Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غصہ پی جانا

  علی محمد الصلابی

غصہ پی جانا

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، رسول اللہﷺ وہاں تشریف فرما تھے، آپﷺ یہ کیفیت دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ جب وہ شخص حد سے تجاوز کر گیا، تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا۔ اس پر نبی کریمﷺ ناراض ہو گئے اور اٹھ کر چل دیے۔ سیدنا ابوبکرؓ آپﷺ کے پیچھے ہو لیے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! وہ شخص آپﷺ کی موجودگی میں مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا جب وہ حد سے تجاوز کر گیا تو میں نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا، تو آپﷺ ناراض ہو کر چل دیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا، جو تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا لیکن جب تم نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو شیطان پہنچ گیا تو میں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا تین باتیں حق ہیں جب کسی بندے پر ظلم ہو اور وہ اللہ کے واسطے نظر انداز کر دے تو اللہ اس کو عزت عطا کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے اور جو شخص عطیہ دینے کا دروازہ کھولتا ہے اور اس کا مقصود صلہ رحمی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مزید عطا کرتا ہے، اور جو شخص کثرت مال کے لیے مانگنا شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مال میں کمی کر دیتا ہے۔

(الدر المنثور للسیوطی: جلد، 2 صفحہ، 74 مجمع الزوائد: جلد، 8 صفحہ، 190 یہ روایت مرسل ہے)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ پی جانے کی صفت سے متصف تھے لیکن اس شخص کو خاموش کرنے کے لیے جواب دیا تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے انہیں بردباری اور حلم کی رغبت دلائی اور غیظ و غضب کے مواقع پر صبر سے کام لینے کی ضرورت کی طرف رہنمائی فرمائی کیونکہ بردباری اور غصہ پی جانا ایسی صفت ہے جس سے لوگوں کی نگاہوں میں انسان کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اس مؤقف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؓ کبھی رسول اللہﷺ کو غصہ نہیں کرنا چاہتے تھے اور آپﷺ کو خوش اور راضی کرنے میں جلدی کرتے تھے۔ اس حدیث میں اپنی ذات کے لیے غصہ ہونے کی مذمت کی گئی ہے اور اس سے روکا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام ایسی محفلوں اور مجلسوں سے دور رہتے ہیں جہاں شیطان حاضر ہوتا ہو اور صبر و احتسابِ اجر سے کام لینے والے مظلوم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، عطیہ دینے اور صلہ رحمی کرنے پر ابھارا گیا ہے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ 

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ برابر حلم و بردباری اور غصہ پی جانے کی صفت پر قائم رہے یہاں تک کہ حلم و بردباری، وقار، رفق و نرمی کی صفت سے معروف تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپؓ کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے بلکہ آپؓ اللہ کی خاطر غصہ ہوتے تھے اور جب دیکھتے کہ اللہ کے محارم پامال کیے جا رہے ہیں تو سخت غصہ ہوتے۔

(سیرۃ وحیاۃ الصدیق، مجدی فتحی السید صفحہ، 145) 

آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور و فکر اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزاری 

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 133/134)

ترجمہ: اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