سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوۂ بدر
علی محمد الصلابیسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوہ بدر
جب مسلمان غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے اس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا چیچک کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے قریش کے تجارتی قافلے کو چھیڑنے کے لیے نکلنے کا حکم دیا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل میں جلدی کی لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں منع کر دیا، اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو گھر پر محترمہ صابرہ و طاہرہ سیدہ رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینہ میں رہے۔ جب مرض بڑھ گیا اور موت کے آثار نمودار ہوئے اس حالت میں حضرت رقیہؓ کو جب کہ موت نے انہیں گھیر رکھا تھا اپنے والد محترم رسول اللہﷺ جو بدر میں مشغول تھے اور اپنی ہمشیرہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی دیدار کے انتہائی شوق میں بے تاب تھیں، جو مکہ میں تھیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آنسوؤں کے ساتھ ان پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے اور جیسے غم سے دل پھٹا جا رہا تھا۔
(نساء اہل البیتؓ، احمد خلیل جمعہ: صفحہ، 491۔ 504)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے ساتھ موت کو لبیک کہا اور رفیق اعلیٰ سے جا ملیں، رسول اللہﷺ کا دیدار نہ ہو سکا۔ آپﷺ میدانِ بدر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ میں مشغول تھے، جس کی وجہ سے آپﷺ اپنی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ میں شرکت نہ کر سکے۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین ہوئی، لوگ آپ کے پاک جسم کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان روانہ ہوئے، آپؓ کے شوہر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غمگین پیچھے پیچھے چلتے، جب جنازہ ’’بقیع‘‘ پہنچ گیا تو آپ کو وہاں دفن کر دیا گیا، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے آپ کو دفن کر کے جب لوگ واپس آ رہے تھے تو سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی اونٹنی پر سوار ہو کر فتح و نصرت کا مژدہ جانفزا لے کر مدینہ پہنچے، اور لوگوں کو رسول اللہﷺ کی سلامتی اور مشرکین کے قتل و قید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مسلمانانِ مدینہ کے چہروں پر فتح و نصرت کی ان خبروں سے خوشی امڈ آئی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی انہی لوگوں میں سے تھے لیکن سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا غم چھپا نہ سکے۔ مدینہ واپسی پر رسول اللہﷺ کو سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر ملی، آپﷺ بقیع تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہو کر آپﷺ نے بخشش و غفران کے لیے دعا کی۔
(دماء علی قمیص عثمان بن عفان: صفحہ، 20)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے بزدلی یا راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اہلِ بدعت کا زعم باطل ہے، اور نہ ان کے پیشِ نظر نبی کریمﷺ کی مخالفت تھی، جو فضیلت اہلِ بدر کو نبی کریمﷺ کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ فضیلت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہوئی کیوں کہ آپؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھے، لیکن خود رسول اللہﷺ نے اپنی لختِ جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو واپس کر دیا تھا، لہٰذا آپؓ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول اللہﷺ کی اطاعت و فرماں برداری میں تھا، اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا، اور اس طرح آپؓ اہلِ بدر کے ساتھ مالِ غنیمت، فضیلت اور اجر و ثواب میں شریک رہے۔
(کتاب الامامۃ و الرد علی الرفضۃ، الأصبہانی: صفحہ، 302)
سیدنا عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ ایک شخص مصر سے حج کے لیے آیا اور سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ سے ایک چیز سے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں اللہ کے واسطے آپ مجھے بتائیں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ سیدنا عثمانؓ بدر سے غائب رہے اور شریک نہ ہوئے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں لیکن بدر سے ان کا غائب ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپؓ کی زوجیت میں رسول اللہﷺ کی لختِ جگر (سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں جو بیمار تھیں، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے انہیں رکنے کا حکم دیا، اور فرمایا: تمہیں بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر و ثواب اور حصہ ملے گا۔ (البخاری: صفحہ، 03698)
ابو وائل، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں بدر کے دن رسول اللہﷺ کی بیٹی کی وجہ سے پیچھے رہا اور رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت میں ہمارے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ اور زائدہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ جس کے لیے رسول اللہﷺ نے حصہ مقرر کیا تو گویا وہ شریک رہا۔
(الامامۃ و الرد علی الرافضۃ: صفحہ، 304)
اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار بالاتفاق بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔
(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 47)