شیعہ اعتراض: حضرت عمررضی اللہ عنہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو اللہ کا دشمن کہتے تھے۔ اس کو خائن کہتے تھے۔(المستدرک للحاکم)۔
جعفر صادقشیعہ اعتراض: حضرت عمرؓ ابو ہریرۃؓ کو اللہ کا دشمن کہتے تھے۔ اس کو خائن کہتے تھے۔(المستدرک للحاکم)۔
حضرت عمر، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما کو اللہ کا دشمن اور خائن کہتے تھے حالانکہ یہ ایک غلط فہمی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لاحق ہوئی اور انہوں نے جذبات میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بارے ایسی بات کہہ دی اور ایک مرتبہ ہی ایسی بات ان کی زبان سے نکلی۔ طبقات ابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوہریرۃ کو بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو ان کے پاس بارہ ہزار درہم تھے۔
حضرت عمر نے ان سے کہا کہ اے دشمن خدا، یہ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا آپ نے بیت المال میں خیانت کی ہے؟ حضرت ابو ہریرۃ نے جواب دیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور جہاں تک کمائی کا معاملہ ہے تو یہ میرے گھوڑوں اور تیروں کی کمائی ہے اور میرا ذاتی مال ہے لیکن حضرت عمر نے ان سے یہ رقم لے لی۔ بعد میں حضرت عمر نے انہیں دوبارہ گورنر بنا کر بھیجنا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر نے اصرار کیا تو پھر یہ جواب دیا کہ کیا فائدہ اس گورنری کا جس کے بدلے مجھ سے میرا مال لے لیا جائے۔
تو حضرت عمر کا انہیں دوبارہ گورنر بنانے پر اصرار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دل سے انہیں خائن یا اللہ کا دشمن نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ حضرت عمر کے مزاج کی سختی تھی کہ جس کا اظہار ان کی طرف سے ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحرین کا گورنر بنایا تھا اور آپ کے پاس کافی مال تھا۔
ابن سیرین کہتے ہیں :
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بحرین کا گورنر بنایا، آپ وہاں سے دس ہزار لائے۔ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے دشمن، اور اللہ کی کتاب کے دشمن! یہ مال تم نے اپنے لیے خاص کر رکھا ہے؟
تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بولے! میں نہ ہی اللہ کا دشمن ہوں او رنہ ہی اس کی کتاب کا، بلکہ میں ان دونوں کے علاوہ کا دشمن ہوں ۔ آپ سے پوچھا گیا: یہ مال آپ کے پاس کہاں سے آیا؟
تو فرمایا: یہ میرے گھوڑوں کی افزائش نسل ہوئی، اور غلاموں کی کمائی ہے، یہی بڑھتے رہے ہیں ۔
جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ آپ کی بات درست تھی۔ پھر اس کے بعد دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو والی مقرر کرنا چاہا تو آپ نے انکار کر دیا۔‘‘
[تاریخ دمشق: ۶۷؍۳۷۰۔ البدایہ والنہایۃ:۸؍۱۱۳۔]
آپسی تعلقات میں غلط فہمیاں ہونا اور نیک نیتی کی بنا پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ دینا کوئی معیوب بات نہیں ہوتی، جبکہ دوسرا فریق بھی خود کو درست ہی سمجھتا ہو۔
قرآن کریم ، اہل سنت و اہل تشیع کتب میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے کوہ طور سے واپسی پر اپنی قوم کے گمراہ ہونے کا ذمہ دار حضرت ھارون علیہ السلام کو ٹھرانا اور نہ صرف انہیں برا بھلا کہنا بلکہ ہاتھا پائی تک کردینا مذکور ہے۔
♦️ قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴿٩٤﴾
♦️ کہنے لگے کہ بھائی میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔ میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا۔
(سورت طه 94)
حضرت موسی علیہ السلام نے غصے میں حضرت ہارون علیہ السلام کے سر اور داڑھی کو پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔اس غلط فہمی ہوجانے پر بلکہ جسمانی لڑائی ہوجانے کے باوجود ہم کسی نبی کو مورد الزام قرار نہیں دے سکتے کیونکہ دونوں معصوم تھے۔
اہل تشیع کی معتبر روایات کے مطابق سیدہ فاطمہ سے نبی کریم ناراض ہوئے، خود سیدہ فاطمہ کئی بار سیدنا علی سے ناراض ہوئیں، انہیں سخت الفاظ کہے ۔۔۔ اس کے باوجود ہم کسی کو بھی قصور وار کہنے کی جرآت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ عارضی معاملات تھے جن کا وقوع پذیر ہونا ممکنات میں سے ہے۔
اہل تشیع کتب کے مطابق سیدہ فاطمہ حضرت علی سے چار مواقع پر سخت ناراض ہوئیں اور سخت الفاظ ادا فرمائے۔
1️⃣ حضرت علی کی طرف سے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ۔ اس موقعہ پر نبی کریم بھی سخت ناراض ہوئے۔
2️⃣ حضرت علی نے ایک باغ فروخت کیا اور تمام رقم خیرات کردی۔
3️⃣ گھر میں ایک کنیز کی گود میں حضرت علی کا سر دیکھ کر۔
4️⃣ حضرت علی گھر میں بیٹھے تھے اور سیدہ فاطمہ کی خطبہ فدک سے واپسی۔
اسی طرح صحابہ کرام کے آپسی تعلقات میں بھی کئی بار اس قسم کی غلط فہمیاں ہوجاتی تھیں بوجہ ایمان ان کی طرف سے دوسرے کو مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا تھا لیکن بعد میں حقائق واضح ہوجانے پر تعلقات معمول پر آجاتے تھے۔ ان کے درمیان عارضی دلی رنجشیں ہونا عین فطرت انسانی ہے، دائمی نفرت، عناد یا نفرتیں ہونا ممکن نہیں ہیں۔