سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض رکھنے کی سزا
مولانا اقبال رنگونی صاحبشہادتِ سیدنا عثمان غنیؓ
قسط ششم
سیدنا عثمان غنیؓ کے ساتھ بُغض رکھنے کی سزا
حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرنا ان کے بارے میں زبان نہ کھولنا، میرا ان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، ان کے ساتھ محبت میری محبت اور ان کا بغض میرا بغض ہے، آپﷺ نے یہ بات صرف ارشاد ہی نہیں فرمائی بلکہ اس کا عملاً مظاہرہ بھی فرمایا۔ حضرت جابر بن عبداللّٰہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کا جنازہ آیا اور حضورﷺ سے درخواست کی گئی کہ آپ اس کی نماز پڑھا دیں، آپﷺ نے نماز پڑھانے سے انکار فرما دیا۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص حضرت عثمانؓ سے بغض و کینہ رکھتا تھا پس اللّٰہ نے بھی اس کے ساتھ عداوت رکھی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنیؓ خلافت کے آخری دنوں میں خطبہ دے رہے تھے، آپ کے ہاتھ میں عصا تھا، اس وقت مفسدین اور باغیوں کا ایک گروہ وہاں موجود تھا، ان میں سے جحیاہ نامی ایک شخص اٹھا اور اس نے آپؓ کے ہاتھ سے عصا چھین لیا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اسے توڑ دیا۔ اس کے کچھ دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ آکلۃ (یعنی کینسر) کے مرض میں مبتلا ہوگیا اور یہ مرض اسکی ٹانگ میں شروع ہوا لوگوں نے دیکھا کہ اسکی ٹانگ میں کیڑے پڑے ہیں۔
فتناول عصا عثمانؓ وکسرھا رکبتیہ فاخذتہ الآکلۃ فی رجلہ۔
جناب قلابہ کہتے ہیں کہ میرا ملک شام جانا ہوا تو وہاں میں نے ایک شخص کو کراہتے ہوئے سنا کہ ہائے افسوس آگ۔ ہائے افسوس آگ۔ میں اسکے پاس گیا تو دیکھا کہ اسکے دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں قدموں کے اوپر سے کٹی ہوئی ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے بھی اندھا ہے اور وہ منہ کے بل پڑا ہوا یہ الفاظ کہہ رہا تھا میں نے جب اس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:
انی کنت ممن دخل الدار فلما دنوت منہ صرخت زوجتہ فلطمتہا فقال مالک قطع اللّٰہ یدیک و رجلیک و اعمی عینیک و ادخلک النار، فاخذنی رعدۃ عظیمۃ و خرجت ھاربا واصابنی ماتری ولم یبق من دعائہ الا النار قال فقلت لہ بعدا لک و سحقا
میں باغیوں اور مفسدوں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے مکان میں داخل ہوا تھا، جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ نے زور سے چیخ ماری تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ حضرت عثمانؓ نے جب یہ بات دیکھی تو کہا تجھے کیا ہوا ہے، اللّٰہ تیرے دونوں ہاتھ اور ٹانگوں کو کاٹ دے اور تجھے اندھا کردے اور تجھے آگ میں داخل کرے۔ چنانچہ مجھے ایک زلزلے نے آ دبوچا اور میں نکل بھاگا اور یہ مصیبت مجھ پر گر پڑی جو تو دیکھ رہا ہے اور اب ان کی بدعا میں صرف جہنم کی آگ کا انتظار ہے۔ میں نے یہ بات سن کر اسے کہا کہ چل مجھ سے دور ہوجا۔ تجھ پہ لعنت اور ذلت ہو۔
عثمانؓ پر ہاتھ اٹھانے والے کا ہاتھ سوکھ جانا
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں امام ابن سیرین رحمۃ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے طواف کعبہ کے دوران ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ اے اللّٰہ مجھے بخش دے اور مجھے یقین ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا۔
