سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا منہج حکومت
علی محمد الصلابیسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا منہجِ حکومت
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جب لوگوں نے بیعت کر لی تو آپؓ نے قوم کو خطاب فرمایا اور اس خطاب کے اندر اپنے سیاسی منہج کو واضح کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ اپنی حکومت میں کتاب و سنت اور شیخین سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت کا التزام کریں گے، اور یہ وضاحت فرمائی کہ وہ حلم و بردباری اور حکمت سے حکومت چلائیں گے الا یہ کہ کوئی اپنے اوپر شرعی حدود کو لازم کر لے۔ پھر آپؓ نے انہیں دنیا کی طرف مائل ہونے اور اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے سے آگاہ کیا تاکہ ان کے درمیان باہمی کشمکش، بغض اور حسد برپا نہ ہو جس سے امت اختلاف و افتراق کا شکار ہو جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی ناقدانہ بصیرت سے اس امت کے اندر خواہش پرستی کی وجہ سے رونما ہونے والے فتنوں کو پردے کے پیچھے دیکھ رہے تھے۔
(تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ: جلد، 1 صفحہ، 392)
آپؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اما بعد (حمد و صلوٰۃ کے بعد)! مجھے خلافت کا مکلف کیا گیا ہے اور میں نے اسے قبول کر لیا ہے۔ خبردار میں بدعتی نہیں بلکہ متبع ہوں۔ آگاہ رہو تمہارے لیے مجھ پر کتاب و سنت کے بعد تین حقوق ہیں: اوّل یہ کہ میں اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی ان چیزوں میں اتباع کروں جن پر تم نے اجماع کیا ہے اور طریقہ متعین کیا۔ اور تم اور اہلِ خیر نے جو طریقہ متعین کیا ہے وہ تمام لوگوں کے سامنے متعین کروں اور دوسرا یہ کہ اپنے ہاتھ کو تم سے روکے رکھوں الا یہ کہ تم خود اپنے اوپر سزا کو لازم کر لو، یقیناً دنیا سرسبز و شاداب ہے اور لوگوں کی طرف لپکی ہے، اور بہت سے لوگ اس کی طرف مائل ہو چکے ہیں، لہٰذا تم دنیا کی طرف نہ مائل ہونا اور نہ اس پر اعتماد کرنا، دنیا قابلِ اعتماد نہیں ہے اور یاد رکھو وہ کسی کو چھوڑنے والی نہیں ہے الا یہ کہ جو اس کو خود چھوڑ دے۔‘‘
(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 443)
بعض حضرات کا یہ کہنا کہ ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پہلا خطاب کرنے کے لیے جب کھڑے ہوئے تو کانپ اٹھے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ کیا کہنا ہے یہاں تک کہ معذرت کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! پہلی مرتبہ سواری پر سوار ہونا مشکل ہوتا ہے اگر زندگی رہی تو صحیح طریقہ سے خطاب کروں گا۔‘‘ اس بات کو العقد الفرید (العقد الفرید کے مصنف ابنِ عبدربہ اندلسی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کے اندر اخبار و حکایات اور نوادر جمع کیے ہیں سند اور صحت کا اہتمام نہیں کیا ہے۔) کے مصنف وغیرہ نے ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
(خلافۃ عثمان بن عفان، د۔ السلمی: صفحہ، 34، 35 مذکورہ روایت واقدی کی سند سے مروی ہے جو متروک راوی ہے)