Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں مؤقف فاروقی

  علی محمد الصلابی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں مؤقف فاروقی

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ میں اس بات کا برابر خواہش مند رہا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے:

اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا‌۞

(سورة التحریم: آیت، 4)

ترجمہ: ’’(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں۔‘‘

یہاں تک کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی آپؓ کے ساتھ حج کیا۔ جب ہم راستہ پر چل رہے تھے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ راستہ سے تھوڑا سا ہٹے اور میں بھی آپؓ کے ساتھ لوٹا لے کر راستہ سے کنارے ہوا، آپؓ نے قضائے حاجت کی، پھر میرے پاس آئے، میں نے آپؓ کے ہاتھ پر پانی ڈالا اور آپؓ نے وضو کیا۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! اللہ کے رسولﷺ کی وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے:

اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا‌۞

(سورة التحریم: آیت، 4)

سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اے ابنِ عباسؓ تم پر تعجب ہے، زہری کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! انہوں نے جو پوچھا تو آپﷺ نے اسے ناپسند فرمایا، تاہم اسے آپﷺ نے چھپایا نہیں، فرمایا: وہ حفصہ اور عائشہ ہیں۔ پھر آپؓ تفصیل بتانے لگے اور کہا: ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو ایسے لوگوں کو پایا کہ ان پر ان کی عورتیں غالب ہوتی ہیں۔ پھر ہماری عورتیں بھی ان کی دیکھا دیکھی وہی کام کرنے لگیں۔ آپؓ فرماتے ہیں: میرا گھر عوالی میں بنو امیہ بن زید کے قبیلہ میں تھا، میں ایک دن اپنی بیوی پر غصے ہوا تو وہ مجھ سے بحث وتکرار کرنے لگی، میں نے اسے ڈانٹا کہ تم مجھ سے بحث و تکرار کرتی ہو۔ اس نے کہا: میں آپؓ سے بحث و تکرار کرتی ہوں تو آپ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں، حالانکہ اللہ کی قسم! نبیﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ آپﷺ سے بحث و تکرار کر لیتی ہیں اور ان میں سے بعض تو دن بھر آپﷺ سے بات بھی نہیں کرتیں۔

آپؓ کا بیان ہے کہ میں چلا اور حفصہ کے پاس پہنچا اور کہا: کیا تم رسول اللہﷺ سے بحث و تکرار کر لیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں، میں نے کہا: اور کیا تم دن بھر آپﷺ سے بات بھی نہیں کرتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ سخت خسارے اور نقصان میں ہے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے مامون ہے کہ رسول اللہﷺ کے غصہ کی وجہ سے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائے؟ تم رسول اللہﷺ سے بحث و مباحثہ مت کرنا اور نہ آپﷺ سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جو تمہیں ضرورت ہو وہ مجھ سے مانگو اور تمہیں یہ چیز دھوکے میں نہ ڈال دے کہ عائشہ تمہارے مقابلہ میں آپﷺ کو زیادہ محبوب ہیں اور ان کا درجہ بلند ہے۔

