سیدنا عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ رضی اللہ عنہ کا مؤقف
علی محمد الصلابیسیدنا عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپؓ کا مؤقف
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا، رات کو اٹھا تو دیکھتا ہوں کہ لشکر کی ایک جانب سے شعلہ نظر آرہا ہے۔ میں اس کی طرف بڑھاتا کہ دیکھوں کیا ہے؟ دیکھا، رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ عبداللہ ذوالبجادین مزنی کا انتقال ہو چکا ہے۔ قبر کھودی جا چکی ہے۔ رسول اللہﷺ قبر میں ہیں اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ میّت کو قبر میں اتار رہے ہیں اور رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں اپنے بھائی مجھ سے قریب کرو دونوں نے قبر میں ان کو اتار دیا اور رسول اللہﷺ نے جب ان کو قبر میں لٹا دیا، فرمایا اے اللہ! میں ان سے راضی ہوں، تو بھی ان سے راضی ہو جا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کاش اس قبر والا میں ہوتا۔
(صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 598)
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب میّت کو لحد میں داخل کرتے تو کہتے بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم وبالیقین وبالبعث بعد الموت۔
(مصنف عبدالرزاق: جلد، 3 صفحہ، 497 بحوالہ موسوعۃ فقہ الصدیق: صفحہ، 222)
رسول اللہﷺ سے مسلمانوں کے لیے دعا کا مطالبہ:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ہم سخت گرمی میں تبوک روانہ ہوئے، راستہ میں ایک جگہ ہم نے پڑاؤ ڈالا، ہمیں شدت کی پیاس لگی، ہمیں گمان ہونے لگا کہ ہماری موت قریب آگئی ہے۔ انسان پانی کی تلاش میں نکلتا اور واپس نہ آتا۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگتا کہ اس کی وفات ہو گئی۔ پیاس کی شدت کی حد یہ ہو گئی کہ انسان اپنے اونٹ کو ذبح کرتا اور اس کی اوجھ کو نچوڑ کر پیتا اور باقی کو اپنے کلیجے پر مل لیتا۔
ان حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعا میں خیر کا عادی بنایا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتے ہو؟
کہا: ہاں۔
رسول اللہﷺ نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے اور برابر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ بدلی اٹھی اور تیز بارش ہوئی، لوگوں نے اپنے پانی کے برتن بھر لیے، پھر ہم دیکھنے نکلے تو لشکر سے باہر بارش کا اثر نہ پایا۔
(ابنِ حبان: الجہاد، باب غزوۃ تبوک: صفحہ، 1707 موارد)
غزوۂ تبوک میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا عطیہ:
رسول اللہﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر بقدر استطاعت عطیات دینے پر ابھارا کیونکہ سفر لمبا تھا، دشمن کی تعداد زیادہ تھی اور عطیات دینے والوں کے لیے اللہ کی جانب سے اجر عظیم دیے جانے کا وعدہ کیا۔ ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق عطیات پیش کیے۔ اس غزوۂ میں حضرت عثمانؓ نے سب سے زیادہ عطیہ پیش کیا۔ [4]
(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ: صفحہ، 615)
اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال عطیہ کر دیا اور ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آج وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جائیں گے۔
وہ خود بیان فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے ہمیں عطیات پیش کرنے کا حکم فرمایا، اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے سمجھا کہ آج میں حضرت ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ میں نے اپنا نصف مال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
رسول اللہﷺ نے دریافت کیا عمرؓ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟
میں نے عرض کیا: اسی کے مثل۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
آپ نے ان سے پوچھا: اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟
فرمایا: ان کے لیے اللہ و رسولﷺ کو چھوڑ کر آیا ہوں۔
میں نے کہا: میں کبھی کسی چیز میں آپ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔
(ابوداود: الزکاۃ جلد، 2 صفحہ، 312/313 (1678) علامہ البانیؒ نے اسے حسن کہا ہے)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رشک و مسابقت کا جو معاملہ کیا وہ مباح تھا، لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حالت ان سے بہتر و افضل تھی کیونکہ ان کے اندر منافست و مقابلہ نہ تھا اور دوسرے کی طرف ان کی نگاہ نہ تھی۔
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: جلد، 1 صفحہ، 72/73)