Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت اور اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کا معیارات نقد حدیث میں فرق (قسط 8)

  مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل سنت اور اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کا معیارات نقد حدیث میں فرق

اہل تشیع و اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک بڑا فرق معیارات نقد حدیث کا فرق ہے ، اہلسنت کے ہاں مصطلح الحدیث کا ایک منظم و مرتب فن موجود ہے ، جس میں نقد حدیث کے تفصیلی قواعد مذکور ہیں ، حدیث کی اقسام ، راوی کی جرح و تعدیل کے ضوابط ،حدیث سے استدلال کی شرائط ، راویوں کی انواع و اقسام سے متعلق تفصیلات ذکر ہیں، چنانچہ معروف محقق ڈاکٹر نور الدین عتر نے مصطلح الحدیث کے جملہ فنون کو چھ انواع میں تقسیم کیا ہے:

1۔ علوم رواۃ الحدیث

یعنی وہ ضوابط جن کا تعلق رواۃ حدیث سے ہیں۔

2۔ علوم روایۃ الحدیث

یعنی وہ فنون و علوم جو حدیث کے متحمل ، ادا وغیرہ سے متعلق ہیں۔

3۔ علوم الحديث من حیث القبول اوالرد

یعنی وہ علوم و ضوابط جو حدیث کے قبول و رد سے تعلق رکھتے ہیں۔

4۔ علوم المتن

یعنی وہ ضوابط جو حدیث کے متن سے متعلق ہیں۔

5۔ علوم السند

یعنی فنون و ضوابط جن کا تعلق حدیث کی سند سے ہیں۔

6 العلوم المشترکہ بین السند و المتن

یعنی وہ فنون جن کا تعلق متن وسند دونوں کے ساتھ ہیں۔

(منہج النقد في علوم الحدیث ، نور الدین عتر ، دار الفکر ، دمشق)

ان علوم و فنون اور قواعد و ضوابط کے انطباق میں تو علمائے اہلسنت کا اختلاف رہا ہے کہ کونسی احادیث علوم الحدیث کی رو سے کس قسم میں داخل ہیں؟ جس کی وجہ سے حدیث کے ضعف و صحت ، ارسال و اتصال ، موقوف و مرفوع ، راوی کی عدالت و جرح ، توثیق و تضعیف ، کسی کتاب یا محدث کے معتمد و غیر معتمد ہونے میں بڑے پیمانے پر اختلاف رہا ہے ، لیکن حدیث کو جانچنے کے پیمانے کم و بیش جملہ محدبثین کے ہاں یکساں رہے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط پر اہلسنت کے ذخیرہ حدیث کی ایک ایک روایت کو پرکھا جا چکا ہے ، ہزاروں رواۃ کی جرح و تعدیل کے حوالے سے ضخیم کتب لکھی جاچکی ہیں۔

(اس موقع پر اس کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہاء جب حدیث پر بحث کرتے ہیں، تو اس کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث کرتے ہیں، ورنہ حدیث کے جانچنے کے معیارات فقہاء کے ہاں بھی مصطلح الحدیث کے قواعد و ضوابط ہیں ، یہی وجہ ہے فقہاء و مجتہدین کے مباحث نقد حدیث میں مصطلح الحدیث کے قواعد کا استعمال ہی نظر آتا ہے۔)

اس کے بر خلاف جب ہم اہل تشیع کے معیارات نقد حدیث کو دیکھتے ہیں ، تو ان پر معیار کا اطلاق مشکل ہو جاتا ہے ، حدیث و رواۃ کو پرکھنے سے اہل تشیع روز اول سے آج تک دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہیں:

پہلا گروہ اخباریوں کا ہے ، جبکہ دوسرا گروہ اصولیوں کا ہے ، ہم نقد حدیث کے حوالے سے دونوں کا نقطہ نظر ذکر کرتے ہیں:

