غزوۂ بنو نضیر، بنو مصطلق، خندق اور غزوہ بنو قریظہ میں
علی محمد الصلابیغزوۂ بنو نضیر، بنو مصطلق، خندق اور غزوہ بنو قریظہ میں
الف. غزوۂ بنو نضیر میں:
بنو عامر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین معاہدہ تھا۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے غلطی سے لا علمی میں بنو عامر کے دو افراد کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے خون بہا کی ادائیگی میں تعاون کے لیے بنو نضیر کے یہاں تشریف لے گئے، کیونکہ معاہدہ کی رو سے یہ اعانت ان پر واجب تھی۔ بنو نضیر اور بنو عامر کے مابین بھی معاہدہ تھا، جب آپ ان کے پاس پہنچے اور خون بہا کی بات رکھی، انہوں نے تعاون کے سلسلہ میں آپ سے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اور کہا: ابوالقاسم ہم ویسا ہی کریں گے جیسا آپ چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے، ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے اور آپس میں کہا: ایسا زرّیں موقع ہاتھ نہ آئے گا، کون ہے جو اس گھر کی چھت پر چڑھ جائے اور اوپر سے بھاری پتھر گرا کر کچل دے اور ہمیں ان سے نجات مل جائے؟ اس پر ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش تیار ہوا اور کہا: میں یہ کارنامہ انجام دوں گا۔ پھر وہ اس گھر پر چڑھ گیا جس کی دیوار کے سایہ میں آپ تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کی جماعت موجود تھی، جن میں ابوبکر و عمر اور علی رضی اللہ عنہم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کے ناپاک عزائم سے باخبر کر دیا، آپ تیزی سے اٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ جب آپ کے آنے میں تاخیر ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی تلاش میں نکل پڑے راستے میں مدینہ سے آنے والے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا میں نے آپ کو مدینہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا، پھر صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہودیوں کی سازش و غداری کی اطلاع دی۔
مدینہ واپس آکر آپ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینہ سے نکل جاؤ اب تم یہاں نہیں رہ سکتے۔ ادھر منافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو، ڈٹ جاؤ، ہم تمہاری مدد کریں گے، اس سے ان کی ہمت بڑھ گئی۔ حی بن اخطب اکڑ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ کو جو کرنا ہے کر لیں، اور معاہدہ کے توڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس صورت حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بنو نضیر کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا، صحابہ نے پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا، بنو نضیر نے اپنے قلعوں میں پناہ لے لی۔ محاصرہ پندرہ رات تک جاری رہا، یہود قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے۔ چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے۔ ان کے حوصلے پست ہو گئے، ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے، آپ نے ان کی جلا وطنی کی پیش کش منظور فرما لی اور یہ بھی منظور فرما لیا کہ اسلحہ کے سوا باقی جتنا ساز و سامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔ اسی سلسلہ میں سورۂ حشر کا نزول ہوا۔
(البخاری: المغازی،حدیث بنی النَّضیر: جلد، 5 صفحہ، 217 مغازی الواقدی: جلد، 1 صفحہ، 363 البدایۃ والنہایۃ: جلد، 4 صفحہ، 86)
ب. غزوۂ بنو مصطلق میں:
بنو مصطلق نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا پروگرام بنایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر ان کے مقابلے میں نکلے، وہاں پہنچ کر آپ نے مہاجرین کا پرچم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عطا کیا اور بعض لوگوں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا نام لیا ہے اور انصار کا پرچم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو عطا کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا: لوگو! لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لو، تمہاری جان ومال سب محفوظ ہو جائے گا۔ انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور مسلمانوں پر تیر برسانے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حملے کا حکم دے دیا، صحابہ نے ایک بارگی ان پر حملہ کیا ان میں سے کوئی بھاگ نہ سکا، دس کو قتل کیا اور باقی کو گرفتار کر لیا اور مسلمانوں میں سے صرف ایک صحابی شہید ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 4 صفحہ، 157)
ج. غزوۂ خندق اور بنو قریظہ میں:
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان دونوں غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔ خندق کھودنے کے موقع پر مٹی اپنے کپڑے میں بھر کر منتقل فرماتے، متعینہ مدت میں خندق کی کھدائی میں صحابہ کے ساتھ مل کر جلدی کی، جس کی وجہ سے خندق کی تجویز مشرکین کے مقابلہ میں کارگر ثابت ہوئی۔
(مواقف الصدیق مع النبی صلي الله عليه وسلم فی المدینۃ: صفحہ، 32)