Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے محمد بن ابی بکر  کو قتل کروایا تھا

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

 ♦️شیعہ الزام ♦️
امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے محمد بن ابی بکر  کو قتل کروایا تھا"
معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ) کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن ابی بکر کو بڑی بےدردی کے ساتھ قتل کیا تھا۔ وہ خوف سے ایک مردہ گدھے کے ڈھانچے میں چھپ گئے تھے لیکن ان کو اسی حالت میں آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ 
کیا تم اہلسنّت کے نزدیک یہ بھی خطاۓ اجتہادی تھی۔ اس پر تم لوگ معاویہ اور عمرو بن عاص کو کتنا ثواب دو گے۔ کیا اب بھی معاویہ کو صحابی مانتے ہو؟

 ♦️جوابِ اہلسنّت♦️
 اہلسنّت  کے عقیدے کے مطابق کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا مسلمان گنہگار ہے کافر نہیں۔ صحابہ کرام کے درمیان ہونے والی جنگوں میں قتل ہونے والے اور قتل کرنے والے صحابہ کرام اللہ تعالی کی جانب سے مغفور و جنتی ہیں کیونکہ بغیر استثناء کے تمام صحابہ کے مغفور ہونے کا  ذکر نصِ قرآنی میں موجود ہے۔
 اگر اجتہادی خطا کی بنا پر کسی صحابی نے دوسرے صحابی کو قتل کیا ہے مثلا قتل کرنے والے صحابی نے کسی صحابی کو واجب القتل جرم کا مرتکب سمجھ کر قتل کردیا حالانکہ حقیقت میں وہ موجبِ قتل جرم نہیں تھا تو اگرچہ حقیقتا یہ بھی ناحق قتل ہے اور قتل کرنے والے صحابی کا  امیر المسلمین کو شرعی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے لیکن کسی غیر صحابی کو شرعاً یہ حق حاصل نہیں کہ  اس صحابی کو سب و شتم کرے اسے جہنمی کہے۔

 خطائے اجتہادی پر ایک اجر ملنے کا ذکر حضور علیہ السلام کی حدیث میں موجود ہے۔ خطائے اجتہادی پر ایک اجر ملنے کا مطلب حسنِ نیت پر ایک اجر ملنا ہے۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپسی جنگوں میں ایک دوسرے کو قتل کیا ہے ان میں ہر گروہ اپنے آپ کو حق پر تصور کرتا تھا اور ابطالِ باطل ہرایک کا مقصد تھا۔ لہذا اس حسنِ نیت (احقاقِ حق کی نیت) کا انہیں ایک اجر ضرور ملے گا اور اہل حق کو دوہرا اجر ملے گا۔ صحابہ کرام بارگاہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اس لئے ان کے تعلق سے حسن ظن رکھنا واجب ہے کہ انہوں نے محض ذاتی مخاصمت کی بنا پر کسی مسلمان بھائی کو قتل نہیں کیا ہے۔ 
یہی صورت حضرت محمد بن ابی بکر کے قتل کی تھی۔
 محمد بن ابی بکر کے قتل کا سبب یہ تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کےخون کا بدلہ  چاہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  محمد بن ابی بکر کو قاتلینِ عثمان میں شامل مانتے تھے۔ صحابی رسول حضرت معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھ کر جنگ میں انہیں قتل کیا تھا۔

 ♦️یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو  سبائی بلوائیوں نے ان کے گھر کے اندر گھس کر بے دردی کے ساتھ قتل کیا تھا۔ بعض روایتوں میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں محمد بن ابی بکر کا نام بھی آیا ہے کہ وہ بھی قاتلین عثمان میں سے تھے۔
 اس میں روایتوں کا اختلاف ہے لیکن اکثر روایات میں یہ آیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں سبائی بلوائیوں کے ساتھ محمد بن ابی بکر بھی داخل ہوئے تھے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ بھی قتل عثمان میں شریک تھے اور بعض نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو بھی بلوائیوں کے ساتھ دیکھا تو یہ فرمایا:

