کیا مالک اشتر قتل عثمان رض کو ناپسند کرتا تھا؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندکیا مالک اشتر قتل عثمان رض کو ناپسند کرتا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⬅️حَدَّثَنَا *عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُونُسَ* ، قَالَ : حَدَّثَنَا *بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ* ، قَالَ : حَدَّثَنَا *أَبُو بَكْرٍ* ، قَالَ حَدَّثَنَا *أَبُو أُسَامَةَ* ، قَالَ : حَدَّثَنِي *الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ* ، قَالَ حَدَّثَنَا *عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ* ، قَالَ : حَدَّثَنِي *أَبِي* قَالَ__الخ
اس صحیح سند سے ایک طویل حدیث میں، *ملعون، مالک اشتر* اور *اُم المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا* کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
قَالَ ( *مالك الأشتر* ) : اذْهَبْ بِهِ إِلَى عَائِشَةَ وَقُلْ : يُقْرِئُكَ ابْنُكَ مَالِكٌ السَّلَامَ , وَيَقُولُ : خُذِي هَذَا الْجَمَلَ فَتَبَلَّغِي عَلَيْهِ مَكَانَ جَمَلِكِ , فَقَالَتْ : *لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي*
ترجمہ:
مالک اشتر نے کہا ، یہ اونٹ عائشہ (رضی الله عنها) کی طرف لے جاؤ، اور کہنا آپ کا بیٹا مالک آپ کو سلام کہتا ھے، تو *اُم المؤمنین عائشہ رضی الله عنها* نے جواب میں کہا: یہ اونٹ پکڑو اور یہاں سے نو دو گیارہ ھوجاؤ، اور میری طرف سے مالک اشتر سے کہنا، *لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي* کہ الله اُس پر کبھی سلامتی نہ کرے، وہ میرا بیٹا ھے ھی نہیں".
[مصنف ابن أبي شيبة: 37090]-وسندہ صحیح
⬅️♦️ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مالک بن حارث الاشتر کو بدعا "اللہ اُس پر کبھی سلامتی نہ کرے" ♦️
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مالک بن حارث الاشتر نے سلام بھیجا اور ساتھ بطور تحفہ ایک اونٹ بھیجا اور کہا کہ آپ کا بیٹا مالک آپ کو سلام بھیجتا ہے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قاصد سے کہا یہ اونٹ واپس لے جاؤ اور مالک کو میرا پیغام دے دینا کہ میں تمہیں بدعا دیتی ہوں اللہ تم پر کبھی سلامتی نا کرے وہ میرا بیٹا ہی نہیں
(المصنف ابن ابی شیبہ کتاب الجمل جلد 7 صفحہ 534)
⬅️**اُم المؤمنین صفیہ رضی الله عنها*
2241 حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، أَنَا زُهَيْرٌ ، نَا كِنَانَةُ قَالَ : كُنْتُ أَقُودُ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ لِتَرُدَّ عَنْ عُثْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، *فَلَقِيَهَا الْأَشْتَرُ فَضَرَبَ وَجْهَ بَغْلَتِهَا حَتَّى مَالَتْ* ، *فَقَالَتْ : رُدُّونِي لَا يَفْضَحُنِي هَذَا الْكَلْبُ* قَالَ : فَوَضَعْتُ خَشَبًا بَيْنَ مَنْزِلِهَا وَبَيْنَ مَنْزِلِ عُثْمَانَ ، يَنْقُلُ عَلَيْهِ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ___
ترجمہ:
اُم المؤمنین سیدنا صفیه رضي الله عنها، محاصرے کے دوران سیدنا عثمان رضی الله عنه کو کھانا دینے جا رہی تھیں، تو اشتر سے ملاقات ھوئی، اشتر نے سیدنا صفیه رضي الله عنها کی سواری کے منہ پر مارا، یہاں تک کے اُم المؤمنین گرنے لگیں، پھر فرماتی ھیں: *مجھے واپس جانے دو، یہ کتا مجھے رسواء نہ کردے* پھر اُم المؤمنین نے اپنے گھر اور عثمان رضی الله عنه گھر کے درمیان لکڑی ڈالی، وھاں سے آپ کھانا اور پینا پہنچاتی تھیں".
