Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مہمانوں کی تکریم

  علی محمد الصلابی

مہمانوں کی تکریم

سیدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اصحاب صفہ فقراء تھے۔ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے … اور خود سیدنا ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کے پاس شام کا کھانا تناول کیا اور کچھ رات گذرنے کے بعد گھر تشریف لائے۔ بیوی نے عرض کیا کس وجہ سے آپؓ نے مہمانوں سے تاخیر کی؟

فرمایا کیا ابھی تک انہیں کھانا نہیں دیا؟

بیوی نے کہا انہوں نے آپؓ کے آئے بغیر کھانے سے انکار کیا، پیشکش کی گئی لیکن وہ نہ مانے۔

میں (عبد الرحمٰن) ڈر کر چھپ گیا۔

والد صاحب نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا اے جاہل! اور سخت و سست کہا اور مہمانوں سے کہا آپ لوگ تناول فرمائیں، واللہ میں نہیں کھاؤں گا۔

مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ ہم اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں کھاتے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شیطان کی طرف سے ہے، پھر کھانا منگوایا اور تناول فرمایا۔

عبد الرحمٰن کہتے ہیں اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے تھے اس کے نیچے اس سے زیادہ ہو جاتا تھا۔ مہمانوں نے آسودہ ہو کر کھانا تناول فرمایا اور کھانا پہلے سے زیادہ ہو گیا، آپؓ نے دیکھا تو پہلے سے زیادہ تھا۔

بیوی سے کہا اے بنو فراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟

اس نے کہا میری آنکھ کی ٹھنڈک! یہ پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔

پھر سیدنا ابوبکرؓ نے کھایا اور فرمایا یہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔

پھر اسے اٹھا کر رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے اور وہ صبح تک آپ کے پاس رہا۔ ہمارے اور مشرکین کے درمیان معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، رسول اللہﷺ نے بارہ افراد کو عریف بنایا اور ہر ایک کے ساتھ ایک جماعت تھی اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ تمام لوگوں نے آسودہ ہو کر وہی کھانا کھایا۔

(البخاری: المناقب صفحہ، 3581 ومسلم: الاشربہ صفحہ، 2057)

درس و عبرت:

اس قصہ میں بہت ساری نصیحتیں اور عبرتیں ہیں

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان آیات و احادیث کو عملی جامہ پہنانے کے انتہائی حریص و شوقین تھے جو مہمان نوازی اور مہمانوں کی تکریم پر ابھارتی ہیں۔

جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ۔

ترجمہ: چکھو مزہ اپنی شرارت کا یہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے

(سورۃ الذاریات: آیت نمبر، 27)

پھر حضرت ابراہیمؑ نے بھنا ہوا بچھڑا مہمانوں کے سامنے پیش کیا اور کہا آپ لوگ کیوں نہیں کھاتے۔

اور رسول اللہﷺ کا ارشاد:

من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ

ترجمہ: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔

(مسلم: جلد، 3 صفحہ، 1353)

اس واقعہ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامت واضح ہوتی ہے، بایں طور کہ جو لقمہ اٹھاتے اس کی جگہ اس سے زیادہ ہو جاتا۔ تمام لوگ آسودہ بھی ہو گئے اور پہلے سے زیادہ باقی بھی رہا، اسے رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا، آپؓ کے پاس بہت سے لوگ آئے اور آسودہ ہو کر کھایا۔

(مجموع الفتاوی: جلد، 11 صفحہ، 152)

آپؓ کو یہ کرامت تمام حالات میں رسول اللہﷺ کی اتباع سے حاصل ہوئی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؓ مقام ولایت پر فائز تھے۔ رسول اللہﷺ کی سچی اتباع کرنے والے ہی اولیاء اللہ ہوتے ہیں، رسول اللہﷺ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ اس کو بجا لاتے ہیں اور جس سے روک دیا اس سے رک جاتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی اقتداء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تائید ملائکہ اور روح الامین کے ذریعہ سے کرتا ہے اور ان کے دلوں کو منور کر دیتا ہے، اور انہیں کرامتیں عطا کرتا ہے، جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کو عزت بخشتا ہے۔

(مجموع الفتاوی: جلد، 11 صفحہ، 152)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبھی قسم نہیں توڑی، یہاں تک کہ کفارہ قسم کی آیت نازل ہوئی۔ فرمایا میں کوئی بھی قسم کھاتا ہوں اور پھر اس کے برعکس کو بہتر پاتا ہوں تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتا ہوں اور وہ کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔

(سنن البیہقی: جلد، 10 صفحہ، 34 بحوالہ موسوعۃ فقہ ابی بکر: صفحہ، 240)

اس واقعہ کے اندر اس پر دلیل موجود ہے بایں طور کہ آپؓ نے مہمانوں کے اکرام میں قسم توڑی اور کھانا تناول فرمایا۔

(موسوعۃ فقہ ابی بکر: صفحہ، 241)