آپؓ فرماتے ہیں: میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم اپنی اپنی باری سے آپﷺ کے پاس آتے تھے، ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں آتا۔ وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی اسی طرح کرتا۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی اپنے گھوڑوں کو نعل لگا رہے ہیں تاکہ ہم سے جنگ کریں، ایک دن میرا (انصاری) ساتھی شام کے وقت میرے پاس آیا اور میرا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر مجھے آواز دی، میں اس کی طرف گیا، اس نے کہا: ایک بہت بڑا حادثہ پیش آ گیا! میں نے کہا: وہ کیا؟ کیا غسانیوں نے حملہ کر دیا؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا اور پیچیدہ! نبی کریمﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ میں نے کہا: حفصہ بہت خسارے اور بربادی میں ہوئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ جب میں نے صبح کی نماز پڑھی تو اپنے اوپر اپنے کپڑوں کو باندھا، پھر حفصہ کے پاس گیا۔ دیکھا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا: کیا تم کو رسول اللہﷺ نے طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم ، ہاں آپﷺ اس کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں آپﷺ کے ایک کالے رنگ کے غلام کے پاس آیا اور کہا کہ آپﷺ سے عمر کے لیے اجازت مانگو، غلام اندر داخل ہوا، پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپﷺ سے آپؓ کے بارے میں ذکر کیا لیکن آپﷺ خاموش رہے۔ میں وہاں سے لوٹا اور منبر کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں ایک جماعت موجود ہے، اس میں بعض لوگ رو رہے ہیں۔ میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا، لیکن دوبارہ مجھ پر وہ فکر غالب آئی جس میں ڈوبا ہوا تھا اور میں غلام کے پاس آیا اور اس سے کہا: عمر کے لیے اجازت مانگو، وہ اندر داخل ہوا، پھر نکل کر باہر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپﷺ سے آپؓ کے بارے میں ذکر کیا لیکن آپﷺ خاموش رہے۔ پھر میں جا کر منبر کے پاس بیٹھ گیا، وہی فکر دامن گیر ہوئی جس میں ڈوبا ہوا تھا، اس لیے پھر اس غلام کے پاس پہنچا اور کہا: عمر کے لیے اجازت مانگو، وہ اندر گیا، پھر واپس باہر آ کر کہا: میں نے آپؓ کا ذکر کیا، لیکن آپﷺ خاموش رہے۔ پھر میں مڑ کر جانے لگا، اتنے میں غلام نے مجھے پکارا، اور کہا: اندر تشریف لے جائیں آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں اندر داخل ہوا اور آپﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ رسی کی بٹی ہوئی چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس کے نشانات آپ کے پہلوؤں پر نمایاں تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: اللہ اکبر، بھلا ہوتا کہ آپ ہم کو دیکھتے اے اللہ کے رسول! ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب تھے، جب ہم مدینہ آئے تو ان لوگوں کو دیکھا کہ جن پر ان کی عورتیں غالب ہیں۔ پھر ہماری عورتیں بھی ان کی دیکھا دیکھی ویسا ہی کرنے لگیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر غصے ہوا، وہ مجھ سے بحث و مباحثہ کرنے لگی، میں نے اسے ڈانٹا کہ مجھ سے بحث کرتی ہے تو اس نے کہا: میں آپ سے بحث ومباحثہ کرتی ہوں تو آپ مجھے کیوں ڈانٹتے ہیں؟ حالانکہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کی بیویاں آپﷺ سے بحث و مباحثہ کر لیتی ہیں اور ان میں ایسی بھی ہیں جو دن بھر آپﷺ سے گفتگو نہیں کرتیں۔ میں نے کہا: جس نے ایسا کیا وہ سخت نقصان اور خسارے میں ہے۔ کیا ان میں سے کوئی خود کو اس بات سے محفوظ پاتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے غصہ کی وجہ سے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائے؟ اللہ کے رسولﷺ یہ سن کر مسکرانے لگے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر میں حفصہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دھوکا مت کھاؤ تمہاری پڑوسن (یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) تمہارے مقابلہ میں اللہ کے رسولﷺ کو زیادہ محبوب ہیں اور ان کا درجہ بلند ہے۔ اللہ کے رسولﷺ دوبارہ مسکرانے لگے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ سے کچھ دیر انسیت حاصل کرسکتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! سیدنا عمرؓ کا کہنا ہے کہ پھر میں بیٹھ گیا اور گھر میں نگاہ دوڑائی، اللہ کی قسم! اس میں مجھے تین چمڑوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ آپﷺ کی امت پر کشادگی کر دے جس طرح فارس و روم والوں پر دولت کی بہتات کی گئی ہے، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ آپﷺ برابر ہو بیٹھے اور فرمایا:

أَفِیْ شَکٍ أَنْتَ یَابْنَ الْخَطَّابِ؟ اُولٰئِکَ قَوْمخ عجلت لَہُمْ طَیِّبَاتِہِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔

ترجمہ: ’’اے ابن خطاب! کیا تم شک میں ہو؟ وہ ایسی قوم ہے کہ اس کے لیے اس کی کشادگی و مرغوبات کو دنیوی زندگی میں جلدی دیا گیا ہے۔‘‘

میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری بخشش کے لیے دعا کر دیجیے۔

آپﷺ نے ان (بیویوں) پر سخت غصہ کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ ان کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔

مدنی معاشرہ میں فاروقی زندگی سے متعلق یہاں مذکورہ احوال و کوائف کو جمع کرنے کی اللہ نے توفیق دی، حالانکہ آپ نے رسول اللہﷺ کے فیض تربیت سے بلند مقام حاصل کیا جس سے آپؓ کی فضیلت، دین، اور علم میں نکھار آ گیا اور اس موضوع کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