کیا ہندؤ لڑکی سے نکاح اہل کتاب سے نکاح شمار ہو گا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: زید کے شاریہ نامی ہندو لڑکی سے ناجائز تعلقات تھے، اسی بناء پر مذکورہ لڑکی کو بچہ ہو گیا، جس کے بعد زید نے مذکورہ لڑکی سے نکاح کیا اور پھر سے وہ لڑکی حاملہ ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ نکاح سے قبل جو بچہ پیدا ہوا کیا وہ ثابت النسب ہو گا؟ اور کیا مذکورہ نکاح منعقد ہے؟ جبکہ زید کا کہنا ہے کہ کسی عالم سے پوچھ کر اس نے اہلِ کتاب سے شادی کی ہے جس کا منعقد ہونا خود قرآن سے ثابت ہے۔ واضح رہے کہ شاریہ ابھی تک اپنے پرانے مذہب پر قائم ہے بت پرستی وغیرہ ترک نہیں کی۔ تو کیا زید کا نکاح درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر دوسرا بچہ جو کہ ابھی تک ماں کے پیٹ میں ہے کے نسب کا کیا بنے گا؟ نیز دونوں بچے مذہباً مسلم ہے یا ہندو؟ کیا تصور کئے جائیں گے؟
جواب: شریعت مطہرہ نے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، لیکن مشرکین بت پرستوں وغیرہ کی عورتوں سے نکاح کو حرام اور باطل کہا ہے، اور نکاح باطل سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ مسمی زید نے شاریہ نامی ہندو لڑکی (جو کہ اہلِ کتاب نہیں ہے) کے ساتھ نکاح کیا ہے اس لئے یہ نکاح باطل اور حرام ہے، اور اس نکاح سے پیدا بچہ ثابت النسب شمار نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ دونوں بچے ثابت النسب شمار نہیں ہوں گے وہ بچہ بھی جو نکاح سے پہلے پیدا ہوا اور وہ بھی جو نکاح کے بعد پیدا ہوا، البتہ وہ بچے مسلمان شمار ہوں گے نیز اگر وہ عورت اسلام قبول کر لے تو اس کے ساتھ نکاح درست ہو گا اور اس کے بعد جو بچہ ہو گا وہ ثابت النسب ہو گا۔
(نجم الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 498)