Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیوں نہیں، واللہ یقیناً میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے

  علی محمد الصلابی

کیوں نہیں، واللہ یقیناً میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی کفالت کرتے تھے، لیکن جب وہ واقعہ افک کے موقع پر ام المؤمنین سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں منافقین کی پیدا کردہ افواہوں میں شریک ہو گئے، تو حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھا لی کہ اب کبھی وہ حضرت مسطحؓ پر خرچ نہ کریں گے۔ اس موقع پر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(سورۃ النور: آیت نمبر، 22)

ترجمہ: تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیے بلکہ معاف کر دینا اور درگذر کر لینا چاہیے، کیا تم نہیں

چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے، اللہ قصور کو معاف فرمانے والا مہربان ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں، واللہ یقیناً میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے اور پھر آپؓ حضرت مسطحؓ پر پہلے کی طرح خرچ کرنے لگے اور فرمایا واللہ کبھی خرچ کرنا بند نہ کروں گا۔

(البخاری: صفحہ، 4750)

اس آیت کریمہ سے سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی کہ مؤمن کو اخلاق کریمانہ کو اختیار کرنا چاہیے لوگوں کی لغزشوں، کوتاہیوں کو معاف کر دینا چاہیے، اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا، اور اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا، جیسا کریں گے ویسا پائیں گے۔ اللہ کا ارشاد ہے

اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞

(سورۃ النور: آیت نمبر، 22)

ترجمہ: کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے۔

یعنی جیسا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے اسی طرح تم بھی دوسروں کی خطاؤں کو معاف کر دو۔

اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے نہ کرنے کی قسم کھا لے اور پھر اس کا کرنا اس کے ترک سے اولیٰ معلوم ہو تو اس کو کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ یہ آیت کریمہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ امید افزاء ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اتہام لگانے والے لوگوں کے لیے نہایت نرم الفاظ استعمال کیے ہیں۔

(تفسیر المنیر: جلد، 18 صفحہ، 190)

یہ آیتِ کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عجیب صفات سے ان کو متصف قرار دیا ہے، جو دین میں ان کے علو شان پر دلالت کرتی ہیں۔ امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں اس آیت سے بارہ صفات مستنبط کیے ہیں۔ من جملہ ان صفات کے یہ ہے کہ آپ علی الاطلاق بغیر کسی قید کے صاحب فضل ہیں اور فضل میں افضال بھی داخل ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ علی الاطلاق فاضل اور علی الاطلاق مفضل ہیں۔ اور یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو برسبیل مدح

اُوْلُوا الْفَضْلِ وَالسَّعَۃِ

ترجمہ: بزرگی اور کشادگی والے

قرار دیتے ہوئے جمع اور عموم کا صیغہ استعمال کیا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپؓ معصیت سے خالی تھے کیونکہ اس درجہ کا ممدوح اہلِ نار میں سے نہیں ہو سکتا۔

(تفسیر الرازی: جلد، 18 صفحہ، 351)