Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الراشدون (ہدایت یافتہ)

  نقیہ کاظمی

دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الرَّاشِدُونَ (ہدایت یافتہ)

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
ترجمہ: اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑ جاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آ چکے ہیں۔
تشریح: اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں، بلکہ رائے قائم کر کے اس پر اصرار سے منع فرمایا گیا تھا، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آنحضرتﷺ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تمہاری ہر رائے پر عمل ضرور کریں، بلکہ آپﷺ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، اور اگر وہ تمہاری رائے کے خلاف ہو، تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہیے، کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ سیدنا ولید بن عقبہؓ کے واقعے میں ہوا کہ وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بنو مصطلق لڑائی پر آمادہ ہیں، اس لیے ان کی رائے تو یہی ہوگی کہ ان سے جہاد کیا جائے، لیکن اگر آنحضرتﷺ ان کی رائے پر عمل کرتے تو خود مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ الخ۔
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے اس کے باوجود فرمایا: اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہﷺ کے بنفسِ نفیس موجود ہونے اور آپﷺ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپﷺ اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا ہے درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننی چاہیئے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آواز دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کا رروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہﷺ اور آپﷺ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اسلئے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو ! تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔
لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ الخ۔
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبین ہے اس لیے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ الخ۔
(سورۃ البقر: آیت، 185)
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اور رسول کو بھی تمہارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں فرمایا۔ 
عَزِيۡزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيۡصٌ عَلَيۡكُمۡ الخ۔
(سورۃ التوبۃ: آیت، 128)
ترجمہ: اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حصر رکھنے والا ہے۔ اس کے برعکس اگر رسول تمہاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑجاؤ گے، کیونکہ اول تو تمہاری سب کی بات ایک نہیں ہوگی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا؟ پھر تمہارا علم ناقص ہے، نہ تمہیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لیے فائدہ مند کہہ رہے ہو اور وہ انجام کے لحاظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ کائنات کا نظام درست اس لیے چل رہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے فرمایا:
وَلَوِ اتَّبَعَ الۡحَـقُّ اَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّ‌ الخ۔ 
(سورۃ المؤمنون: آیت، 71)
ترجمہ: اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقیناً بگڑ جائیں۔
 لَوْ يُطِيعُكُمْ فِی كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ الخ۔ 
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمہارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا:
فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ‌ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 159)
ترجمہ: سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ مگر یاد رکھو تمہارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا:
فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ الخ۔  
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 159)
ترجمہ: پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسہ کرے۔ 
وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ الخ۔
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
ایمان سے مراد یہاں رسول اللہﷺ کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالاِرکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور ایمان یعنی رسول اللہﷺ کی اطاعت کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں ایسا مزین کر دیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہوگئے۔ اس لیے بعض اوقات بتقاضیٰ بشریت تم سے غلطی ہو جاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔
وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ الخ۔
ترجمہ: یعنی کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لیے نا پسندیدہ بنا دیا رازی نے فرمایا: ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالا ارکان تینوں شامل ہیں کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔ شیخ عبد الرحمٰن السعید نے فرمایا: کفر کا معنیٰ تو ظاہر ہے فسوق سے مراد بڑے گناہ کبائر اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔
أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
یعنی یہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔ الف لام بیان کمال کے لیے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخالف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بےحد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے جو اس نے انہیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت دی۔