مشتبہ حالت والی میت کو غسل دینے اور اس پر نماز جنازہ پڑھنے کا حکم
اگر کسی جنگ میں مسلمان اور کافر ایک ساتھ مرجائیں تو جن نعشوں پر اسلام کی علامت (ختنہ، زیر ناف بالوں کی صفائی، خضاب، لباس وغیرہ) موجود ہوں تو وہ مسلمانوں کے حکم میں ہوں گے۔ اور اگر سب کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اکثریت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اکثر مسلمان ہو تو غسل تکفین و تدفین اور نمازِ جنازہ میں تمام نعشیں برابر ہیں۔ لہٰذا سب کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن کیا جائے گا، تاہم اگر کثرت کافروں کی ہو تو غسل اور تکفین مسلمانوں کی طرح کی جائے گی، البتہ نہ اُن پر نماز پڑھی جائے گی اور نہ ہی اُن کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن کیا جائے۔
اگر مسلمان اور کافر برابر ہوں تو غسل دینے میں تو اتفاق ہے اور نمازِ جنازہ کے بارے میں راجح قول نہ پڑھنے کا ہے۔ اس لئے کہ مسلمان کا جنازہ چھوڑنا بعض صورتوں (قطع الطریق، بغاوت وغیرہ) میں جائز ہے۔ لیکن کافر کا جنازہ پڑھنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔
دفن کرنے کے بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ تاہم فقہیہ ابو جعفر ہندوانیؒ کا قول ہے کہ: ان کے لئے مسلمانوں اور کافروں کے مقبرے سے الگ کوئی اور مقبرہ مختص کر دیا جائے۔
اگر دارالاسلام میں کوئی مقتول مل جائے تو حنفیہ کے صحیح قول کے مطابق چاہے اس پر اسلام کی علامت ہو یا نہ ہو، اس کو مسلمان سمجھ کر تکفین و تدفین کا معاملہ کیا جائے گا۔ تاہم دارالحرب یعنی کافروں کے ملک میں ملنے والی نعش پر اسلام کی علامت ضرور دیکھی جائے گی۔
(فتاویٰ عثمانیه: جلد 3 صفحہ 197)