Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اھل التقوی (پرہیز گار)

  نقیہ کاظمی

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اھل التقویٰ (پرہیز گار)

اِذۡ جَعَلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الۡجَـاهِلِيَّةِ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَا‌ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
(سورۃ الفتح: آیت، 26)
ترجمہ: جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی اور ضد بھی جاہلیت کی تو اللہ نے اپنے پیغمبر اور مؤمنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان کو پرہیز گاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اسی کے مستحق اور اہل تھے اور خدا ہر چیز سے خبردار ہے۔
تشریح: اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ تقویٰ تھے لہٰذا جو بھی ان کو اہلِ ضلال کہتا ہے وہ زندیق ہے۔
لَيۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَةِ وَالۡكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ‌ وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا وَالصّٰبِرِيۡنَ فِى الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ۞
(سورۃ البقرۃ: آیت، 177)
ترجمہ: نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں، اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جب کوئی عہد کر لیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں، اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر و استقلال کے خوگر ہوں ایسے لوگ ہیں جو سچے کہلانے کے مستحق ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔
یعنی رُوئے سخن ان اہلِ کتاب کی طرف ہے، جنہوں نے قبلے اور فرمانبردار اصحابِ رسول پر تبرأ کرنے کے مسئلے پر بحث و مباحثہ اس انداز سے شروع کر رکھا تھا جیسے دین میں اس سے زیادہ اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ قبلے کے مسئلے کی جتنی وضاحت ضروری تھی وہ ہو چکی ہے، اب آپ کو دین کے دوسرے اہم مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیئے اور اہلِ کتاب سے بھی یہ کہنا چاہیے کہ قبلے کے مسئلے پر بحث سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اپنا ایمان درست کرو اور وہ صفات پیدا کرو جو ایمان کو مطلوب ہیں۔