اہل تشیع کا اخباری گروہ اور نقد حدیث کا منہج

اہل تشیع کا اخباری طبقہ ، جن میں اہل تشیع کے نامی گرامی اہل علم آتے ہیں ، ان کے نزدیک حدیثی ذخیرے کو کسی بھی معیار پر پرکھنا جائز نہیں ہے ، سارا حدیثی ذخیرہ نہ صرف یقینی طور پر صحیح ہے ، بلکہ بعض اخباریوں کے نزدیک سارا ذخیرہ متواتر ہے ، معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اخباری نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ذهب فريق من الاخباريين الى القول بقطعية الكتب الاربعة ،و تعدى بعضهم الى ما هو ازيد منها۔

(نظریۃ السند في الفكر الامامی الشیعی ، التكون والصيرورة ، حيدر حب الله ، الانتشار العربی، بیروت، ص 225)

ترجمہ :اخباریوں کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کتب اربعہ کی جملہ احادیث قطعی ہیں ، اور ان میں سے بعض اس سے بھی آگے کی طرف گئے ہیں۔ (یعنی انہوں نے تواتر کا قول اختیار کیا ہے۔)

اخباریوں کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث سے احادیث کی جانچ پڑتال کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ یہ علوم اصلا اہلسنت کے علوم ہیں، شیعی علوم نہیں ہیں ، حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

" رفض الإخباريون الترحيب بعلم الرجال والجرح والتعديل والحديث والدراية بحجة أنّ هذه العلوم علوم سنية وليست شيعية"۔

(المدخل الى درایۃ الحدیث، حیدر حب الله ، ص470)

ترجمہ :اخباریوں نے علم رجال، جرح و تعدیل اور حدیث کو پرکھنے کے درایتی معیارات کو ترک کیا ہے ، کیونکہ اخباریوں کے نزدیک یہ علوم اہلسنت سے ماخوذ علوم ہیں ، شیعی علوم نہیں ہیں۔

اخباری مکتب کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث پر اگر احادیث شیعہ کو پرکھیں گے ، تو اکثر یا سب کے سب احادیث ضعیف و موضوع نکلیں گی،

معروف اخباری عالم محمد بن حسن حر عاملی لکھتے ہیں:

أنه يستلزم ضعف أكثر الأحاديث ، التي قد علم نقلها من الأصول المجمع عليها ، لأجلُ ضعف بعض رواتها ، أو جهالتهم ، أو عدم توثيقهم ، فيكون تدوينها عبثا ، بل محرما ، وشهادتهم بصحتها زورا وكذبا ويلزم بطلان الإجماع ، الذي علم دخول المعصوم فيه . أيضا . كما تقدم. واللوازم باطلة ، وكذا الملزوم. بل يستلزم ضعف الأحاديث كلها ، عند التحقيق ، لأن الصحيح . عندهم .: « ما رواه العدل ، الإمامي ، الضابط ، في جميع الطبقات. ولم ينصوا على عدالة أحد من الرواة ، إلا نادراً ، وإنما نصوا على التوثيق ، وهو لا يستلزم العدالة ، قطعا۔

(وسائل الشیعہ، محمد بن حسن حر عاملی ، موسسہ آل البیت ، قم: ج30، ص،259)

ترجمہ : اصولی اصطلاح سے اکثر احادیث کا ضعف لازم آتا ہے ،جو معتبر مجمع علیہ کتب میں منقول ہیں ، کیونکہ بعض راوی ضعیف ، بعض مجہول اور بعض کی توثیق ثابت نہیں ہے ، تو ان احادیث کی تدوین نہ صرف عبث بلکہ حرام ہوگی ،اور ان احادیث کی صحت کی گواہی جھوٹ شمار ہوگی ، بلکہ اجماع شیعہ کا بطلان لازم آئے گا ، جن میں ائمہ معصومین بھی داخل ہیں ، یہ سارے لوازم باطل ہیں ، تو ملزوم یعنی اصولی اصطلاح سے احادیث کو پرکھنا بھی باطل ہوگا۔ بلکہ تحقیقی نگاہ سے دیکھیں ، تو ساری احادیث شیعہ کا ضعف لازم آئے گا، کیونکہ صحیح کی تعریف یہ ہے کہ جو ایسے راوی سے مروی ہو ، جو عادل ہو ، امامی ہو ، جملہ طبقات میں ضابط ہو ،اور محدثین نے کسی راوی کی عدالت کی صراحت نہیں کی ہے، محدثین نے صرف توثیق منقول ہے ، جو عدالت کو مستلزم نہیں۔

