Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فتح مکہ، حنین و طائف میں

  علی محمد الصلابی

فتح مکہ، حنین و طائف میں

الف: فتح مکہ 8 ہجری میں:

صلح حدیبیہ کے بعد فتح مکہ کا سبب وہ تھا جسے محمد بن اسحٰقؒ نے بیان کیا ہے زہری عن عروہؓ کے طریق سے مسور بن مخرمہؓ اور مروان بن الحکمؓ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے۔ صلح حدیبیہ کی ایک دفعہ یہ تھی کہ جو محمدﷺ کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہو جائے اور جو قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہو جائے۔ چنانچہ بنو خزاعہ کے لوگ رسول اللہﷺ کے عہد و پیمان میں داخل ہو گئے اور بنو بکر کے لوگ قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہو گئے اور یہ کیفیت سترہ (17) یا اٹھارہ (18) ماہ تھی، پھر بنو بکر نے مکہ سے قرب وتیر کے چشمہ پر بنو خزاعہ پر راتوں رات حملہ کر دیا۔ قریش نے سوچا محمدﷺ کو کیا خبر اور رات کے وقت ہمیں کون دیکھتا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی عداوت میں بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی سواریوں اور اسلحہ سے بھرپور مدد کی اور ان کے ساتھ مل کر قتال کیا چنانچہ عمرو بن سالم خزاعیؓ ان حالات میں مدینہ پہنچے اور رسول اللہﷺ سے امداد طلب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا

اللہم انی ناشدٌ محمدا

حلف ابینا وابیک الاتلدا

اے اللہ! میں محمدﷺ سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہد کی دہائی دے رہا ہوں۔

فانصر ہداک اللّٰہ نصرا اعتدا

وادع عباد اللّٰہ یاتوا مددا

(یہاں اشارہ اس عہد کی طرف ہے جو بنو خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبد المطلب کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔ مترجم)

اللہ آپ کو ہدایت دے، آپ پر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکا ریے وہ مدد کو آئیں گے۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا اے عمرو بن سالم تیریؓ مدد کی گئی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 4 صفحہ، 44)

نبی کریمﷺ نے صحابہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کر دی اور اس کو پردہ راز میں رکھا اور اللہ سے دعا کی کہ اللہ قریش کو اس سے بے خبر رکھے یہاں تک کہ مسلم فوج اچانک مکہ کو فتح کرے۔ ادھر قریش کو اس بات کا خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں رسول اللہﷺ کو ان کے کیے کی اطلاع نہ مل جائے۔

چنانچہ ابو سفیانؓ مکہ سے رسول اللہﷺ کی طرف روانہ ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا

اے محمد! عہد کو مزید مضبوط کر لیجیے اور مدت میں اضافہ کر دیجیے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تم اسی غرض سے آئے ہو؟ کیا تمہاری طرف سے کوئی بات ہوئی ہے؟

اس نے کہا معاذ اللہ ہم تو اپنے حدیبیہ والے عہد و صلح پر قائم ہیں، اس میں کسی طرح کا تغیر و تبدل نہیں کر سکتے۔

پھر اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات کرنے کے لیے آپ کے پاس سے رخصت ہوا۔

(التاریخ السیاسی والعسکری: د، علی معطی صفحہ، 365 الطبری: جلد، 3 صفحہ، 43)