Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ رضی اللہ عنہ کے ایمان کی عظمت

  علی محمد الصلابی

آپؓ کے ایمان کی عظمت

سيدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ رب العالمین پر بڑا گہرا ایمان تھا۔ آپؓ نے ایمان کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور کلمہ توحید آپؓ کے قلب و جان میں پیوست ہو چکا تھا اور اس کے آثار آپؓ کے اعضاء و جوارح میں نمایاں تھے اور پوری زندگی اس پر قائم رہے، اخلاق عالیہ کو اختیار کیا اور اخلاق رذیلہ سے اجتناب کیا، اللہ کی شریعت کو تھامے رہے اور طریقہ نبویﷺ کی اقتداء کی۔ ایمان باللہ آپؓ کو حرکت و ہمت، نشاط و سعی، جہد و مجاہدہ، جہاد و تربیت اور رتبہ کی بلندی و عزت پر ابھارتا رہا۔ آپؓ کے دل میں ایمان و یقین اس قدر تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی آپؓ کا ہم پلہ نہ تھا۔ ابوبکر بن عیاشؒ فرماتے ہیں حضرت ابوبکرؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر صوم و صلوٰۃ کی کثرت کی وجہ سے سبقت نہیں لے گئے، بلکہ ایمان کی وجہ سے سبقت لے گئے، جو آپؓ کے دل میں پیوست ہو چکا تھا۔

(فضائل الصحابۃ للامام احمد: جلد، 1 صفحہ، 173)

اسی لیے کہا گیا کہ اگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان تمام روئے زمین کے لوگوں کے ایمان سے تولا جائے تو حضرت ابوبکرؓ کا ایمان وزنی ہو گا جیسا کہ سنن میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا

کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟

ایک شخص نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا، ایک میزان آسمان سے اتری، پھر آپﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کو وزن کیا گیا تو آپﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھاری ٹھہرے، پھر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو وزن کیا گیا تو سیدنا ابوبکرؓ وزنی ٹھہرے، پھر حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ کو وزن کیا گیا تو حضرت عمرؓ وزنی ٹھہرے، پھر میزان اٹھا لی گئی۔ آپﷺ کو یہ خواب اچھا نہ لگا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا

خلافۃ نبوۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشاء۔

(ابوداود: صفحہ، 4634 الترمذی: صفحہ، 2288)

ترجمہ: یہ خلافتِ نبوت کی طرف اشارہ ہے، پھر اللہ تعالیٰ ملک و سلطنت جس کو چاہے گا دے گا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ایک شخص گائے لیے جا رہا تھا، اس پر سوار ہو لیا اور اس کو مارا تو گائے نے کہا ہم اس لیے نہیں پیدا کیے گئے ہیں ہم کھیتی کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

یہ سن کر لوگوں نے کہا سبحان اللہ گائے بات کرتی ہے۔

آپﷺ نے فرمایا میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور وہ دونوں وہاں پر موجود نہ تھے۔

پھر آپﷺ نے فرمایا ایک شخص اپنی بکریاں لیے ہوئے تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا حملہ آور ہوا اور ایک بکری کو اٹھا لے گیا، وہ شخص اس کے پیچھے لگا اور بکری کو اس سے چھین لیا، تو بھیڑیے نے اس سے کہا اس کو آج تو تو نے بچا لیا لیکن درندے کے دن کون اس کے لیے ہو گا، جس دن میرے سوا کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا؟

یہ سن کر لوگوں نے کہا سبحان اللہ! بھیڑیا بات کرتا ہے؟

رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور وہاں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما موجود نہ تھے۔

(مسلم: 2388)

آپؓ کے قوی ایمان، پابندی شریعت، صداقت و اخلاص کی وجہ سے رسول اللہﷺ آپؓ سے محبت رکھتے تھے اور یہ محبت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت پر مقدم تھی۔

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں معرکہ ذات السلاسل میں فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا۔ فرماتے ہیں میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا

آپﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟

فرمایا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا۔

میں نے عرض کیا مردوں میں سے؟

فرمایا حضرت عائشہؓ کے باپ۔

میں نے عرض کیا پھر کون؟

فرمایا سیدنا عمر بن خطابؓ۔ پھر اور لوگوں کے نام گنائے۔

(بخاری: صفحہ، 2662)

اسی ایمان عظیم، پابندی شریعت اور دین کی نصرت و تائید میں بے پایاں کوششوں کی وجہ سے آپؓ بزبان رسالت مآبﷺ جنت کی بشارت کے مستحق قرار پائے اور آپؓ کو جنت کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے، فرماتے ہیں میں نے اپنے جی میں کہا میں رسول اللہﷺ سے ضرور ملوں گا اور آج پورا دن آپﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ مسجد پہنچا، نبی کریمﷺ سے متعلق دریافت کیا، تو لوگوں نے بتلایا آپﷺ یہاں سے نکل چکے ہیں اور اس سمت کا رخ کیا ہے۔ میں بھی آپﷺ کے پیچھے آپﷺ سے متعلق پوچھتے ہوئے چل پڑا، آپﷺ بئر اریس کے احاطے میں داخل ہوئے۔ میں دروازے پر بیٹھ گیا، دروازہ کھجور کی ٹہنیوں کا تھا۔ رسول اللہﷺ نے قضائے حاجت سے فارغ ہو کر وضو فرمایا۔ پھر میں آپﷺ کے پاس آیا، آپﷺ بئر اریس کی جگہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ دونوں پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا رکھی تھیں۔ میں نے آپﷺ کو سلام کیا پھر واپس آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور یہ طے کر لیا کہ آج رسول اللہﷺ کی دربانی کروں گا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور دروازہ دھکیلا۔

میں نے کہا کون؟

فرمایا سیدنا ابوبکرؓ۔

میں نے کہا ٹھہریے۔

پھر میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔

آپﷺ نے فرمایا انہیں آنے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔

میں آیا اور سیدنا ابوبکرؓ سے کہا تشریف لایئے، رسول اللہﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔

پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور کنویں کی جگہ پر رسول اللہﷺ کے دائیں آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کی طرح پنڈلیاں کھول کر دونوں پیر کنویں میں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ الحدیث

(بخاری: صفحہ، 3676)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا

من انفق زوجین من شیٔ من الاشیاء فی سبیل اللہ دعی من ابواب الجنۃ: یا عبداللہ ہذا خیر، فمن کان من اہل الصلاۃ دعی من باب الصلاۃ، ومن کان من اہل الجہاد دعی من باب الجہاد ، ومن کان من اہل الصیام دعی من باب الریان ، ومن کان من اہل الصدقۃ دعی من باب الصدقۃ۔

ترجمہ: جس شخص نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کے جوڑے خرچ کیے اس کو جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا، جو نمازیوں میں سے ہو گا اس کو باب الصلوٰۃ سے، جو مجاہدین میں سے ہو گا اس کو باب الجہاد سے، جو روزہ داروں میں سے ہو گا اس کو باب الریان سے، جو زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے والوں میں سے ہو گا اس کو باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! جو ان دروازوں سے پکارا جائے گا اس کو پھر کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن کیا کوئی ایسا ہو گا جس کو تمام دروازوں سے پکارا جائے؟

آپﷺ نے فرمایا:

نعم وارجو ان تکون منہم یا ابابکر۔

ترجمہ: ہاں، اے سیدنا ابوبکرؓ! مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہو گے۔

(بخاری: 2666)