چونکہ شیعہ کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات میں ناقابل حل اختلاف موجود ہے ، جیسا کہ ماقبل میں تفصیل سے گزر چکا ہے ، اس لئے یہ مسئلہ بھی اخباری مکتب کو کھٹکا، لیکن اس کی توجیہ اخباری مکتب نے جو کی ہے ، وہ قارئین بھی سن لیں، حر عاملی لکھتے ہیں:

ان اختلاف النسخ المعتمدة نظير اختلاف القراءات في القرآن ، فما يقال هنا يقال هنا۔

(وسائل الشیعہ، محمد بن حسن حر عاملی ، موسسہ آل البیت ، قم ، ج30، ص273)

ترجمہ : ایک کتاب کے معتمد نسخوں کا اختلاف قرآن پاک کی مختلف قراءتوں کے اختلاف کی طرح ہے ،جو توجیہ وہاں کی جاتی ہے ، وہی توجیہ یہاں کی جائے گی۔

بلکہ شیعہ محدث کے نزدیک شیعہ کتب کے نسخوں و مخطوطات کا اختلاف قرآن پاک کی قراءتوں سے بھی بڑھ کر معتمد ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

على إن اختلاف النسخ لايتغير به المعنى ، غالبا ، بخلاف اختلاف القراءات. ومع ذلك فاختلاف النسخ ، والروايات ، لايستلزم التناقض ، لجواز كونهما حديثين متعددين وقعا في مجلسين أو في مجلس واحد ، لحكمة أخرى ، من تقية ونحوها ، بخلاف اختلاف القراءات۔

(وسائل الشیعہ، محمد بن حسن حر عاملی ، موسسہ آل البیت ، قم ، ج30، ص273)

ترجمہ:اختلاف نسخ سے معنی تبدیل نہیں ہوتا ،بخلاف اختلاف قراءت کے ، کہ اختلاف قراءت سے معنی مختلف ہوجاتا ہے ، نیز اختلاف نسخ و اختلاف روایات سے تناقض لازم نہیں آتا، کیونکہ وہ دو متعدد احادیث ہیں ، جو دو یا ایک مجلس میں تقیہ یا کسی اور وجہ سے ائمہ سے صادر ہوئی ہیں ، جبکہ اختلاف قراءت اس طرح نہیں ہے (یعنی اختلاف روایات و اختلاف نسخ سے تو تناقض لازم نہیں آتا جبکہ اختلاف قراءت سے بسا اوقات تناقض لازم آتا ہے ۔ معاذ اللہ )

ان عبارات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخباری مکتب کے ہاں شیعہ ذخیرہ حدیث کی صحت و قطعیت کس درجہ کی ہے ؟ اخباری مکتب فکر نے احادیث کے حوالے سے جو نقطہ نظر اختیار کیا ہے ، وہ انتہائی غیر علمی ، غیر تحقیقی اور اندھے اعتقاد پر مبنی ہے ، علم و تحقیق کے میدان میں اسے محض خواہش اور دعوی بلا دلیل کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس نقطہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ کتب اربعہ کی چالیس ہزار احادیث ، ان احادیث کو روایت کرنے والے ہزاروں راوی، ان کتب کو نسلا بعد نسل لکھنے والے ہزاروں نساخ سب کے سب ہی غلطی ، تسامح اور ہر قسم کی بھول چوک سے مکمل طور پر معصوم اور پاک ہیں ، اس لئے ان کی روایتوں کو کسی بھی پیمانے پر پرکھنا ناجائز ہے ۔ علم و تحقیق کے میدان میں کسی ایک فرد کا اس طرح کا دعوی مضحکہ خیز ہے لیکن اگر سینکڑوں سال سے ایک پورا طبقہ نسل در نسل اس طرح کا غیر منطقی دعوی کرے ، تو اس کے لئے مضحکہ خیز سے آگے کوئی تعبیر ہوگی۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

