Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دھوکہ نمبر 76

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 76

شیعہ مذہب کے حق اور اہل سنت کے مذہب ناحق ہونے کے بارے میں تو گھڑ گھڑ کر روایات بیان کرنا ان کو شائع کرنا تو ان کا وہ وطیرہ ہے ایسی جھوٹی روایات بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی نے امامیہ مذہب کا انکار کر کے ان کے ساتھ محالہ کیا تو وہ فی الفور ہلاک ہو گیا ایسی روایات میں سے ایک روایت وہ ہے جس کا راوی نجاشی ہے وہ نقل کرتا ہے کہ محمد بن احمد بن عبداللّٰہ بن قضاعہ بن مہران حمال ابو عبداللّٰہ شیخ الطائفہ نے امامت کے معاملے میں ابن حمدان امیر موصل کہ روبرو موصل کہ قاضی سے مناظرہ کیا بحث کی گرما گرمی میں بات بڑھتے بڑھتے مناظرہ سے مباہلہ تک آ گئی قاضی نے کہا کیا کل تم مجھ سے مباہلہ کرو گے چنانچہ دوسرے دن دونوں مجلس میں آئے اور مباہلہ کیا قاضی نے اپنا ہاتھ ابن مہران کے ہاتھ میں دیا اور پھر دونوں جدا ہو گئے اور مجلس سے چلے گئے قاضی کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ امیر کے ہاں حاضری دیتا تھا دو روز گزر گئے مگر دور قاضی امیر کے پاس نہیں آیا امیر نے اپنے کسی معتمد کو حال دریافت کرنے بھیجا تو معلوم ہوا کہ قاضی جوں ہی مجلس سے نکلا نجار نے آ گھیرا اور اس کا وہ ہاتھ جو اس نے مباہلہ کے وقت ابن مہران کے ہاتھ میں دیا تھا سوجھ کر سیاہ پڑ گیا تھا اور دوسرے روز قاضی کا انتقال ہو گیا غالباً ابن مہران نے کسی طرح چلاکی سے کسی انگلی میں زہر انجیکٹ کر دیا ہو گا (نعمانی)

غرض اسی قسم کی جھوٹی روایات نقل کرتے ہیں جو سراسر افتراء ہے اہل سنت نے اس قصے کو بے اصل بتایا ہے بعض نے کہا ہے کہ ہاتھ سوج کر مرنے والا مہرانی حمال تھا وہ اللّٰه اعلم بحقیقتہ الحال تاریخ سے البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہرانی حمال دنیا طلب اور دروغ گو شخص تھا جھوٹ بولنا اور افتراء پروازی اس کی عادت تھی اسی نے یہ قصہ گھڑ کر شیعوں کے حق میں نقل کر دیا ہو تو کوئی عجب نہیں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ قاضی امیر المومنینؓ کی امامت کا منکر ہو اور انکار امامت کو اہل سنت بھی غلط کہتے ہیں اور اصل امامت حضرت امیرؓ میں تو وہ بھی شیعوں سے متفق ہیں بحث و اختلاف تو تقدیم و تاخیر میں ہے قاضی کے انکار امامت کا کرینہ یہ ہو سکتا ہے کہ موصل کے لوگ شام کے پڑوسی ہونے کے سبب نواصب کے عقیدہ کی طرف مائل تھے ممکن ہے قاضی بھی انہی میں ہو۔