Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غزوۂ خیبر، سریہ نجد اور بنی فزارہ میں

  علی محمد الصلابی

غزوۂ خیبر، سریہ نجد اور بنی فزارہ میں

الف۔ غزوہ خیبر میں:

رسول اللہﷺ نے خیبر کا محاصرہ کیا اور ان سے قتال کی تیاری کی، سب سے پہلے قائد جن کو رسول اللہﷺ نے خیبر کے بعض قلعوں کی طرف روانہ فرمایا وہ ابو بکرؓ تھے، آپؓ نے قتال کیا، لیکن وہ قلعہ فتح نہ ہوا۔ پھر عمرؓ کو روانہ کیا آپؓ نے بھی قتال کیا اور فتح حاصل نہ ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا کل میں پرچم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ و رسول سے محبت رکھتا ہے، تو وہ شخص علیؓ تھے۔

(فتوح البلدان: جلد، 1 صفحہ، 26)

بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ کھجور کے باغات کاٹ دیے جائیں تا کہ اس سے یہود کمزور پڑ جائیں گے، آپﷺ نے اس مشورہ کو پسند کر لیا، مسلمان جلدی جلدی درخت کاٹنے لگے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو درخت نہ کاٹنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لیے بہر صورت نقصان ہے، چاہے خیبر زبردستی فتح ہو یا صلح سے۔ رسول اللہﷺ نے آپ کا مشورہ قبول فرمایا اور مسلمانوں کو کھجور کاٹنے سے منع فرما دیا، پھر مسلمان اس سے رک گئے۔

(المغازی للواقدی: جلد، 2 صفحہ، 643)

ب۔ سریہ نجد میں:

ابنِ سعدؓ نے طبقات میں ایاس بن سلمہؓ سے روایت کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نجد کی طرف روانہ کیا اور انہیں ہم پر امیر مقرر کیا، ہم نے ہوازن کے کچھ لوگوں پر شب خون مارا، میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھر والوں کو قتل کیا اور ہمارا شعار أَمِتْ أَمِتْ تھا۔

(الطبقات الکبری: جلد، 1 صفحہ، 124 ابوداود: الجہاد باب فی البیات، جلد، 3 صفحہ، 43)

ج۔ سریہ بنی فزارہ میں:

امام احمد بن حنبلؒ نے ایاس بن سلمہؓ کے طریق سے روایت کی وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابو بکر بن ابی قحافہؓ کے ساتھ نکلے اور رسول اللہﷺ نے انہیں ہمارا امیر مقرر فرمایا، ہم نے ان کی قیادت میں بنو فزارہ سے جہاد کیا، جب ہم چشمے کے پاس پہنچے، ابوبکرؓ کے حکم سے ہم نے وہاں رات کو قیام کیا، جب ہم نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تو آپؓ نے ہمیں حملہ کرنے کا حکم فرمایا اور ہم نے ان لوگوں سے قتال کیا، جو ہم سے قبل چشمے پر گزرے تھے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے پہاڑ کی جانب کچھ لوگوں کو دیکھا جن میں خواتین اور بچے تھے، میں نے تیر چلایا جو پہاڑ اور ان کے درمیان گرا، میں ان سب کو قید کر کے ابو بکرؓ کے پاس لایا اور چشمے پر آپؓ سے ملا۔ ان میں ایک خاتون تھی جو چمڑے کی پرانی پوستین پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ ایک بچی تھی جو عرب میں سب سے زیادہ حسین تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مجھے عطا کیا، میں نے اس کا کپڑا نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گیا اور رات گزاری، لیکن اس کا کپڑا نہیں اٹھا، بازار میں مجھے رسول اللہﷺ ملے اور فرمایا سلمہؓ اس خاتون کو مجھے دے دو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم یہ خاتون مجھے پسند آگئی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں اٹھایا ہے۔ اس پر آپ خاموش ہو گئے اور چلے گئے، پھر دوسرے دن بازار میں رسول اللہﷺ مجھ سے ملے اور فرمایا اس خاتون کو مجھے دے دو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں اٹھایا ہے اور یہ آپ کے لیے ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس کو مکہ والوں کو دے کر ان مسلم قیدیوں کو رہا کرایا جو مکہ والوں کے ہاتھ میں تھے۔

(احمد: جلد، 4 صفحہ، 43 الطبقات: جلد، 4 صفحہ، 164)