میں نے اس سے اس عجیب دعا کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حضرت عثمانؓ کو تھپڑ ماروں گا، چنانچہ جب انہیں شہید کیا گیا اور ان کی میت ان کے گھر پر تھی تو میں بھی داخل ہونے والوں کے ساتھ وہاں داخل ہوا جب میں نے دیکھا کہ ان کی میت کے آس پاس کوئی نہیں تو میں ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹا کر تھپڑ مار دیا اور باہر نکلا ہی تھا کہ اچانک میرا وہ ہاتھ خشک ہو گیا۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے جب اس کے ہاتھ کو چھوا تو وہ بری طرح سوکھ گیا تھا گویا کہ وہ لکڑی ہے۔
قال محمد بن سیرین رأیتھا یابسۃ کانھا عود۔
( تاریخ دمشق جلد16 صفحہ250)
حضرت عثمانؓ کے گستاخوں پر پاگل پن کا عذاب
یزید بن حبیب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کی خبر ملی کہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر پر چڑھائی کی تھی وہ سب کے سب مجنون اور پاگل ہوگئے تھے۔
ان عامۃ الرکب الذین ساروا الی عثمانؓ جنوا۔
سعید بن مسیب نے کہا کہ یہ شخص حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور میں اسے اس گستاخی سے منع کرتا تھا مگر وہ باز نہ آیا تو میں نے کہا:
اللّٰہم ھذا یسب الرجلین قد سبق لھما ما تعلم اللّٰہم ان کان یسخطک ما یقول فیھما فارنی فیہ آیۃ فاسود وجہہ کما تری۔
حضرت عثمانؓ کا گستاخ بجلی کی لپیٹ میں
ابو نضرۃ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کو برا کہہ رہا تھا، ہم نے اس کو روکا کہ حضرت عثمانؓ کے بارے میں اس طرح کی گفتگو نہ کرو تو اس نے ہماری بات نہ سنی اور آپ کی گستاخی سے باز نہ آیا۔ اتنے میں اچانک ایک زوردار بجلی چمکی اور اس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسے جلا دیا۔
فجاءت صاعقۃ فاحترقتہ۔
(مختصر تاریخ دمشق جلد16 صفحہ268)
فامر باحراق قوم منھم فی حفرتین۔
(الفرق بین الفرق صفحہ177)
(صحیح بخاری جلد1 صفحہ423)
شیعہ عالم ابو عمرو احمد بن عبدالعزیز لکھتا ہے کہ امیرالمومنین (حضرت علیؓ نے ابن سباء سے کہا) کہ تجھ پر شیطان سوار ہے تو اپنی ان حرکتوں سے باز آجا اور توبہ کرلے لیکن اس نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا تو آپ نے اسے تین دن قید میں رکھا اور اس کے بعد زندہ جلا دیا۔
(رجال کشی جلد2 صفحہ183)
تاریخ طبری سے معلوم ہوتا ہے کہ بصرہ کے جو لوگ اس فساد میں شریک ہوئے وہ سب کے سب بھی بالآخر قتل کئے گئے ان میں سے کوئی بھی نہ بچا، اللّٰہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا انتقام لیتے ہیں اور انہیں دنیا میں بھی نشانہ عبرت بناتے ہیں۔ سیدنا عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والوں میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جسے اس دنیا میں خون اور ذلت کا عذاب نہ دیکھنا پڑا ہو، ان میں سے ہر ایک یکے بعد دیگرے خدا کی گرفت میں آیا اور اس نے اللّٰہ کے نیک بندے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی دنیوی سزا بھی دیکھی اور آخرت میں پکڑ اور وہاں کی رسوائی و ذلت تو آپ کا ہر گستاخ دیکھے گا۔ یہ سیدنا عثمانؓ کی بدعا تھی آپ نے اللّٰہ کے حضور عرض کیا تھا کہ اے اللّٰہ تو ان سب کو گن رکھنا، ان سب کو اپنے عبرتناک انجام سے دوچار کرنا اور ان میں سے کوئی باقی نہ بچے۔
اللّٰہم احصھم عددا و اقتلھم بددا ولا یبق منھم ابدا۔
(رواہ ابن سعد جلد3 صفحہ50)
حضرت امام مجاہد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ کے خون میں جو بھی شریک ہوا اللّٰہ نے سب کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا تھا۔
فقتل اللّٰہ منھم من قتل فی الفتنۃ۔
(مختصر تاریخ دمشق جلد16 صفحہ206)
(موسوعہ آثار الصحابہؓ جلد2 صفحہ33)
رنگ جب محشر میں لائے گی تو اڑ جائے گا رنگ
یہ نہ سمجھیے کہ سرخئ خون شہیداں کچھ نہیں۔نہیں۔