آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کا رسول اللہﷺ کی رائے کے موافق ہونا
علی محمد الصلابیآپؓ کی رائے کا رسول اللہﷺ کی رائے کے موافق ہونا
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے، اس جماعت میں ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، رسول اللہﷺ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے اور واپس آنے میں تاخیر کی، ہم خوف زدہ ہوئے کہ کہیں آپﷺ کو ہماری غیر موجودگی میں کوئی نقصان نہ پہنچا دے، ہم گھبرائے، اور تلاش کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا۔ میں رسول اللہﷺ کی تلاش میں نکل گیا اور بنو نجار انصاری کے باغ کے پاس آیا، میں اس کے چاروں طرف گھوما لیکن اس کا کوئی دروازہ نہیں پایا، لیکن ایک نالی نظر آئی جو باہر کے کنویں سے باغ کے بیچ میں جا رہی تھی۔ میں نے داخل ہونے کے لیے خود کو لومڑی کی طرح سمیٹ لیا اور اندر داخل ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابوہریرہؓ؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپﷺ نے فرمایا: ’’فَمَا شَأنُکَ؟‘‘، ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کہا: آپﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے، پھر آپﷺ اچانک اٹھ گئے اور واپس آنے میں تاخیر کی، تو ہم ڈر گئے کہ مبادا کہیں آپﷺ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں غائب نہ کر دیے جائیں۔ ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا۔ میں اس باغ کے پاس آیا، اور لومڑی کی طرح خود کو سمیٹ کر یہاں پہنچا ہوں اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اے ابوہریرہؓ! … اور مجھے اپنے دونوں جوتے دیے ۔
اِذْہَبْ بِنَعْلَیَّ ہَاتَیْنِ ، فَمَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَّرَائِ ہٰذَا الْحَائِطِ یَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہٗ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔…
’’میرے ان دونوں جوتوں کو لے جاؤ اور اس باغ کے پیچھے جو شخص بھی ایسا ملے کہ دل کی سچائی سے یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ چنانچہ میری ملاقات سب سے پہلے سیدنا عمرؓ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا: اے ابوہریرہؓ! یہ دونوں جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ دونوں جوتے رسول اللہﷺ کے ہیں۔ آپﷺ نے اسے دے کر مجھے بھیجا ہے کہ ایسے جس آدمی سے ملو جو دل کی سچائی سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں اسے میں جنت کی بشارت دے دوں۔ سیدنا عمرؓ نے میرے سینے پر مارا اور میں سرین کے بل گر گیا اور انہوں نے کہا: اے ابوہریرہؓ! لوٹ جاؤ۔ میں لوٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا اور عمرؓ بھی میرے پیچھے ہی آئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مَالَکَ یَااَبَاہُرَیْرَۃَ؟…’’اے ابوہریرہؓ! تم کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں عمر سے ملا اور جو بات کہہ کر آپ نے بھیجا تھا میں نے انہیں وہ بات بتائی
(احمد شاکر کی تحقیق سے مطبوعہ نسخہ میں ’’رباتہن‘‘ ہے۔)
انہوں نے میرے سینے پر اتنے زور سے مارا کہ میں پیچھے کے بل گر پڑا، اور انہوں نے کہا: لوٹ جاؤ۔ آپﷺ نے فرمایا: یا عمر ما حملک علی ما فعلت؟ ’’اے عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپﷺ نے اپنے دونوں جوتے دے کر ابوہریرہؓ کو بھیجا ہے کہ وہ ایسے جس آدمی سے بھی ملیں جو دل کی سچائی سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اسے جنت کی بشارت دے دیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ آپؓ نے کہا: ایسا نہ کیجیے، مجھے خوف ہے کہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہو کر اسی پر بھروسہ نہ کر لیں اور عمل چھوڑ دیں، آپ ان کو عمل کرنے دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’فَخَلِّہِمْ‘‘ یعنی تب انہیں چھوڑ دو۔
(اس کی سند صحیح ہے، اور شیخین کی شرط پر ہے۔ مسند احمد: حدیث، 185 کاش مؤلف یہاں صحیحین میں وارد الفاظ کو نقل کر دیتے۔ مترجم)