔
ان آیات میں خطاب اُس وقت موجود حضرات صحابہ کرامؓ کو ہے، اور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں بہترین میرا زمانہ ہے۔ امام الحرمین نے فرمایا کہ: صحابہ کرامؓ کی عدالت سے بحث و جستجو نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حاملینِ شریعت و ناقلینِ شریعت ہیں۔‘‘
مشہور حنفی محقق ملا قاریؒ اِرقام فرماتے ہیں
’’ذهب جمهور العلماء إلٰی أن الصحابة رضي اللّٰه عنهم کلُّهم عدول قبل فتنة عثمانؓ و عليؓ وکذا بعدها ولقوله علیه الصلاۃ والسلام : ’’ أصحابي کالنجوم بأیّهم اقتدیتم اهتدیتم۔‘‘
(شرح الفقه الأکبر لملاعلی القاریؒ، صحفہ:63)
ترجمہ: ’’جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ عادل پاکباز، متقی ہیں، حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں وقوع پذیرفتنوں سے پہلے بھی اور اُس کے بعد بھی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کی مانند ہیں، ان میں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔‘‘
علّامہ ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں
’’قال ابن الصلاح والنووي الصحابۃؓ کلهم عدول وکان للنبي صلی اللّٰه علیه وسلم مائة ألف وأربعة عشر ألف صحابي عند موته صلی اللّٰه علیه وسلم، والقرآن والأخبار مصرّحان بعدالتهم وجلالتهم ولما جری بینهم محامل۔‘‘
(الصواعق المحرقة علی أہل الرفض والضلال والزندقة، ج:۲، ص: ۶۴۰، مؤسسة الرسالة، بیروت)
ابن صلاحؒ اور امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: تمام صحابہ کرامؓ عادل و متقی تھے، نبی کریمﷺ کے وصال کے وقت ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہؓ تھے۔ قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ صحابہ کرامؓ کی عدالت و تقویٰ اور جلالتِ شان کی صراحت و وضاحت کر رہے ہیں، اور ان کے باہمی مشاجرات و معاملات کے محمل اور تاویلات موجود ہیں۔
اس لیے اہلِ السنّۃ و الجماعۃ کا بجا طور پر موقف یہی ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نہ صرف روایتِ حدیث میں عادل و پاکباز ہیں، بلکہ تمام معاملاتِ زندگی اور اعمالِ حیات میں بھی عادل و متقی اور پرہیزگار ہیں،تاہم معصوم نہیں ہیں کہ ان سے کوئی خطا اور گناہ سرزد ہی نہ ہو۔ معصوم عن الخطا صرف انبیاء کرام علیہم السلام کی ذاتِ قدسیہ ہیں، صحابہ کرامؓ محفوظ عن الخطا ہیں، یعنی یا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے خطا و معصیت کا صدور ہونے نہیں دیتے، اور اگر کسی ایزدی حکمت وربانی مصلحت کی بنا پر کسی معصیت و گناہ کا صدور ہو تو خداوند قدوس صحابیؓ کی زندگی میں ہی اس کا ازالہ و تدارک کروا دیتے ہیں کہ صحابیؓ جب دنیا سے جاتا ہے تو بموجبِ وعدۂ خداوندی وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰه الْحُسْنٰی ترجمہ جنتی بن کر دنیا سے رخصت ہوتا ہے، اس لیے الصّحابۃؓ کُلُّهم عدول‘‘کا یہ مطلب لینا کہ صحابہ کرامؓ انبیاء ِ کرام علیہم السلام کی مانند معصوم ہیں، نا درست اور غلط ہے، عصمت‘ خاصۂ انبیاء ہے، تاہم دوسر ی طرف یہ کہنا کہ صحابیؓ عام زندگی میں اس مفہوم میں بھی عادل نہیں ہوتا جو اہلِ السنت کے ہاں متفق علیہ و مسلَّم ہے، تصریحاتِ اہل السنۃ و تشریحاتِ اکابر علماءِ دیوبند کے مطابق و موافق نہیں ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہ ہوا کہ صحابیؓ فاسق ہوسکتا ہے، کیونکہ عدالت اور فسق میں تباین و تضاد ہے، عادل ہے تو فاسق نہیں، فاسق ہے تو عادل نہیں، اور عادل نہیں تو فاسق ہے۔
