نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نصرت و تائید
علی محمد الصلابینبی کریمﷺ کی جانب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نصرت و تائید
متعدد صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ سیدنا ابوبکرؓ کی نصرت و تائید فرماتے اور لوگوں کو آپ کی مخالفت سے منع کرتے تھے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
میں رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھا تھا اتنے میں سیدنا ابوبکرؓ اپنا کپڑا اٹھائے ہوئے آئے، بایں طور کہ آپؓ کا گھٹنا دکھائی دے رہا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إمّا صاحبکم فقد غامر
ترجمہ: ضرور تمہارے ساتھی کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! میرے اور سیدنا ابنِ خطابؓ کے مابین کچھ باتیں ہو گئیں، میں نے انہیں ناراض کر دیا، پھر اپنے کیے پر میں نادم ہوا اور ان سے معافی طلب کی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:
یغفر اللہ لک یا ابابکرؓا
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔
پھر ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اس رویہ پر ندامت ہوئی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا کہ گھر میں نہیں ہیں، پھر سیدھے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضری دی اور آپﷺ کو سلام کیا۔ رسول اللہﷺ کا چہرۂ انور غصہ سے متغیر ہو رہا تھا۔ آپﷺ کی یہ کیفیت دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (عمرؓ کے بارے میں) ڈر گئے اور اپنے دونوں گھٹنے ٹیک کر رسول اللہﷺ کے سامنے بیٹھ گئے اور عرض کیا
اے اللہ کے رسولﷺ! واللہ میری ہی طرف سے زیادتی ہوئی ہے۔ واللہ میری ہی طرف سے زیادتی ہوئی ہے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا
ان اللہ بعثنی الیکم، فقلتم کذبت وقال ابوبکر صدق وواسانی بنفسہ ومالہ، فہل انتم تارکوا لی صاحبی۔
ترجمہ: اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تم لوگوں نے میری تکذیب کی اور سیدنا ابوبکرؓ نے تصدیق کی اور جان و مال سے میرا ساتھ دیا۔ تو کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑ نہیں سکتے؟
آپﷺ نے دو بار یہی بات دہرائی۔ اس کے بعد پھر کبھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی کی طرف سے تکلیف نہیں پہنچی۔
(البخاری: فضائل الصحابۃ صفحہ، 3661)
اس قصے میں بہت سی درس و عبرت کی باتیں ہیں، مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بشری طبیعت اور ان کے مابین اختلاف کا رونما ہونا اور پھر جلدی سے اپنے کیے پر نادم ہونا اور اپنے بھائی سے عفو و درگذر کا طالب ہونا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپس میں محبت و مودت کا برتاؤ کرنا، رسول اللہﷺ کے پاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بلند مقام وغیرہ۔