محرم میں حلیم و شربت بنانے اور اس کے کھانے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: محرم میں جو حلیم بنائی جاتی ہے اگر سیدنا حسینؓ یا کسی بھی غیر اللّٰہ کے نام پر بنائی جائے تو کیا اس کا کھانا ویسے ہی حرام ہے جیسے غیر اللّٰہ کے نام پر ذبح شدہ جانور کا کھانا حرام ہے؟ یا اس میں کچھ تخفیف ہے؟
اگر حلیم اللّٰہ تعالیٰ جل جلالہ کے نام پر بنائی جائے اور سنی بنائیں تو کیا اس کا کھانا حلال ہے؟ یا تشبہ بالروافض کی وجہ سے حرام ہے؟ تفصیلاً بتائیں کہ یہ حلیم حرام ہے یا مکروہ یا حلال ہے؟ یا اس کا کیا حکم ہے؟ نیز بارہ ربیع الاول اور رجب میں تقسیم ہونے والی چیزیں ان کا کیا حکم ہے؟
اگر ہمارے گھر میں حلیم یا محرم کا شربت وغیرہ آئے تو اسے لے لیں یا نہیں؟ ہمارے دوستوں کی اس بارے میں تین رائے ہیں۔
(1) لے لیا جائے اور ضائع کردیا جائے۔
(2) نہ لیا جائے، دروازے سے واپس کر دیا جائے۔
(3) لے لیا جائے، گھر کے اندر کھا بھی لیا جائے کیونکہ یہ حلال ہے۔ آپ ہمیں بتائیں کس کی بات صحیح ہے؟ کیوں اور کیسے صحیح ہے؟ دلائل سے جواب دیں۔
اگر تشبہ کی وجہ سے روافض کی یہ حلیم کھانا حرام ہے تو پھر آج کل تو تشبہ نہیں رہا بلکہ تمام سنی (یا اکثر) تو بہرحال محرم میں حلیم اور شربت بناتے ہیں لہٰذا تشبہ ختم ہو گیا اس لئے یہاں کچھ تخفیف ہو گی یا ہونی چاہئے؟
نیز ان اشیاء کو لے کر ضائع کر دیا جائے تو رزق ضائع کرنے کا وبال تو نہیں ہو گا؟ یا اسے غریب کو دے دیا جائے تو غیر کو حرام مال کھلانے کا وبال وعیدیں تو لازم نہیں آئیں گی؟
جواب: علامہ شامیؒ نے ردمختار میں لکھا ہے کہ جب روافض نے عاشورہ کے دن سیدنا حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے غم کے اظہار اور ماتم وغیرہ کی بدعت کو اختیار کیا تو جاہل سنی عوام نے ان کی دیکھا دیکھی مخصوص قسم کے کھانے حلیم شربت وغیرہ بنانے کی بدعت گھڑ لیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مذکورہ بدعت بدعتِ شنیعہ ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
اگر محرم کے مخصوص ایام میں پکائی جانے والی حلیم اور شربت کی سبیل غیر اللّٰہ کے نام پر ہو تو نص قرآنی :وما اھل لغیر اللّٰه: کے تحت اس کا کھانا حرام ہے اور اس کی حرمت اور غیر اللّٰہ کے نام پر ذبح شدہ جانور کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔
اگر یہ حلیم شربت وغیرہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے نام پر بنائی جائے اور سنی بنائے تو یہ :فی نفسه: تو حلال ہے لیکن اس کیلئے کسی دن کی تخصیص (مثلاً یوم عاشورہ بارہ ربیع الاول اور ماہ رجب وغیرہ کی) کرنا اور التزام وغیرہ ایسے اُمور ہیں کو سراسر بدعت اور گمراہی ہیں۔ لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے۔
ان خاص ایام میں کہیں سے حلیم وغیرہ گھر میں بھیجی جائے تو اسے نہ لینا چاہئے۔ تا کہ اس سے بدعت کی تائید اور اشاعت میں معاونت نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کی معاونت نہ کرو لیکن اگر واپس کرنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو لے کر فقراء اور محتاجوں کو دے دیں، اس پر کوئی وبال نہ ہو گا۔
اکثر سنی عوام کا ان خاص ایام میں روافض کی دیکھا دیکھی حلیم و شربت وغیرہ بنانا اس سے اس حکم میں کچھ تخفیف نہ ہو گی، کیونکہ مذکورہ امر تشبہ بالروافض کے ساتھ بدعتِ قبیحہ بھی ہے جس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
(نجم الفتاویٰ: جلد، 1 صفحہ، 250)