    لو راک ابوک لم یرض ھذاالمقام منک

 ترجمہ:- اگر تمہارے باپ ابوبکر رضی اللہ عنہ تمہیں دیکھتے تو اس مقام پر  تمہارے آنے کو پسند نہ کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ  سن کر محمد بن ابی بکر واپس  چلے گئے تھے  اور بعض نے کہا ہے کہ خود تو نکل آئے تھے لیکن اپنے ساتھیوں کو قتل کا اشارہ کر دیا تھا۔

 ( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لاابن عبد البر:3/1367)

  امام ذھبی نے حضرت محمد بن ابی بکر  صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت میں لکھا یے:-
  " ثم سار لحصار عثمان وفعل امرا کبیرا فکان احد من توثب علی عثمان حتی قتل ثم انضم الی علی فکان من امراءہ فسیرہ علی امرۃ مصر سنۃ سبع و ثلاثین فی رمضان فالتقی ھو وعسکر معاویۃ فانھزم جمع محمد واختفی ھو فی بیت مصریۃ فدلت علیہ قال:- احفظونی فی ابی بکر فقال معاویۃ بن حدیج قتلت ثمانین من قومی فی دم الشھید عثمان واترکک وانت صاحبہ فقتلہ ودسہ فی بطن  حمار میت واحرقہ وقال عمرو بن دینار: اتی بحمد اسیرا الی عمرو بن العاص فقتلہ یعنی بعثمان"۔
 ترجمہ:- پھر محمد بن ابی بکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرے کے لیے چلے اور امرِ عظیم کے مرتکب ہوئے۔ وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے والوں میں ایک تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے۔ پھر محمد بن ابی بکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گۓ اور ان کے امراء (وزراء) میں شامل ہوئے۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے ان کو 37 ہجری میں مصر کا امیر بنایا۔ اسی سال رمضان میں ان کے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں مقابلہ ہوا۔ محمد بن ابوبکر کے لشکر کو شکست ہوئی وہ ایک مصری 

عورت کے گھر میں چھپ گئے۔ مصری عورت نے پتہ بتا دیا تو انہوں نے کہا: مجھے ابوبکر کے  واسطے سے بچالو۔ معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے شہید  عثمان کے خون کا بدلہ  چاہنے والے میری قوم کے 80 افراد کو قتل کیا ہے اور میں تجھے چھوڑ دوں، جبکہ تو قاتلِ عثمان بھی ہے؟ پھر معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کر کے ایک مردہ گدھے کے ڈھانچے کے اندر داخل کر کے آگ لگا دی۔ عمرو بن دینار کا قول ہے کہ محمد بن ابی بکر  رضی اللہ عنہ کو  قید کر کے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے خونِ عثمان کے بدلے میں انہیں قتل کردیا۔

( سیر اعلام النبلاء:482/3)

♦️زرکلی نے یہ لکھا ہے کہ معاویہ بن حدیج رضی اللہ نے محمد بن ابی بکر کو اس لیے قتل کیا  تھا کہ وہ قتل عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں شریک تھے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے لاش کو جلایا نہیں تھا بلکہ ان کے جسد خاکی کو "مسجد زمام" جو شہر فسطاط کے باہر تھی، میں دفن کیا تھا۔

ابن سعید نے کہا ہے کہ وقد زرت قبرہ فی الفسطاط ( میں نے محمد بن ابوبکر کی قبر کی زیارت مقام فسطاط میں کی ہے)۔

♦️تاریخی روایات کی بناء پر اگر معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ یا عمرو بن عاص یا امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کو حضرت محمد بن ابی بکر کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر روافض انہیں لعن طعن کرتے ہیں تو ان تاریخی  روایات کے بارے میں وہ کیا کہیں گے جن کے مطابق حضرت محمد بن ابی بکر  پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کا الزام تھا اور یہی نہیں بلکہ معاویہ بن حدیج، محمد بن ابی بکر کوخونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ چاہنے والے 80 افراد کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے؟۔

♦️تاریخی روایات میں بہت زیادہ اختلاف اور تضاد ہے لہذا امت کے عقیدے کی سلامتی کا وہی راستہ ہے جو اسلاف اہلسنّت کا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کے بارے میں زبان کو بند رکھا جائے اور صحابہ کرام کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے نزاعی معاملات اور ناپسندیدہ واقعات کو موضوع بحث بنا کر امت مسلمہ کو انتشار و افتراق میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو خیر و صلاح کی توفیق عطا فرمائے۔