مگر بہت سے گم راہ نظریات رکھنے والے لوگوں کا نظریہ اور اعتقاد یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ روایتِ حدیث میں تو عادل ہیں، مگر دیگر احوالِ زندگی میں عادل اور متقی نہیں ہیں۔ درحقیقت اس اعتراض اور نقطۂ نظر کا مبدأ اور منشأ سیدنا امیر معاویہؓ کو غیر عادل اور فاسق و فاجر اور باغی و طاغی تک قرار دینا ہے، اسی ضرورت سے یہ نظریہ ایجاد کرنا پڑا۔
چنانچہ مودودی صاحب اپنی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں’’الصَّحَابۃؓ کلُّهم عدول‘‘(صحابہؓ سب راست باز ہیں) کا یہ مطلب نہیں لیتا کہ تمام صحابہؓ بےخطا تھے، اور ان میں سے ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالا تر تھا، اور ان میں سے کسی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ سے روایت کرنے یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابیؓ نے کبھی راستے سے ہرگز تجاوز نہیں کیا ہے۔‘‘
(خلافت و ملوکیت، صحفہ303، ط:ادراہ ترجمان القرآن، لاہور، 2019ء)
موجودہ دور میں بھی بعض ایسے نظریاتِ فاسدہ و خیالاتِ کاسدہ کے حامل لوگ پیدا ہوچکے ہیں ۔اس نظریہ کا علماءِ امت نے ابطال اور رد فرمایا ہے،
چنانچہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب‘ مودودی صاحب کے اس موقف کا ردِ بلیغ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر اس کتاب (خلافت و ملوکیت) کے ان مندرجات کو درست مان لیا جائے جو خاص سیدنا معاویہؓ سے متعلق ہیں تو اس سے عدالتِ صحابہؓ کا وہ بنیادی عقیدہ مجروح ہوتا ہے جو اہلِ سنت کا اجماعی عقیدہ ہے اور جسے مولانا مودودی صاحب بھی اصولی طور پر درست مانتے ہیں۔ مولانا نے
’ ’الصحابۃؓ کلھم عدول‘‘ ترجمہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں
کو اصولی طور پر اپنا عقیدہ قرار دے کر یہ لکھا ہے کہ اس عقیدے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ صحابہؓ سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ روایتِ حدیث میں انہوں نے پوری دیانت اور ذمہ داری سے کام لیا ہے۔ لیکن اس گفتگو میں مولانا نے اس بحث کو صاف نہیں فرمایا،
عقلی طور پر عدالتِ صحابہؓ کے تین مفہوم ہوسکتے ہیں:
¹ـ صحابہ کرامؓ معصوم اور غلطیوں سے بالکل پاک ہیں۔
²ـصحابہ کرامؓ اپنی عملی زندگی میں (معاذ اللہ) فاسق ہوسکتے ہیں، لیکن روایتِ حدیث کے معاملے میں بالکل عادل ہیں۔
³ـصحابہ کرامؓ نہ تو معصوم تھے اور نہ فاسق۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی سے بعض مرتبہ بتقاضائے بشریت ’ ’دو ایک یا چند‘‘ غلطیاں سرزد ہوگئی ہوں، لیکن تنبُّہ کے بعد انہوں نے توبہ کرلی اور اللہ نے انہیں معاف فرما دیا، اس لیے وہ ان غلطیوں کی بنا پر فاسق نہیں ہوئے۔
چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی صحابیؓ نے گناہوں کو اپنی پالیسی بنا لیا ہو، جس کی وجہ سے اسے فاسق قرار دیا جاسکے۔ پہلے مفہوم کو تو انہوں نے صراحتاً غلط کہا ہے اور جمہور اہلِ سنت بھی اسے غلط کہتے ہیں۔ اب آخری دو مفہوم رہ جاتے ہیں، مولانا نے یہ بات صاف نہیں کی کہ ان میں سے کون سا مفہوم درست ہے؟ اگر ان کی مراد دوسرا مفہوم ہے، یعنی یہ کہ صحابہ کرامؓ صرف روایتِ حدیث کی حد تک عادل ہیں، ورنہ اپنی عملی زندگی میں وہ معاذ اللہ! فاسق و فاجر بھی ہوسکتے ہیں، تو یہ بات ناقابلِ بیان حد تک غلط اور خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی صحابیؓ کو فاسق و فاجر مان لیا جائے تو آخر روایتِ حدیث کے معاملہ میں اسے فرشتہ تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے؟ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کے لیے جھوٹ، فریب، رشوت، خیانت اور غداری کا مرتکب ہوسکتا ہے، وہ اپنے مفاد کے لیے جھوٹی حدیث کیوں نہیں گھڑ سکتا؟۔ اسی لیے تمام محدثین اس اُصول کو مانتے ہیں کہ جو شخص فاسق و فاجر ہو‘ اس کی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ ورنہ اگر روایات کو مسترد کرنے کے لیے یہ شرط لگا دی جائے کہ راوی کا ہر ہر روایت میں جھوٹ بولنا ثابت ہو تو شاید کوئی بھی روایت موضوع ثابت نہیں ہوسکے گی اور حدیث کے تمام راوی معتبر اور مستند ہو جائیں گے، خواہ وہ عملی زندگی میں کتنے ہی فاسق و فاجر ہوں۔ اور اگر مولانا مودودی صاحب عدالتِ صحابہؓ کو تیسرے مفہوم میں درست سمجھتے ہیں، جیساکہ اوپر نقل کی ہوئی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے، سو یہ مفہوم جمہور اہلِ سنت کے نزدیک درست ہے، لیکن سیدنا امیر معاویہؓ پر انہوں نے جو اعتراضات اپنی کتاب میں کیے ہیں، اگر اُن کو درست مان لیا جائے تو عدالت کا یہ مفہوم ان پر صادق نہیں آ سکتا۔
سیدنا امیر معاویہؓ اور تاریخی حقائق، صحفہ:139 تا 146، ط: معارف القرآن، کراچی، 2016ء)
یہی بحث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے دوسرے باب ، صفحہ254 پر بھی کی ہے
۔مولانا محمد ثاقب رسالپوری اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دراصل مولانا مودودی صاحب نے عدالتِ صحابہؓ کا جو مفہوم بیان کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ روایتِ حدیث کی حدتک تو عادل ہوسکتے ہیں، لیکن ز ندگی کے تمام معاملات میں ان سے بعض کام عدالت کے منافی صادر ہوسکتے ہیں۔ ‘‘(سیدنا امیر معاویہؓ اور تاریخی روایات، صحفہ163، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، 2011ء)
حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع عثمانی دیوبندیؒ اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’اور بعض علماء نے جو عدمِ عصمت اور عمومِ عدالت کے تضاد سے بچنے کے لیے ’’عدالت‘‘ کے مفہوم میں یہ ترمیم فرمائی کہ یہاں ’’عدالت‘‘ سے مراد تمام اوصاف و اعمال کی عدالت نہیں، بلکہ روایت میں کذب نہ ہونے کی عدالت مراد ہے،یہ لغت و شرع پر ایک زیادتی ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (مقامِ صحابہؓ، صحفہ:60)محققِ اہل السنۃ مولانا مہر محمدؒ (میانوالی) لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام صحابہ کرامؓ بلا استثناء، دروغ گوئی خصوصاً کذب فی الروایۃ سے پاک و صاف تھے اور کسی سے بھی کذب کا صدور نہیں ہوا اور بایں معنی عادل ہونا بھی ان کی منقبت کی واضح دلیل ہے،لیکن عدالتِ صحابہؓ کو صرف اس معنی میں منحصر کرنا اور اسے محدثین کی مراد بتانا ناقابلِ تسلیم اور لائقِ مناقشہ ہے، کیونکہ بعض محدثین نے عدالت کی تفسیر میں جھوٹ سے بچنا لکھا ہے تو اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ ان محدثین کے نزدیک صحابہؓ روایت میں عمداً کذب بیانی کے سوا باقی سب اُمور اور شعبہ ہائے حیات میں غیر عادل حتیٰ کہ ہرقسم کے کبیرہ گناہوں تک کا ارتکاب کرتے تھے، جیسے صاحبِ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور ان کے حواریوں کا خیال ہے، بلکہ جھوٹ سے بچنے کی تصریح کا مطلب یہ ہے کہ بایں معنی صحابہؓ رضی اللہ عنہم کی عدالت اتنی قطعی اور اٹل ہے جیسے انبیاء علیہم السلام کی گناہوں سے عصمت کہ اس میں استثناء یا شذوذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ کسی عالم نے آج تک یہ لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ جھوٹ بولتے تھے، بخلاف چند اور گناہوں کے کہ چند حضرات کی ان سے عصمت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حضرات صحابہ کرامؓ کا ہر فرد انبیاء علیہم السلام کی طرح قطعی معصوم نہیں کہ صدور معصیت محال ہی ہو، ہم نے اپنی کتاب میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔عدالت ِصحابہؓ صرف روایت عن الرسول میں منحصر نہیں، بلکہ ان کی سیرت کے ہر پہلو میں عام ہے۔ محدثین جو عام رُواۃ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ عادل ہیں تو یہ اس کی پوری سیرت کی پاکیزگی پر شہادت ہوتی ہے کہ وہ کبائر سے مجتنب اور صغائر پر غیر مصر ہیں، پھر اسی بحث میں وہ صحابہ کرامؓ رضی اللہ عنہم کے متعلق کہتے ہیں:
’’الصّحابۃؓ کُلُّهم عدول‘‘ ترجمہ کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب عادل ہیں
تو اب اس عدالت کو تجنُّب عن الکذب میں مخصوص نہیں کیا جائے گا، ورنہ لازم آئے گا کہ غیر صحابیؓ کی عدالتِ صحابیؓ سے افضل ہو،
وھو باطل
علماء اصولِ حدیث اور محدثین
’’کُلُّهم عدول کی دلیل ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ فرماتے ہیں: ’’زَکّیاھم و عدّلاھم‘‘
کیونکہ خدا اور رسولﷺ نے ان کا تزکیہ کیا ہے، اور ان کو عادل قرار دیا ہے۔ خدا اور رسول کا یہ تزکیہ اور تعدیل صرف کذب سے اجتناب میں نہیں کہ صحابہؓ دیگر گناہوں کے مرتکب ہوتے رہتے تھے، بلکہ یہ مجموعی طور پر ان کے اعمال و اخلاق کی عیوب سے طہارت اور آلودگیوں سے اجتناب پر شہادت ہے، تو معلوم ہوا محدثین کے نزدیک بھی عدالت میں تعمیم ہے۔ بہرحال! تزکیہ، نزاہت، قصدِ معصیت سے تبریہ ان کی شان کی گناہوں سے بلندی جیسے واضح الفاظ ہمارے مؤید ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی عدالت عام ہے، اور وہ بالعموم سب گناہوں اور معاصی سے محفوظ ہیں، ایسی صراحتوں کے باوجود کیا اب بھی محدثین پر یہ اتہام لگایا جائے گا کہ ان کے نزدیک صحابہؓ تعمدِ کذب فی الروایۃ تک عادل تھے، باقی ہر قسم کے کبائر اور معاصی کرتے تھے، اور ذنوب ان سے معدوم نہیں ہوئے تھے؟!۔‘‘
(عدالت ِ صحابہ کرامؓ ، صحفہ:70 تا 75، طبع ہفتم)
یہ ایک بالکل بدیہی اور سادہ سی سے بات ہے، اگر یہ موقف تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ کرامؓ عام زندگی میں عادل نہیں، صرف روایتِ حدیث میں عادل ہیں ، اور ان کی قبولِ روایت کے لیے عام زندگی میں عدالت ضروری نہیں تو اس سے نہ صرف یہ اصولِ حدیث میں برائے قبولِ روایت عدالت کی شرط ایک مذاق اور مضحکہ خیز قاعدہ بن کر رہ جائے گا، بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے علاوہ دیگر رواۃ تو عام معاملاتِ حیات میں بھی عادل ہوں اور صحابیِ رسولؓ نعوذ باللہ! عادل نہ ہو، جیسا کہ حضرت مولانا مہر محمدؒ میانوالوی نے بھی ذکر فرمایا ہے۔