اخباری مکتب فکر نے شیعہ حدیثی ذخیرے سے متعلق جو موقف اختیار کیا ہے ، چونکہ وہ نہایت غیر علمی ہے ، اس لئے اس کی شناعت کم کرنے کے لئے بعض شیعہ محققین نے اس سے ملتے جلتے موقف کی نسبت اہلسنت کی طرف بھی کی ہے ، تاکہ بجواب آن غزل اہل سنت بھی اس غیر منطقی دائرے میں آ سکیں، چناچہ شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

"لا تقتصر نزعة اليقين على الوسط الشيعي الإمامي، بل هي موجودة في الوسط السني أيضاً، فبعض أهل السنة يذهبون إلى ما يشبه مطابقة كل حرف من صحيحي مسلم والبخاري للواقع، ويرون أنهما أصح الكتب بعد القرآن الكريم"۔

(المدخل الى موسوعۃ الحدیث، حید ر حب الله ، ص314)

ترجمہ: ذخیرہ حدیث سے متعلق یقین کا موقف صرف امامی حلقوں کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ سنی حلقے میں اس موقف کے حامل لوگ موجود ہیں ، چنانچہ بعض اہل سنت اس قسم کے موقف کی طرف گئے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم کی ہر حدیث صحیح ہے ، اور واقع کے مطابق ہے، نیز اہل سنت صحیحین کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہتے ہیں۔

یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ، جو شیعہ محقق نے کمال ہوشیاری سے مکتب اخباری کے غیر منطقی دعوے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اٹھایا ہے ،اس مغالطے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب شرح نخبة الفکر میں صحیح احادیث کے درجات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

"و تفاوت رتبه اى الصحيح بسبب تفاوت هذه الاوصاف المقتضية للتصحيح في القوة ،فانها لما كانت مفيدة لغلبة الظن الذي عليه مدار الصحة اقتضت ان يكون لها درجات ،بعضها فوق بعض ،بحسب الامور المقوية ،و اذا كان كذالك فما تكون رواته في الدرجة العليا من العدالة و الضبط و سائر الصفات التي توجب الترجيح كان اصح مما دونه "۔

(شرح نخبۃ الفکر ، ابن حجر عسقلانی، ص72)

ترجمہ : صحیح کے درجات میں صحیح کے مقتضی اوصاف میں فرق کی وجہ سے تفاوت ہے ، کیونکہ جب یہ صفات ، جن پر صحت کا مدار ہے ،جب غلبہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں ، تو اس کا تقاضا ہے کہ ان امور تقویت کی وجہ سے بعض درجات بعض سے اوپر ہو ،لھذا جن احادیث کے رواۃ عدالت ، ضبط اور دیگر اوصاف صحت میں اعلی درجے کے ہوں ، تو وہ احادیث ان احادیث سے درجہ صحت میں اعلی درجہ پر فائز ہو گی ، جن کے رواۃ اس در جے کو نہیں پہنچتے ۔

اس کے بعد امام عسقلانی نے ان احادیث کی نشاندہی کی ہے ، جو اپنی رواۃ کی عدالت ، ضبط و دیگر اوصاف کی برتری کی وجہ سے دیگر احادیث سے صحت میں برتر ہیں ، ان میں سب سے اعلی درجہ صحیحین کا ہے ، کیونکہ صحیحین کے رواۃ کی عدالت ،ضبط ،اتصال وغیرہ بنسبت دیگر کتب کی رواۃ سے اعلی درجہ کی ہیں ، پھر خود صحیحین میں موازنہ کرتے ہوئے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر درجہ ذیل وجوہ سے فوقیت دی ہے :

1۔ صحیح بخاری کی احادیث اتصال میں بنسبت صحیح مسلم کے زیادہ قوی ہیں، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے راوی و مروی عنہ میں معاصرت کی بجائے لقاء کی شرط لگائی ہے۔

2۔ صحیح بخاری کے رواۃ صحیح مسلم کے رواۃ سے عدالت و ضبط میں فائق ہیں، کیونکہ صحیح بخاری میں متکلم فیہ رواۃ کی تعداد صحیح مسلم سے کم ہے۔

