اہل سنت کے نزدیک نبیذ مباح ہے؛ اگرچہ نشہ آور ہو ۔اوراس کے ساتھ وضو جائز ہے۔معاذاللہ
امام ابن تیمیہ[اہل سنت پر اعتراضات ] :
اہل سنت کے نزدیک نبیذ مباح ہے؛ اگرچہ نشہ آور ہو ۔اوراس کے ساتھ وضو جائز ہے۔معاذاللہ
بعض فقہاء سے بعض بادشاہوں کے دربار میں طریقہ ء نماز حکایت منقول ہے۔ بادشاہ کے پاس حنفی فقہاء موجود تھے۔ ایک فقیہی اپنے غصب کردہ گھر میں داخل ہوا؛ نبیذ کے ساتھ وضوء کیا ؛ اور فارسی میں بغیر نیت کے تکبیر کہی ۔ اور پھر {مُدْهَامَّتَانِ} آیت فارسی میں پڑھی ۔ اس کے علاوہ کوئی آیت نہیں پڑھی ۔ پھر اطمینان کے بغیر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا ؛ اور ایسے ہی سجدہ بھی کیا ۔پھر تلوار کی دہار کے برابر سر اٹھایا ؛ پھر دوسرا سجدہ کیا ۔ پھر کھڑا ہوگیا اور دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔پھر سلام پھیرنے کے بجائے گوز ماری ؛ [اور نماز ختم کردی؛ یہ دیکھ کر ] بادشاہ نے ۔جو کہ حنفی مذہب رکھتا تھا۔ اس مذہب سے برأت کااظہار کر لیا۔
[انتہیٰ کلام الرافضی] ۔
[نبیذ کا مسئلہ اوراہل سنت پر الزام کا جواب:]
ایسے ہی نبیذکو حلال کہنے کا مسئلہ بھی ہے ۔جمہور اہل سنت و الجماعت اسے حرام قرار دیتے ہیں ۔ اور اس میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ؛ یہاں تک کہ جو انسان تاویل کی وجہ سے بھی اسے پی لے تو اس پر شراب پینے والے کی حد لگاتے ہیں ۔نبیذ پینے والے کے فاسق ہونے کے بارے میں دو قول ہیں :
۱۔ ایسا انسان فاسق ہے؛یہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے ‘اورامام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔
۲۔ اس کو فاسق نہیں کہا جائے گا ؛ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہ منقول ہے ۔
محمد بن الحسن رحمہ اللہ نبیذ کو حرام کہتے ہیں ۔یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے اہل انصاف کے ہاں مختار قول ہے؛ جیسے ابو اللیث سمرقندی رحمہ اللہ وغیرہ۔
شیعہ مضمون نگار کی بوالعجبی ملاحظہ کیجئے کہ وہ کہتا ہے:’’ نشہ میں مشترک ہونے کے باوجود نبیذکو مباح کہتے ہیں ۔‘‘
ابھی تو وہ قیاس سے انکار کر رہا تھا؛ اور ابھی قیاس کی مدد سے نبیذ کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت پیش کررہا ہے ،اگر قیاس حق ہے تو اس کا انکار باطل تھا ۔ اور اگر قیاس باطل تھا تو اس کی حجت باطل ہوگئی ۔ اس کے بجائے اگر حدیث :
’’ کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٍ وَکُلُّ خَمْرً حَرَامٌ ‘‘
[صحیح مسلم کتاب الاشربۃ۔ باب بیان ان کل مسکر خمر، (ح:۷۵؍۲۰۰۳) ۔]
سے استدلال کیا ہوتا تو یہ زیادہ بہتر تھا۔
رہا نبیذ سے وضوء کا مسئلہ ؛تو جمہور علماء اس کا انکار کرتے ہیں ۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ اس بارے نے آپ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو اس باب میں نقل کی گئی ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ’’ تمرۃ طیبۃ و ماء طہور ۔‘‘
’’کھجور پاکیزہ پھل ہے ‘ اور اس کا پانی پاک ہے ۔‘‘
[فِی: سننِ أبِی داود:۱؍۵۴؛ ِکتاب الطہورِ، باب الوضوئِ بِالنبِیذِ، ونصہ عن عبدِ اللہِ بنِ مسعود أن النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ لیلۃ الجن: (( ما فِی إِداوتِ؟ قال: نبِیذ۔ قال: تمرۃ طیِبۃ وما طہو۔ والحدِیث فِی سننِ التِرمِذِیِ:۱؍۵۹؛ کتاب الطہورِ، باب ما جا فِی الوضوئِ بِالنبِیذِ، وقال التِرمِذِی: وإِنما روِی ہذا الحدِیث عن أبِی زید عن عبدِ اللہِ عنِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وأبو زید رجل مجہول عِند أہلِ الحدِیثِ لا تعرف لہ رِوایۃ غیر ہذا الحدِیثِ، والحدِیث أیضاً فِی سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۱۳۵؛ ِکتاب الطہارۃِ وسننِہا، باب الوضوئِ بِالنبِیذِ۔]
جمہور اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں : اگریہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی آیت ِ وضوء اور آیت ِ تحریم خمر سے منسوخ ہوچکی ہے۔حالانکہ اس بات کا احتمال ہے کہ ابھی وہ نبیذ نہ بنا ہو؛ بلکہ پانی ہی ہو۔اور یہ ا س وقت ہوگا جب
پانی اپنی اصلیت پر باقی ہو؛ اس میں تبدیلی نہ ہوئی ہو۔یا تھوڑی بہت یا زیادہ تبدیلی ہوئی ہو؛ مگروہ پھر بھی ان علماء کے مطابق پانی ہی شمار ہوتا ہو جو ملاووٹ شدہ پانی سے وضوکو جائز کہتے ہیں ۔
جیسے باگلہ کا پانی؛ اور چنے کا پانی اور اس طرح کے دیگر پانی۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے؛ اور احمد احمد رحمہ اللہ سے بھی اکثر روایات میں یہی منقول ہے۔ یہ قول دوسرے کی نسبت حجت میں زیادہ قوی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے:
{ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً } (النِسائِ:۳۳)
’’اور تم پانی نہ پاؤ۔‘‘اس جملہ میں نفی کے سیاق میں لفظ ’’مائً‘‘نکرہ آیا ہے جو کہ ان تمام پانیوں کو شامل ہے جو ان میں پاکیزہ چیزیں ملنے کی وجہ سے بدل گئے ہوں ۔ جیسا کہ یہ ان پانیوں کو بھی شامل ہے جو اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے بدلے ہوئے ہوں ۔ یا پھرجن پانیوں کی حفاظت ممکن نہ ہو؛ کیونکہ لفظ ان تمام پانیوں کو شامل ہے۔ جیسا کہ سمندر کے پانی سے وضوء کرنا جائز ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
[سنن الترمذی، الطھارۃ ۲۵ [۹۶] ، سنن النسائی، الطھارۃ ۷۴ ، سنن ابن ماجہ، الطھارۃ ۸۳ ۶۸۳۔ موطا امام مالک ، الطھارۃ ۳ [۲۱] ، مسند احمد :۲؍۷۳۲،سنن الدارمی, الطھار۳۵ [۵۵۷] صحیح۔]
پس سمندری پانی پاک ہے؛ حالانکہ وہ انتہائی درجہ کا نمکین ؛کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔ پس جو پانی پاکیزہ چیزوں سے بدل جائے؛ اس کی حالت اس سے بہتر ہوتی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی اصلی ہے؛ اور وہ لاحق ۔