Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ عورت سے نکاح


سوال: میرا نکاح آج سے تقریبا چودہ، پندرہ سال قبل ایک عورت سے ہوا، اس عورت نے کہا کہ میں لکھنؤ کی رہنے والی ہوں، میرے والدین نے میرا نکاح ایک شخص سے کیا تھا، پھر ناچاقی ہوئی اور میں گھر بیٹھ گئی، اور اسی شوہر سے حاملہ ہوئی، ایک شخص اس کے گھر آتا جاتا تھا، اس کا اثر و رسوخ کافی تھا، اس کی کوششوں سے عدالت سے طلاق لے لی، پھر وہ شخص کراچی لے آیا اور اس کے کہنے کے مطابق اس نے نکاح نہیں کیا تھا بلکہ متعہ کیا تھا، خاوند اوّل شیعہ تھا اور اس کی والدہ بھی شیعہ تھی اور والد سنی تھے، جو اس کے کہنے کے مطابق شیعہ ہوا تھا لیکن بعد کے حالات نے بتایا کہ وہ بھی سنی تھا اور جس خاوند سے متعہ کیا تھا وہ بھی سنی تھا، پھر دوسرے شوہر کو چھوڑ کر مجھے پسند کیا، اور معاملہ اتنا بڑھا کہ ہم نے نکاح بہتر جانا، نکاح سے پہلے ایک دوسرے کے عقائد معلوم کرنا چاہے لیکن اچانک یہ طے ہوا کہ پہلے نکاح کر لیں، میرا نکاح اہلِ سنت طریقے پر ہوا۔

اس کے بعد ہم نے کہا کہ فرقہ پرستی چھوڑ کر سوچیں کہ درست کون سا راستہ ہے؟ چنانچہ آہستہ آہستہ وہ میرے عقائد کی قائل ہونے لگی اور بہت سی باتیں بھی چھوڑ دیں لیکن پھر اچانک وہ اپنے عقائد پر قائم رہ کر مجھے بھی مذہب بدلنے پر زور دینے لگی اس سے میری ایک لڑکی اور ایک لڑکا بھی ہو گئے، بچوں کو بھی اپنے طریقے پر چلانے لگی لڑکی جب بالغ ہوئی تو ایک اور سنی لڑکے کو پھنسا کر اُس کو اپنے والدین سے متنفر کیا اور اس کے ساتھ میری لڑکی سے نکاح کرنے پر راضی ہو گئی، میں احتجاج کرتا رہا لیکن بے سود رہا، اسی دوران اس نے قرآن مجید ہاتھ پر رکھ کر قسم کھائی کہ میں نے پہلے شوہر سے طلاق نہیں لی تھی۔ 

اب عرض یہ ہے کہ آیا قسم کھانے کے بعد بھی میرا نکاح قائم رہا یا نہیں؟ نیز وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سخت توہین کرتی ہے اور قرآن چالیس پارے مانتی ہے اور کہتی ہے کہ دس پارے غبن ہیں جو سیدنا علیؓ کے شان میں تھے، سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں بھی غلط خیالات رکھتی ہے۔ اس عورت کو قسم کھائے ہوئے دو مہینے ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں بھی وہ کئی بار لوگوں سے کہہ چکی ہے کہ میں اس کی بیوی نہیں، بہن ہوں، اور بار بار کہا اور کئی لوگوں کے سامنے اس کی ماں نے بھی کہا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی نہیں بلکہ بہن بھائی ہیں۔ کیا اس صورت میں نکاح باقی ہے؟

جواب: سوال میں جو عقائد اس عورت کے بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے یہ عقیدہ کہ قرآن حکیم میں تحریف ہوئی ہے اور دس پارے ضائع کر دیئے گئے ہیں، کافرانہ عقیدہ ہے، کیونکہ قرآن کریم کی اس آیت کا انکار ہے: انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحفظون۔

اسی طرح اگر یہ عورت سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کو صحیح سمجھتی ہے تو یہ صحیح سمجھنا بھی کافرانہ عقیدہ ہے، کیونکہ ان تمام آیات قرآنیہ کا انکار ہے جن میں اس تہمت کے غلط اور باطل ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔

لہٰذا جب آپ نے اس سے نکاح کیا، اگر اُس وقت بھی اس کے یہی عقائد تھے تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، کیونکہ سوائے کتابیہ کے کسی کافر عورت سے مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا: منهما ان لا تكون المرأة مشركة اذا كان الرجل مسلماً فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى ولا تنكِحُوا الْمشركت حتى یومنّ

چنانچہ اب تک جو آپ کا اس سے تعلق رہا، وہ سب حرام اور گناہ تھا، جس سے بلا تاخیر توبہ واستغفار کریں ورنہ سخت وبال ہو گا۔ اور اگر آپ سے نکاح کے وقت اس کے عقائد کافرانہ عقائد نہیں تھے، بعد میں یہ عقائد اس نے اختیار کئے تو اُس وقت تو نکاح منعقد ہو گیا، مگر جب اس نے ان کافرانہ عقائد کو اپنایا اُس وقت سے آپ کا اس سے نکاح ختم ہو چکا ہے في الهداية اذا ارتد احد الزوجين عن الاسلام وقعت الفرقة بغير طلاق۔ اور نکاح ختم ہوجانے کے بعد جو آپ کا اس سے تعلق رہا وہ شرعاً حرام اور گناہ تھا، اس سے بھی توبہ استغفار ضروری ہے۔

یہ سب تفصیل اُس صورت میں ہے کہ اس نے پہلے شوہر سے طلاق حاصل کر لی ہو، یا خلع کر لیا ہو، یا مسلمان و عدالت نے شرعی بنیاد پر شرعی طریقے سے اس پہلے شوہر اور اس عورت کے درمیان تفریق کر دی ہو، یا اس شوہر کا انتقال ہوچکا ہو اور آپ سے نکاح عدت وفات گزرنے کے بعد کیا ہو۔ اگر مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت پیش نہیں آئی تو یہ عورت اب تک اس پہلے شوہر کے نکاح میں ہے، لہٰذا آپ سے اس کا نکاح کسی حال صحیح نہیں ہوا، خواہ اس عورت کے عقائد کافرانہ ہوں یا نہ ہوں۔

خلاصہ یہ کہ عورت اب آپ کے نکاح میں نہیں ہے اور جب تک وہ اپنے ان کافرانہ عقائد سے توبہ کر کے تجدیدِ ایمان نہ کرے اور شوہر اوّل سے اس کا نکاح ختم ہو جانا تحقیق سے ثابت نہ ہو جائے اس سے آپ کیلئے دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں۔

(فتاویٰ دار العلوم کراچی: جلد 3 صفحہ 209)