بعض حضرات نے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی طرف بھی ایسی باتوں کی نسبت کی ہے، جس کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع عثمانی دیوبندیؒ نے (مقامِ صحابہؓ، صحفہ:60، 61 میں) یہ تصریح فرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاً: شاہ صاحب کی طرف ان عبارات کی نسبت مشکوک ہے۔ ثانیاً: اگر تسلیم کرلیا جائے کہ یہ حضرت شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات ہیں تو خلافِ جمہور ہونے کی وجہ سے متروک و مردود ہیں۔ دوسری طرف سیدنا امیر معاویہؓ کی عدالت و تقویٰ پر علماء امت کی تصریحات موجود ہیں، ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
شارح صحیح مسلم امام نوویؒ سیّدنا امیر معاویہؓ کی عدالت پر مہرِ اثبات ثبت کرتے ہوئے ان کے بارے میں فرماتے ہیں
’’وأما معاویة رضي اللّٰه عنه فهو من العَدُول الفضلاء والصَّحابة النُّجباء رضي اللّٰه عنه وأما الحروب التي جرت فکانت لکل طائفة شبهة اعتقدت تصویب أنفسها بسببها وکلهم عدول رضي اللّٰه عنهم ومتأولون في حروبهم وغیرها ولم یخرج شيء من ذلک أحدا منهم عن العدالة لأنهم مجتهدون اختلفوا في مسائل من محل الاجتهاد کما یختلف المجتهدون بعدهم في مسائل من الدماء وغیرها ولا یلزم من ذلک نقص أحد منهم۔۔ فکلهم معذورون رضي اللّٰه عنهم ولهذا اتفق أهل الحق ومن یعتد به في الإجماع علی قبول شهاداتهم وروایاتهم وکمال عدالتهم رضي اللّٰه عنهم أجمعین۔‘‘
(شرح النووی علی الصحیح لمسلم، کتاب الفضائل، کتاب فضائل الصحابة رضی اللہ عنهم۔149/15 دار إحیاء التراث العربی،بیروت)
ترجمہ: ’’بہرحال سیدنا امیر معاویہؓ تو وہ عادل ، صاحبِ فضیلت اور معزز صحابی ہیں، جہاں تک ان محاربات و مشاجرات کا تعلق ہے جو اُن حضرات کے مابین پیش آئے تو وہاں ہر ایک کو کوئی اشتباہ والتباس تھا، جس کی وجہ سے ہر ایک نے خود کو درست سمجھا ، جبکہ وہ سب کے سب عادل ہیں، اور ان کے مخاصمات و باہمی منازعات میں ان کے پاس تاویل موجود ہے، ایسے کسی معاملہ نے انہیں عدالت سے نہیں نکالا، کیونکہ وہ مجتہد تھے، (جس کا نتیجہ یہ ہے کہ) محلِ اجتہاد میں کچھ مسائل میں ان کا اختلاف ہوگیا، جیسا کہ ان کے بعد بھی مختلف مسائل میں مجتہدین کا اختلاف ہوتا رہتا ہے، اس سے ان میں سے کسی کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ تمام صحابہ کرامؓ معذور ہیں اور اسی وجہ سے اہلِ حق اور ان لوگوں کا کہ اجماع کے باب میں جو لائقِ اعتبار و قابلِ شمار ہے، کا حضرات صحابہ کرامؓ کی گواہیوں اور روایات کے قبول ہونے نیز کمالِ عدالت و تقویٰ پر اتفاق اور اجماع ہے ۔‘‘
لہٰذا سیدنا امیر معاویہؓ سمیت تمام صحابہ کرامؓ نہ صرف روایتِ حدیث میں بلکہ تمام امورِ حیات و معاملاتِ زندگی، احوال و آثار اور اوصاف و خصائل میں عادل اور متقی و پرہیزگار ہیں۔ یہ نظریہ کہ ’’صحابہ کرامؓ اجمعین صرف روایتِ حدیث میں عادل ہیں‘‘ خلاف ِ اہل السنۃ و الجماعۃ باطل اور غلط ہے۔
عدالت صحابہ اور صحابہ کرام کے متعلق دیگر اہل سنت عقائد کے لئے اس کیٹیگری میں موجود تحاریر کا مطالعہ کریں۔
صحابہ کرامؓ کے متعلق عقائد اہلسنت