[مسند ابن الجَعد: 2760]-وسنده صحيح
⬅️*مالک اشتر کا اپنا اعترافِ جرم*
قَدْ قَامَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَبْلُ خَطِيبًا , فَاسْتَعْمَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَلَى أَهْلِ الْبَصْرَةِ , وَزَعَمَ أَنَّهُ سَائِرٌ إِلَى الشَّامِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا , قَالَ : فَرَجَعَ أَبِي فَأَخْبَرَ الْأَشْتَرَ , قَالَ : فَقَالَ لِأَبِي , أَنْتَ سَمِعْتَهُ ؟ قَالَ : فَقَالَ أَبِي : لَا , قَالَ : فَنَهَرَهُ , وَقَالَ : اجْلِسْ , إِنَّ هَذَا هُوَ الْبَاطِلُ ; قَالَ : فَلَمْ أَبْرَحْ أَنْ جَاءَ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ مِثْلَ خَبَرِي ; قَالَ : فَقَالَ
: أَنْتَ سَمِعْتَ ذَاكَ ؟ قَالَ : فَقَالَ : لَا , فَنَهَرَهُ نَهْرَةً دُونَ الَّتِي نَهَرَنِي ; قَالَ : لَحَظَ إِلَيَّ وَأَنَا فِي جَانِبِ الْقَوْمِ , أَيْ إِنَّ هَذَا قَدْ جَاءَ بِمِثْلِ خَبَرِكَ , قَالَ : فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عَتَّابٌ التَّغْلِبِيُّ وَالسَّيْفُ يَخْطِرُ أَوْ يَضْطَرِبُ فِي عُنُقِهِ فَقَالَ : هَذَا أَمِيرُ مُؤْمِنِيكُمْ قَدِ اسْتَوْلَى ابْنُ عَمِّهِ عَلَى الْبَصْرَةِ , وَزَعَمَ أَنَّهُ سَائِرٌ إِلَى الشَّامِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا , قَالَ : قَالَ لَهُ الْأَشْتَرُ : أَنْتَ سَمِعْتُهُ يَا أَعْوَرُ ؟ قَالَ : إِي وَاللَّهِ يَا أَشْتَرُ لَأَنَا سَمِعْتُهُ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ , فَتَبَسَّمَ تَبَسُّمًا فِيهِ كُشُورٌ , قَالَ ، فَقَالَ : فَلَا نَدْرِي إِذًا عَلَامَ قَتَلْنَا الشَّيْخَ بِالْمَدِينَةِ ؟
خلاصلہ کلام اس روایت کا یہ ھے کہ
*امیر المؤمنین علی رضی الله عنه* نے خطبہ دیا، اور خطبے میں ابن عباس رضی الله عنه کی تقرری بصرہ میں بطور گورنر کردی، اور اپنے بارے میں اممیر المؤمنین علی رضی الله عنه نے فرمایا: کہ میں شام کی طرف جا رہا ہوں، راوی کہتا ھے، کہ میرے والد نے جا کر *مالک اشتر* کو اس بات کی خبر دی، تو
*مالک اشتر* (کو یقین نہ آیا اور راوی کے والد سے مالک اشتر) نے پوچھا : کیا تم نے خود یہ بات علی (رضی الله عنه) سے سنی ھے؟ تو میرے والد نے کہا، *نہیں*
تو *مالک اشتر* نے کہا، پیچھے ھوجاؤ، یعنی مالک اشتر نے اُن کو (دھکا دے کر) پیچھے کی طرف کردیا،
اور ساتھ میں کہا: *یہ جھوٹ ھے ایسا نہیں ھوسکتا* (یعنی میرے ہوتے ہوئے کسی اور کو گورنری کیسے دی جاسکتی ہے؟)
پھر ایک اور شخص *مالک اشتر* کے پاس آیا، اور اُس نے بھی یہی خبر *مالک اشتر* کو دی۔ تو *مالک اشتر* نے اُس سے بھی یہی پوچھا۔ کہ کیا تونے خود سنا علی (رضی الله عنه) سے؟؟ تو اُس نے بھی وہی کہا : *نہیں*
تو *مالک اشتر* نے اُس کو بھی دھکا دے کر، جھڑک کر پیچھے کرکے بٹھا دیا".
پھر *مالک اشتر* کے پاس، اُس کا قریبی ساتھی *عتاب التغلبی* آیا، تلوار لٹکائے ھوئے، اور کہنے لگا: یہ جو تمہارے مؤمنین کا امیر ھے (یعنی علی رضی الله عنه)، اُس نے اپنے چچا کے بیٹے کو بصرہ کا گورنر بنا دیا ھے، تو *مالک اشتر* نے اُس سے پوچھا: اوئے أعور (یعنی اوئے عتاب التغلبی) کیا تونے خود علی سے یہ سنا ھے؟ تو *عتاب التغلبی* نے کہا: ھاں الله کی قسم اے اشتر میں خود اپنے اِن دو کانوں سے یہ بات، علی سے سُن کر آرہا ہوں۔
راوی کہتا ھے: *مالک اشتر* غصے سے دانت پیستے ھوئے مسکرایا، اور کہنے لگا: *ھمیں نہیں پتہ پھر ھم نے مدینہ میں اُس بزرگ (یعنی عثمان رضی الله عنه) کو کیوں قتل کیا"۔*
[مصنف ابن أبي شيبة: 37757]-وسندہ صح
یعنی اس باغی نے صرف وزارت کہنے کے لیے داماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کیا۔
۔۔۔۔۔