3۔ صحیح بخاری کی احادیث عدم شذوز و عدم اعلال میں صحیح مسلم سے فائق ہیں ، کیونکہ صحیح بخاری کی قابل نقد احادیث صحیح مسلم کی احادیث سے کم ہیں ۔

(شرح نخبۃ الفکر ، ابن حجر عسقلانی، ص75)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر نے بقیہ کتب کی بنسبت صحیحین کی احادیث کی اولویت پھر صحیحین میں صحیح بخاری کے ارجح واضح ہونے کی جو بات کی ہے ، وہ مکتب اخباری کی طرح محض اعتقاد اور دعوی بلا دلیل پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ اس وجہ سے ہے کہ صحیحین کی احادیث مصطلح الحدیث کے قواعد وضوابط پر پرکھنے کے بعد صحت میں بقیہ کتب سے فائق ثابت ہوئی ہیں ۔ کسی کتاب کو محض اعتقادی بنیاد پر یقینی قرار دینا اور بات ہے ، جبکہ کسی کتاب کو قواعد وضوابط پر پرکھنے کے بعد یقینی قرار دینا بالکل الگ بحث ہے ، چنانچہ حافظ بن حجر اس بحث کے اختتام پر کہتے ہیں:

"فالصفات التي تدور عليها الصحة في كتاب البخارى اتم منها في كتاب مسلم و اشد "

(شرح نخبۃ الفکر ، ابن حجر عسقلانی، ص75)

ترجمہ : پس وہ صفات ، جو حدیث کی صحت کے لئے معیار ہیں ، وہ صحیح بخاری میں بنسبت صحیح مسلم کے زیادہ اتم و اشد در جے میں پائی جاتی ہیں۔

خلاصہ یہ نکلا کہ اہلسنت کے ہاں صحیحین کی بقیہ کتب حدیث پر ارجحیت کا جو قول ہے ، وہ صحیحین کی احادیث میں شرائط صحت کے پائے جانے کی وجہ سے ہیں ، جبکہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کی صحت کا جو دعوی کیا ہے وہ کسی معیار پر پرکھنے ، شیعہ علوم الحدیث میں شرائط صحت پر جانچنے کے بغیر محض کتب اربعہ کے مصنفین سے حسن ظن و فرط اعتقاد کی بنیاد پر کیا ہے ۔ اور نہ تو پیچھے حر عاملی کا قول گزر چکا ہے کہ اگر مصطلح الحدیث کے قواعد صحت پر کتب اربعہ کو پرکھا جائے ، تو اکثر یا تمام احادیث کو ضعیف کہنا پڑے گا۔ تحقیق کے بعد یقین کا قول اپنانا(جیسا کہ صحیحین کی احادیث کو قواعد پر پرکھنے کے بعد یقینی کہنا) اور بلا تحقیق یقین کا قول اختیار کرنے (جیسا کہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کے بارے میں کہا ہے) میں بعد المشرقین ہے۔ چنانچہ معروف شیعہ عالم مازندرانی شرح اصول کافی کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

أكثر أحاديث الأصول في الكافي غير صحيحة الإسناد ومع ذلك أورده الكليني - رحمه الله - معتمدا عليها لاعتبار متونها وموافقتها للعقائد الحقة ولا ينظر في مثلها إلى الإسناد۔

(شرح اصول کافی ، صالح مازندرانی، ج 1، ص10)

ترجمہ :کافی کی اکثر احادیث باعتبار سند کے صحیح نہیں ہیں ، اس کے باوجو د امام کلینی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ ان کے متون عقائد حقہ کے موافق ہونے کی بنا پر معتبر ہیں ، اور ان جیسی روایات میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا۔

کیا علمائے اہلسنت نے صحیحین کے بارے میں اس قسم کا دعوی کیا ہے ؟ کہ اسناد صحیح نہ ہونے کے باوجود صحیحین کی احادیث صحیح شمار ہونگی ؟ یا علمائے اہلسنت نے صحیحین کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک راوی کو قواعد علوم الحدیث پر پرکھنے کے بعد ان کی صحت کا نظریہ اپنایا ہے؟

(جاری ہے)