جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیار حق نہ سمجھے اس سے نکاح کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: جو صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو معیارِ حق نہ سمجھتا ہو، اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیارِ حق ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ یعنی تم بھی ایسا ہی ایمان لاؤ جیسا ایمان لائے ہیں اور لوگ۔
نیز ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَآ اٰمَنۡتُمۡ بِهٖ فَقَدِ اهۡتَدَوْا سو اگر وہ بھی اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی راہ پر لگ جائیں گے
رسول اللہﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اصحابي كالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم یعنی میرے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اتباع کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال حجت ہیں ان سے عدول جائز نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واسطہ سے دین (قرآن و سنت) ہم تک پہنچا ہے۔ لہٰذا قرآن و سنت کی جو تشریح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے قول یا عمل سے کر دی وہ بلاشبہ اتباع کے لائق ہے۔ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو پورا دن مشکوک ہو کر رہ جائے گا۔ ہر شخص اپنی من پسند تشریح ہو قرآن و حدیث کا مد اول قرار دے گا اور زیغ و ضلال یہ گھاٹیوں میں رواں دواں ہو جائے گا۔ یہ صرف ایک خیال یا کتابوں میں موجود چیز نہیں بلکہ عملاً جن اشخاص نے جماعتوں نے یہ اختیار کی اور ہر بات میں براہِ راست قرآن و حدیث سے استفادہ کو اپنا منشور بنایا وہ گمراہ ہو گئے۔ اہلِ سنت والجماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیارِ حق سمجھتے ہیں، اہلِ سنت کے ہاں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل تھے۔
لہٰذا جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیارِ حق نہ سمجھتا ہو وہ اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہے۔ اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی صورت میں مستقبل کے جھگڑوں نیز بچوں کے نظریات و افکار اور سب سے بڑھ کر لڑکی کے اپنے عقائد پر بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ایسے فراخ سے نکاح جیسے معاملات کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
(نجم الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 499)